جدید دور میں ادیب کا کردار۔ از قلم : عصمت اسامہ ۔
از قلم : عصمت اسامہ ۔
علامہ اقبال نے فرمایا تھا
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
ایک ادیب اور لکھاری کا قلم معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے،وہ انسانیت کے مسائل کو سمجھتا ہے،وہ اپنی دماغ سوزی اور درد مندی سے ان مسائل کا حل تلاش کرتا ہے،وہ اپنی فکر_خام کو لفظوں میں پگھلا کر قلم سے قرطاس پر منتقل کرتا ہے،اس کی مقصدیت لوگوں کی سوچ کو بدلنے لگتی ہے،اس کا درد_ دل انسانیت کے زخموں کا مرہم بن جاتا ہےاور پھر وہ منزل آتی ہے کہ اس کے قلم پارے ،شہ پارے بن جاتے ہیں اور اس کے قلم کی تاثیر رنگ لے آتی ہے اور پھر یہ عالم ہوتا ہے کہ بقول شاعر
جس طرف بھی چل پڑے آبلہ پایان_شوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا
موجودہ دور کمیونیکیشن سائینسز اور موبائل جرنلزم کا دور کہلاتا ہے ۔آپ کے ہاتھ میں جو اسمارٹ فون ہے ،آپ اس سے دعوت دین کا کام بآسانی کرسکتے ہیں۔بمط...