Sunday, May 12
Shadow

تصویر کہانی

بچپن کا سیالہ

بچپن کا سیالہ

تصویر کہانی
جاوید خوشحال خان/ یہ پیاری  سی بچی راولاکوٹ کے نواحی گاوں بن بہک سے تعلق رکھنے والی ہے۔ اس کو سردی اور برف باری سے انجوائے کرتے ہوۓ دیکھ کر ہمیں بھی بچپن کا سیالہ یاد آگیا۔ ہمارے بچپن کے سیالے میں پہناوے بہت معنی رکھتے تھے۔ " منگر" کے مہینے سے  بڑی باجیاں سویٹر اور ٹوپیاں بننا شروع کر دیتیں۔یہ وہ وقت ہوتا تھا جب گھروں  میں اون کے دھاگوں  کے گولے بکثرت ہوتے تھے۔اور یہی وقت ان منچلوں  کیلئے آئڈیل تھا،   جو پلاسٹک کی تھیلی سے پتنگ بناتے۔اون کے دھاگوں کے ٹکڑے جوڑ جوڑ کر پتنگ اڑاتے۔جب دھاگے نا پید سے ہو جاتے تو ہم  " طاقوں " سے پورا گولہ لے اڑتے۔ اور خوب انجوائے کرتے لیکن اسکے بعد شام میں دل کھول کر چھتر کھاتے۔ بہرحال " پوہ" اور "ماہ" کے مہینوں  میں جب خوب"سنتی" تھی، (برف) تو یہی اون سے بنے گرم سویٹر , ٹوپیاں اور جرابیں بچے اور بڑے سبھ...
حویلی برف کی لپیٹ میں

حویلی برف کی لپیٹ میں

تصویر کہانی
کہانی کار:   شمائلہ عبیر چوہدری   /  تصاویر: چوہدری بشارت حویلی آزاد کشمیر برف باری کے بعد خوبصورتی کا عکس پیش کر رہا ہے۔ کہیں جھاڑیاں برف تلے دبی ہیں تو کہیں سڑک پر چلنے والا۔ ہر فرد اپنے نشان چھوڑے دور تک اپنی منزل کا پتہ دے رہا ہے ۔ چڑھتے سورج کو ہی دیکھ لیں ۔کیسے چراغ سی روشنی بکھرتا ہوا ابھر رہا ہے اور ذرا بلند ہوتے ہی سفید برف پر سنہری و آتشی روشنی بکھر رہا ہے ۔پھر پہاڑی جانور کتنی جانفشانی سے اپنا رزق تلاش کرنے میں مصروف ہیں ۔یہی کشمیر کی خوبصورتی کے مختصر عکس ہیں۔ ...
مری بروری

مری بروری

تصویر کہانی
کہانی کار: عامر عباسی یہ عمارت مشہورِزمانہ کمپنی مری بروری  کی  فیکٹری کی ہے۔ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جس نے اسلام آباد سے مری جاتے ہوئے ڈیڑھ صدی قبل گوتھک طرزِ تعمیر پہ بنی اس عمارت کے کھنڈرات نہ دیکھے ہوں۔  اگر آپ اسلام آباد سے مری براستہ مری کشمیر روڈ جائیں ۔ تو تقریباً چالیس کلومیٹر کے بعدگھوڑا گلی اور بانسرہ گلی کے درمیان میں بروری نام کا ایک گاؤں آتا ہے۔  اور اسی مقام پر یہ عمارت آپ کو نظر آۓ گی۔ با ذوق لوگوں کو تو اس کی تاریخ خوب معلوم ہے۔ لیکن جن لوگوں نے اس قسم کے شوق نہیں پال رکھے ان کے لیےعرض ہے۔  کہ یہ عمارت پاکستان کی مشہور کمپنی مری بروری کی فیکٹری ہوتی تھی۔ اور یہاں پر مشروبِ مغرب کشید کیا جاتاتھا۔ تقریباً ڈیڑھ صدی قبل اس کو انگریز سرکار نے تعمیر کیا تھا اور اس کا مقصد گھوڑا گلی میں موجود اپنے انگریز فوجیوں کاخون گرم رکھنا تھا۔  قیامِ پاکستان کے وقت اس عمارت کو جل...
سرکش بیل اورزمینداری

سرکش بیل اورزمینداری

تصویر کہانی
کہانی کار :  اعجاز الرحمن یہ تصویر آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے گاؤں بڑا لی کس کی ہے۔  جس میں راقم اپنی آبا ئی زمینوں پر ہل چلا کر ماضی کی یادیں تازہ کر رہا ہے ۔ہمارا بچپن ایک فطری ماحول میں گزرا ہے۔ایک خالص دیہاتی ماحول میں پل کر بڑے ہوۓ ۔ہمارے بچپن کی ایک خوبصورت یاد کھیتی باڑی ہے ۔ اپنی زمینوں کو بیلوں کے ذریعے کاشت کرنا آزاد کشمیر کے بیشتر علاقوں میں عام رواج تھا ۔ تقریباً  ہرگھر میں بیلوں کی ایک  جوڑی ہوتی تھی ۔پھر بیلوں کی جگہ ٹریکٹر نے لے لی ۔ آہستہ آہستہ زمینداری کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔  کیونکہ لوگوں کا ذریعہ معاش ملازمت ہے۔  اور لوگوں کی بڑی تعداد بیرون ملک بھی چلی آئی۔ ہم بھی اپنی تعطیلات گزارنے انگلستان سے جب اپنے آبائی وطن کشمیر جاتے ہیں توگا ؤں کے قدرتی ماحول سے محظوظ ہوتے ہیں ۔بیلوں کی جوڑی تھوڑا سرکش مزاج رکھتی تھی،  اس لئے ان کو راہ راست پر رکھنے کے لئے مزید افرادی...
سلطان مظفر خان کا مظفرآباد

سلطان مظفر خان کا مظفرآباد

آزادکشمیر, تصویر کہانی, سیر وسیاحت, فطرت, مظفرآباد
/کہانی کار:  رامل علی/ تصویر بشکریہ : کشمیر امیج  یہ مظفرآباد کا ایک منظر ہے۔ لوگوں کے لیے قصبہ نما دکھنے والی یہ جگہ ہمارے لیے تو شہر ہے۔ سلطان مظفر خان نے اس شہر کی بنیاد رکھی تھی اورآباد کیا تھا۔ مظفر خان کے نام سے منسوب یہ شہر مظفر آباد کہلانے لگا۔ اپنی خوبصورتی میں بے مثال یہ شہر ایک شاہکار ہے۔ بیضوی شکل کا یہ شہر پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ دو دریا ( نیلم اور جہلم) شہر کے وسط میں ملتے ہیں ۔ اس جگہ کا نام دومیل ہے۔ مختلف کواٹرز میں تقسیم یہ شہر آزاد کشمیر کا دار الخلافہ ہے۔ اس کے علاوہ دو خوبصورت وادیوں ، وادئ نیلم اور وادئ جہلم کے لیے بھی مظفر آباد سے ہی راستے جاتے ہیں۔ ...
دومیل کی بارہ دری

دومیل کی بارہ دری

تصویر کہانی
کہانی کار :  محمد امتیاز ظفر  مظفرآباد میں دو دریاؤں کے سنگم پر دومیل کے مقام پر ایک تاریخی بارہ دری موجود ہے۔ یہ بارہ دری  ریاست جموں وکشمیر کے دوسرے ڈوگرہ حکمران  رنبیر سنگھ نے 1885 میں تعمیر کروائی تھی ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تقسیم ہندوستان کے وقت جب کانگرنسی رہنما جواہر لال نہرو کشمیر آۓ ۔ تو چوتھے اور آخری ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ نے انھیں تین دن تک یہاں قید رکھا تھا - بعض مؤرخیں کے مطابق نہرو کو اس بارہ دری میں نہیں رکھا گیا تھا۔ بلکہ گڑھی  دوپٹہ کے ڈاک بنگلہ میں قید رکھا  گیا تھا ۔ اور یہ بھی کہا جا تا ہے کہ نہرو کے شیخ عبداللہ سے تعلقات تھے۔ جن کی وجہ سے ہری سنگھ کا خیال تھا کہ نہرو کشمیر میں شیخ عبداللہ سے مل کر ہندوستان کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔ ...
گڑھی کا ڈاک بنگلہ

گڑھی کا ڈاک بنگلہ

تصویر کہانی
کہانی کار : محسن شفیق  یہ مظفرآباد کے نزدیک گڑھی دوپٹہ کے ڈاک بنگلے کی 1920 کی تصویر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح رح جب جہلم ویلی روڈ سے سرینگر کشمیری گئے تھے تو انہوں نے اس عمارت میں بھی پڑاؤ ڈالا تھا۔ اس کے بعد دوسرا پڑاؤ چناری کے ریسٹ ہاؤس میں ڈالا تھا اور وہاں چنار کے درخت کے نیچے بچھی چٹائی پر کچھ دیر سستانے کے لیے بھی رونق افروز ہوئے تھے۔ چناری کا ریسٹ ہاؤس وہاں کے عوام نے صرف اس وجہ سے بہت سنبھال کر رکھا رہا ہے، کسی عاقبت نااندیش نے اسے نذر آتش کیا، مگر کچھ ہی عرصے میں دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا، گڑھی دوپٹہ کے اس ڈاک بنگلے پر عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے 'گڑھی کا ڈاک بنگلہ' کے عنوان سے افسانہ بھی لکھا تھا۔ اس عمارت کا ایک تابناک ماضی اور مسلمہ تاریخ ہے۔۔ تاہم دو ہزار آٹھ کے زلزلے میں یہ عمارت تباہ ہوگئ -گڑھی دوپٹہ ایک اہم مرکز تھا اور اس میں بہت سی تار...
قدیم کشمیری سماوار

قدیم کشمیری سماوار

تصویر کہانی
کہانی کار : سید سبطین جعفری  تصویرمیں نظر آنے والی چا ئے یا قہوہ کی چینک  ہے ۔ جو 1930 میں راولپنڈی میں خرید گئی ۔ مگر  ابھی اپنی اصلی حالت میں  موجود ہے ۔ یہ چینک تانبے کی بنی ہے۔ اور  پیر سید محمد صدیق شاہ ندوی اور کشمیری مصنف سید بشیرحسین جعفری کے آبائی گھر سوہاوہ شریف باغ ، آزاد کشمیر میں موجود ہے۔ یہ ہمارے دادا پیر سید محمد ایوب شاہ صاحب نے خریدی اور استعمال کی ۔ اس کے ڈھکن پر پیرایوب شاہ کانام بھی کندہ ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact