Tuesday, April 30
Shadow

Tag: بچپن

کچھوا اورمیں

کچھوا اورمیں

آرٹیکل
منزہ خان کشمیری  وہ رینگ رینگ کر چل رہا تھا۔۔۔۔اور ہم شہتوت کی باریک سی ٹہنی جسے عرف عام میں سوٹی کہتے ہیں کی مدد سے اسکی چمڑی کو ہلاتی اسے ڈراتے ہوئے محظوظ ہو رہی تھیں۔۔۔ وہ سہم کر فورا اپنے آپکو خول میں بند کرلیتا۔۔۔اور ہم دنیا مافیہا سے بے نیاز ہوکر گلی میں اسکی معصومیت پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شراتوں پر شرارتیں کرنے میں مگن تھیں۔۔۔۔اس وقت ہم، عمر کے اس حصے میں تھی جہاں دنیا کی غم و خوشی کا تدارک نہیں ہوتا۔۔۔لاشعوری گیان میں ڈیرے جمائے ہوتی ہے. زندگی ایک لطیف خوشبو کے جھونکے کی مانند خوشگوار سے خواشگوار تر دکھائی دیتی ہے۔۔۔۔ محلے کے سبھی بچے بچیاں تقریبا ہم عمر تھے اور کچی پکی کی کلاسوں میں پڑھتے تھے۔ تب ہم نے سکول میں اردو کے قاعدے میں نئی نئی خرگوش اور کچھوے کی کہانی پڑھی تھی ۔۔۔اکثر گاؤں میں جاتی تو وہاں خرگوش روئی کے گالوں کی طرح نرم ملائم ادھر ادھر چھلانگیں مارتے نظر آتے رہت...
بچپن کا سیالہ

بچپن کا سیالہ

تصویر کہانی
جاوید خوشحال خان/ یہ پیاری  سی بچی راولاکوٹ کے نواحی گاوں بن بہک سے تعلق رکھنے والی ہے۔ اس کو سردی اور برف باری سے انجوائے کرتے ہوۓ دیکھ کر ہمیں بھی بچپن کا سیالہ یاد آگیا۔ ہمارے بچپن کے سیالے میں پہناوے بہت معنی رکھتے تھے۔ " منگر" کے مہینے سے  بڑی باجیاں سویٹر اور ٹوپیاں بننا شروع کر دیتیں۔یہ وہ وقت ہوتا تھا جب گھروں  میں اون کے دھاگوں  کے گولے بکثرت ہوتے تھے۔اور یہی وقت ان منچلوں  کیلئے آئڈیل تھا،   جو پلاسٹک کی تھیلی سے پتنگ بناتے۔اون کے دھاگوں کے ٹکڑے جوڑ جوڑ کر پتنگ اڑاتے۔جب دھاگے نا پید سے ہو جاتے تو ہم  " طاقوں " سے پورا گولہ لے اڑتے۔ اور خوب انجوائے کرتے لیکن اسکے بعد شام میں دل کھول کر چھتر کھاتے۔ بہرحال " پوہ" اور "ماہ" کے مہینوں  میں جب خوب"سنتی" تھی، (برف) تو یہی اون سے بنے گرم سویٹر , ٹوپیاں اور جرابیں بچے اور بڑے سبھ...
اندر کا بچہ

اندر کا بچہ

آرٹیکل, فطرت, کہانی
تحریر: م ، ا ، بٹ کبھی کبھی سوچتا ہوں ہم جب بڑے ہوتے ہیں تو ہمارا اندر کا بچہ کیوں مر جاتا ہے ۔ بچپن کی یادوں کو ہر شخص حسین اور ناقابل یقین کہتا ہے لیکن اس دور میں رہنا نہیں چاہتا ۔ بچن میں بغیر سکھلائی کے ہم ہمدردی کے جزبہ اور ایثار اور قربانی کا عملی مظاہرہ بھی کرتے تھے ۔ تحائف کے لینے دینے کو بھی سمجھتے تھے ۔ دوست کو وقت دینے اور اس کا سہارا بننے کو بھی سمجھتے تھے ۔ شائد یہ چیزیں ہم بچپن میں ہی کر سکتے ہیں کیونکہ نہ خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے اور نہ ہی حسد ۔ تکبر کا لفظ تو اس وقت آتا ہے جب دوسروں کو ہیچ سمجھنا شروع کرتے ہیں ۔ اسوقت ہر ایک کو اپنا اور اپنے جیسا سمجھ کر گلے لگا لیتے تھے ۔ ہر کوئی اپنا اور کوئی غیر نہ تھا ۔ اب تو فرق بھی نظر آنے لگا اور کبھی کبھی غریب سے نفرت اور حقارت بھی ۔  کیا یہ سب ہمیں معاشرے نے نہیں سکھلایا  ۔اگر یہ صحیح ہے تو معاشرے کی اصلاح کیسے ک...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact