Saturday, April 27
Shadow

Tag: اظہر مشتاق

سرینگر کے پرویز نہرو کے نام حد متارکہ کی دوسری طرف سے  خط!!! اظہر مشتاق

سرینگر کے پرویز نہرو کے نام حد متارکہ کی دوسری طرف سے خط!!! اظہر مشتاق

آرٹیکل
تحریر :اظہر مشتاق محترم پرویز نہرو صاحب!!! امید ہے کہ خار دار تاروں اور اسلحے کی بدبو اور فوجی بوٹوں کی دھمک کے درمیان بھی  آپ ابھی تک خیریت سے ہونگے ۔ پرویز نہرو صاحب 5 اگست 2019 سے لیکر آج تک  ریاست جموں کشمیر کا بھارتی مقبوضہ حصہ ایک جیل میں تبدیل ہوا ، جہاں بھارت کے موجودہ فاشسٹ حکمرانوں نے بنیادی انسانی حقوق کی پرواہ نہ کرتے ہوئے  ، موجودہ دور میں اطلاعات کے جدید ذریعہ موبائل فون سروس اور انٹر نیٹ کی بندش سے لیکر لاشیں گرانے تک کے عمل کو جائز جانتے ہوئے جاری رکھا۔ آپ سے زیادہ   جبر کا گواہ کون ہوسکتا ہے کہ آپ کے ادارے نے  بھارتی مقبوضہ علاقے میں " تشد د کا ڈھانچہ " کے عنوان سے  800 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ مرتب کی تھی ، جو بدقسمتی سے عالمی ضمیر کو نہ جھنجھوڑ سکی۔   اگست 2019 کو بھارتی آئین میں ترمیم  اور آئین سے آرٹیکل 370 ا...
پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں جاری پن بجلی منصوبے اور ماحولیاتی مسائل -تحریر: اظہر مشتاق

پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں جاری پن بجلی منصوبے اور ماحولیاتی مسائل -تحریر: اظہر مشتاق

آرٹیکل
تحریر: اظہر مشتاق پاکستانی زیر انتظام کشمیر گذشتہ ستر سالوں سے ایک متنازعہ خطہ ہونے  کے باعث کسی بھی طرح کی بڑی صنعت لگنے سے محفوظ رہا ہے، ایک تو علاقے کی زمینی ساخت و ہیت ایسی ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے ملنے والے پہاڑی علاقوں میں انفراسٹرکچر اور مناسب سڑکوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور پاکستانی کی ماضی کی حکومتیں یہ تاویل دیتی نظر آئیں کہ یہاں صنعت لگانے کے لئے خام مال کی ترسیل اور پیدا کردہ مصنوعات کو پنجاب یا دوسرے صوبوں کی منڈیوں تک پہنچانا ایک مشکل عمل ہے۔ جبکہ انہی منڈیوں سے تمام اشیائے ضروریہ پاکستان زیر انتظام کشمیر کے صارفین تک پہنچانا بالکل بھی مشکل نہیں ۔ ماضی میں جب پاکستانی حکومت نے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کو پانچ سال کیلئے ٹیکس فری زون قرار دیا تو پنجاب سے متصلہ نسبتاً میدانی علاقوں میں چند کارخانے لگا کر اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور ک...
سوچ زار،ایک تاثر۔۔۔۔ مصنفہ، مریم مجید ڈار

سوچ زار،ایک تاثر۔۔۔۔ مصنفہ، مریم مجید ڈار

تبصرے
تبصرہ :اظہر مشتاق مریم مجید ڈار کی تخلیقات سے میرا پہلا تعارف سماجی  رابطے کی ویب سائٹ سے ہوا،  ان کا پہلا افسانہ جو میری نظر سے گزرا  وہ “ادھوری عورت کی کتھا ” تھا ۔ جس میں ایک عورت کی اپنے سوتے ہوئے شوہر سے وہ کلام تھا جسے وہ سن نہیں سکتا  تھا۔ اس پوری کہانی میں الفاظ کا چناؤ ، جملے کی بنت اور استعارے  ایسی مستعدی سے استعمال کئے گئے تھے کہ اگر اس افسانے کی  مصنّفہ    کا  نام کو کاٹ کر قراۃالعین حیدر، بانو قدسیہ، پریم چند ،کرشن چندریا سعادت حسن منٹو کا نام لکھ دیا جاتا تو  قاری بالکل اعتبار کر لیتا کہ یہ  تحریر اردو ادب کے انہی  کہنہ مشق ناموں میں سے کسی ایک کی ہے۔ “سوچ زار” مریم کے  ستائیس افسانوں پر مشتمل ان کی پہلی تصنیف ہے،  ان افسانوں کے ادبی محاسن پر تکنیکی  رائے ادب کا کوئی معتبر نام یا ناقد دے سکتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ  ناقد  نوآموز مصنفہ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact