Sunday, May 5
Shadow

Tag: ڈ اکٹر محمد صغیر خان

پروفیسر ایاز کیانی کی کتاب  تماشائے اہل کرم پر  پروفیسر ڈاکٹر صغیر خان  کا تبصرہ

پروفیسر ایاز کیانی کی کتاب  تماشائے اہل کرم پر  پروفیسر ڈاکٹر صغیر خان  کا تبصرہ

تبصرے
تحریر:  ڈ اکٹر محمد صغیر خان        زندگی گر اک سفر ہے تو پھر انسانی ازلی مسافر ہوا جو جنم سے مرگ تک بلکہ اس سے پہلے سے مابعد تک ایک مسلسل سفر کا شکار رہتا ہے۔ یہ سفر ذہنی بھی ہوتا ہے تو زمانی و مکانی بھی، روحانی بھی اور جسمانی بھی، معاشرتی و تعلیمی بھی، جغرافیائی بھی اور تاریخی بھی۔ اس سفر کی کوئی ابتداء ہوتی ہے نہ انتہاء یہ ازل سے ابد تک کا ایک معاملہ ہے جو ہر انسان اپنے اپنے وقت و انداز میں بھگتتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ اکثر مسافر یہ پینڈا پاٹنے کاٹنے خود دھول ہو کر راہ میں اٹھنے والی گرد کا حصہ بن جاتے ہیں، البتہ کچھ اوکھے انوکھے اور باہمت ایسے بھی ہوتے ہیں جو محض چلتے گھسیٹتے ہی نہیں بلکہ ہر لحظہ آنے بدلنے والے منظر، پس منظر اور پیش منظر دیکھتے سوچتے کھوجتے اور کھودتے چلے جاتے ہیں۔ یوں ان کے حصے میں تھکاوٹ زیادہ آتی ہے لیکن انہیں لگاوٹ بھی مقدور بھر دان ہوتی ہے جس کے باعث یہ مشقت...
احمد عطاء اللہ کی غزل گوئی /ڈ اکٹر محمد صغیر خان،

احمد عطاء اللہ کی غزل گوئی /ڈ اکٹر محمد صغیر خان،

ادیب, تبصرے
ڈ اکٹر محمد صغیر خان،  فرہاد احمد فگارؔ...... نام شاعرانہ مگر کام خالص ہنرمندانہ اور ماہرانہ...... یہ وہ اوّلین تاثر ہے جو "احمد عطااللہ کی غزل گوئی" دیکھ پڑھ کر مرے ذہن کی سل سلیٹ پر ابھرا مچلا...... احمد عطااللہ آزادکشمیر کے معروف ترین شعرامیں سرفہرست ہیں۔ ان کی غزل اور شعر گوئی کا انداز کچھ ایسا ہے کہ وہ "ہمیشہ" نہایت ہی "والہانہ" طور پر بلند آہنگی سے کہتے آئے ہیں کہ "بھول جانا کسی کے بس میں نہیں"۔ احمد عطا "راوین" ہونے سے پہلے "کامیڈین" ہوا اور پھر "راوی" نے اسے وہ روانی بخشی کہ وہ ایک "جنون" میں چلتا لکھتا 'فنون" تک جا پہنچا۔ یہی وہ ستون تھا جس کے سہارے جب وہ کھڑا ہوا تو پورے قد کے ساتھ کھڑا ہوا۔ یہاں ہی سے اسے "شناخت" بلکہ "ساخت" میسر آئی۔ یہاں ہی سے اس نے سر کھولے پھرتی غزل کے لیے در کھولے اور پھر وقت اس پر یوں مہربان ہوا کہ کامرانیوں اور شہرت کے ان گنت در اس پر کھلتے چلے گئے۔ ا...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact