افسانہ = خاموشی/ بشریٰ حزیں
بشریٰ حزیں
خاموشی کے زہر میں بجھی گھر کی فضاء چیخ چیخ کے بتا رہی تھی کہ مکین ناراض ہیں ۔
زین اور روحی ایک گھر میں رہتے ہوٸے بھی ایک قانونی و شرعی رشتے میں بندھے دو اجنبی تھے جن کے درمیان واجبی سی بات چیت ہوتی تھی ۔
” بھوک لگی ہے “۔؟
” نہیں ، ابھی نہیں “۔
” چائے پیئں گے “۔؟
” پی لوں گا “۔؟
” آٹا ختم ہو گیا ہے “۔
” چائے کا سامان لیتے آنا “۔
بس ایسے ہی گنتی کے چند جملوں کا تبادلہ ہوتا اور بس ۔ روحی کبھی کبھی اس لگی بندھی روٹین سے ہٹ کے کچھ کہتی بھی تو زین کا انداز سنی ان سنی والا ہوتا ۔ کچھ دن یکطرفہ گفتگو کا شوق پورا کر کے زین کی بے حس خاموشی سے مایوس ہو کے وہ لب سی لیتی ۔
ناراضگی ۔۔۔۔۔۔
اسے ناراضگی کا نام دینا بھی زیادتی ہو گا
کیونکہ ناراضگی تو اپنوں سے ہوتی ہے جبکہ یہاں اپائیت کا احساس تو کیا شائبہ تک نہ تھا ۔ ناراضگی نما سے ردٍعمل کے طور پہ...