Monday, April 29
Shadow

Tag: انسانیت

انسانیت بچھڑ گئی/ تحریر ش م احمد

انسانیت بچھڑ گئی/ تحریر ش م احمد

آرٹیکل
تحریر : ش م احمد   کسی دل جلے نے سچ کہا ہے  ؎  خط جو میں نے لکھا ہے انسانیت کے نام پر   ڈاکیہ ہی مرگیا، پتہ پوچھتے پوچھتے   جب انسانیت لاپتہ ہو تو سمجھ لیں انسان کا اَتہ پتہ ملنابھی محال وجنوں ہوا۔ اس لئے انسانیت کے نام لکھا گیا خط لے کرڈاکیہ جائے تو  جائےکہاں؟ انسانیت کا مر جانا تمام انسانوں کے لئے ایک ناقابل ِتلافی نقصان ہوتا ہے، چاہے لوگ اس خسارے کا فہم و شعور رکھتے ہوں یا نہیں۔ واقعی انسانیت کی موت عام فوتیدگی سے مختلف ، کفن دفن کی احتیاج سے مبرا ، تعزیت پرسی کی رسم سے عاری ہوتی ہے۔ اس نوع کی منفرد موت میں ظاہراً کوئی تابوت اُٹھتا نہیں، کہیں کوئی چتا جلتی نہیں، کہیںکوئی جسد خاکی چیل کوؤں اور گِدھوں کے سامنے پیش کیا نہیں جاتا ،نہ کسی اہرامِ مصر میں اس لاش کو ہزاروں سال تک حنوط کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسانیت کی موت کا اعلان اُس وقت حساس لوگ...
آفت اور انسانیت ،تحریر : ش م احمد

آفت اور انسانیت ،تحریر : ش م احمد

آرٹیکل
تحریر : ش م احمد    بھارت میں کرونا کی تیسری لہر لرزہ خیز قیامتیں مسلسل ڈھائے  چلی جارہی ہیں اور بلاروک ٹوک لوگوں کو اپنالقمہ ٔ  تر بنا رہی ہیں ۔  موت کی یہ سونامی ایک ایسے وقت آئی جب دنیا میں کم وبیش کرونا کی بھڑاس کم ہورہی ہے، بلکہ اسرائیل سمیت بعض ممالک میں ماسک، لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹنسنگ جیسی کووڈاصطلاحیں قصہ ٔپارینہ ہوچکی ہیں ۔  ا س وقت ہندوستان امریکہ اور برازیل   کو اپنے پیچھے چھوڑ رہاہے ، ان کے یہاںوبا ئی قہر مانیوں کے جوریکار ڈ بنے تھے وہ انڈیاکے طول وعرض میں دھڑلے سے ٹوٹ رہے ہیں اوربلائے آسمانی ہلاکت خیزیوں ، بے پناہ تباہیوں اور بھیانک انسانی المیوں کی ناقابل ِبیان کہانیاں رقم کئے جار ہی ہے۔  تاریخ کےاس انسانی المیے کو کس کی کوتاہ بینی اور کم کوشی نے یہاں قدم جمانے کا آسان موقع دیا، بھلے ہی ا س سوال پر نیشنل میڈیا چپ سادھے ہوئے ہو مگر عالمی میڈیا ہندوستان کو...
ہجرت کے دکھ

ہجرت کے دکھ

آرٹیکل, تقسیم کشمیر
کشمیر کے منقسم خاندانوں کا مشترکہ المیہ تنویر حسین چوہدری  کشمیریوں کی کئی نسلیں ایک آزاد وطن میں واپس جانے کا خواب لئے دنیا سے رخصت ہو گئیں - ہم بھی یہی سپنا آنکھوں میں سجاۓ اس بات کے منتظر ہیں کہ کب ہجر اور غلامی کی یہ سیاہ رات ختم ہو گی کشمیر میں اپنے وطن کے لئے ہجرت کرنے والوں کے کیسے کیسے ارمان تھے ۔ جو سینے میں لیے اپنی حیات پوری کر چکے۔ میں اس تحریر میں اپنے خاندان کے کچھ واقعات کا احوال آپ کے سامنے رکھوں گا - میرے دادا حضور حضرت سائیں محمد انسان اور انسانیت سے اتنا انس کرتے تھے ۔ کہ کبھی کسی کی غلطی پر بھی اسے برا نہیں کہتے تھے۔ بلکہ کہا کرتے تھے “اللہ تیرا بھلا کرے ”-۔انکی زندگی صرف قرآن الکریم کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ ایسا ان کی اوائل عمری ہی سے تھا. جب میرے دادا حضور اور میرے والد گرامی نے تیسری بار 1965 میں ہجرت کی۔ یہ ہجرت انہوں نے پونچھ، مہنڈر سے کی - پھر آ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact