راولپنڈی سے کوٹلی کے سفر کی رُوداد
تحریر: محمد صغیر، تصاویر : توفیق آفتاب / ثاقب علی خان
مجھ سے بڑے بھائی باربرداری ٹرانسپورٹ کا کام کرتے ہیں۔ زیادہ تر آزاد کشمیر، گلگت و بلتستان اور خیبر پختونخوا کی طرف آنا جانا رہتا ہے۔ وہ زیادہ تر عمارتی شیشہ، لکڑی و پلائی ووڈ وغیرہ کی سپلائی کا کام کرتے ہیں۔
اکثر اوقات لوڈنگ، اپنے شہر کی ٹریفک سے نکلنے اور اگلے شہر کی ٹریفک کو دیکھ کر سفر پلان کرتے ہیں۔ اور مجھے لے جانا ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ لوڈنگ سے واپسی پر تیار رہنا چلے چلیں گے۔
آزاد کشمیر میں جاتے وقت کئی بار مجھے بھی ساتھ لے لیتے ہیں کہ چلو اور نہیں تو گاڑی کو دھکا اور چور ڈاکو کو بٹامارنے کا کام تو کر سکتا ہوں۔
ایک بار کہنے لگے میں خواجہ گلاس جا رہا ہوں، شیشہ لوڈ کر کے 1 بجے پشاور روڈ پہنچ جاؤں گا، تیار رہنا۔ ساتھ میں ایک چادر رکھنے کا آرڈر دیا کیونکہ رات کو کشمیر میں کافی ٹھنڈ ہو جاتی ہے۔
بھائی کو کراچی کا پانی راس نہیں آیا ۔ جس کی وجہ سے السر کا شکار ہو گئے تھے۔ اس وجہ سے بہت کم باہر کھانا کھاتے ہیں۔ صبح ناشتے کے بعد لوڈنگ کے لیے نکلتے ہیں ۔ اور دن کا کھانا گھر میں کھا کر کچھ کھانے کے لیے ساتھ لے لیتے ہیں۔ باہر کھانا ہو تو اپنی مرضی کا پکوا کر کھاتے ہیں ۔ یا گرم فوڈ ہی لیتے ہیں۔
کوٹلی کا نام اوربابا جی تکے والے
یوں تو مجھ جیسے پیٹو کو ان کے ساتھ جانا اچھا نہیں لگتا ہے۔ لیکن کوٹلی کا نام سن کر چلا جایا کرتا ہوں ۔کیونکہ کوٹلی میں ایک بابا جی کے تکے بڑے پسند ہیں۔
بھائی لوڈنگ کر کے ساڑھے بارہ بجے گھر پہنچ گئے، مان جی نے ان کے لیے سری کا شوربہ اور میرے لیے قیمہ بنایا تھا۔ ، میں نے سفر کرنا ہو تو کم کھاتا ہوں۔ دو قیمے بھرے پراٹھے بنوا کر ساتھ رکھ لیے،۔چائے کے تھرموس بھی اور پینے کا پانی بھی ساتھ رکھ لیا۔
ان دنوں پشاور روڈ سے ہیوی ٹریفک گزنے دیتے تھے،۔آج کل تو آئی جے پی روڈ سے ہو کر پورا فیض آباد اور پھر کوٹلی جانا ہو تو اسلام آباد ہائی وے اور جاپانی روڈ سے ہوتے چکیاں سے کہوٹہ روڈ پہ جاتے ہیں۔ لیکن ہم پشاور روڈ، مال روڈ، کچہری، سواں اور ہمک سے ہوتے سہالہ پہنچ کر پلانرز کو کوسنے لگے۔
جی آپ ٹھیک سمجھے سہالہ پھاٹک بند نکلا جس کا مطلب یہ ہوا کہ لمبا انتظار، خیر 20 منٹ کے انتظار کے بعد گاڑی آئی اور پھاٹک کھولا گیا۔
دریائے سواں کا نظارہ
میرے اندازے سے گاڑی گوجرخان میں ہو گی تو پھاٹک بند کر دیا گیا ہو گا۔ سہالہ سے آگے ہردوگہر سے ہریالی کا آغاز ہو گیا، چکیاں سے گزرے ہوئے دریائے سواں کا نظارہ کیا۔
دائیں جانب اوپر میانہ تھب کا چٹیل علاقہ ہے ، جہاں ایک مشہور زیارت بھی ہے ۔ جہاں سفید نمک کو دم کر کے آشوبِ چشم کے مریضوں کو دیا جاتا ہے۔ جس سے سنا ہے شفا ہو جاتی ہے۔
سیکورٹی چیک سے گزر کے آگے چک کامدار، آڑی سیداں، پنیالی، وائی کراس، نتھوٹ سے گزرے اس علاقے میں ہریالی اور برساتی نالوں میں موجود پانی کی وجہ سے گرمیوں میں بھی حبس کا پتہ نہیں چلتا۔
کہوٹہ شہر
نتھوٹ سے دائیں جانب ہوتھلہ اور آگے نیچے کر کے کہوٹہ کے سب سے بڑے برساتی نالے یا دریا لِنگ کے پل سے گزر کر، کہوٹہ کلب سے گزر کر کلر چوک سے بائیں جانب مڑ گئے۔
کلر چوک سے پہلے ہی کہوٹہ شہر کا آغاز ہو جاتا ہے، اب تو خیر سے کہوٹہ لنگ سے دھپری تک پھیل گیا ہے۔ کہوٹہ ٹاؤن ہسپتال، سخی سبزواری، پنجاڑ چوک، مٹور چوک، کوٹلی چوک سے ہو کر کہوٹہ کوٹلی روڈ پر پہنچے، دھپری اور رحمان آباد سے ہوتے ، ٹھنڈا پانی، ٹپیالی، ہنیسر اور جیوڑہ جا پہنچے۔
میں نام اس لیے بتا رہا ہوں کہ نئے آنے والوں کے لیے گھومنے گھمانے میں آسانی ہو ۔ اور وہ بھول نہ سکیں ۔کیونکہ اگلے سال ان شاء اللہ کروٹ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد یہ علاقہ ایک زبردست ٹورسٹ ریزارٹ بن جائے گا۔
جیوڑہ سے آگے چیڑھ کے درخت جنگلات میں بدلتے جا رہے تھے۔ جیسے ہی بیور کٹھہ کا آغاز ہوتا ہے۔ تو مری اور کشمیر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔
دیوان گڑھ اور سنڈل
یہیں ایک ہل ٹاپ نامی ریسٹورنٹ ہے، جہاں گاڑی کھڑی کر کے بھائی نے چائے کا آرڈر دیا،۔میں آس پاس کا نظارہ کرنے لگا۔ نیچے بائیں جانب دیوان گڑھ اور سنڈل اور اس سے آگے بیور کا گاؤں نما قصبہ ہے جو اب واقعی قصبے میں بدل گیا ہے۔
پتہ نہیں ہل ٹاپ ریسٹورنٹ کی اصلی دیسی دودھ پتی چائے نے آنکھیں کھول کھول دیں تھیں یا قدرتی مناظر نے ہمیں مدھوش کر دیا تھا۔
میں نے بھائی کو کہا روڈ جناب کا اور سائیڈیں میری، یہاں روڈ گھوم کے کبھی پہاڑی کے ایک رخ پر جاتا ہے اور وہاں سے پہاڑی کے سامنے والے رخ پہ آ جاتا ہے۔
جھنگر گاؤں کی لینڈ سلائیڈ
جہاں سے آگے جھنگر نامی گاؤں آ گیا،۔ جی ہاں! خوب پہچانا یہ وہی جھنگر ہے ، جہاں ہم لڑکپن میں کشمیر جانے سے رہ گئے تھے ۔
کیونکہ لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے روڈ بند ہو گئی تھی۔
اس خوبصورت وادی میں گھومتے گھماتے ہم کروٹ گاؤں پہنچے ۔ جہاں اب کروٹ ہائیڈروپاور پراجیکٹ بنایا جا رہا ہے،۔
بابا جی کی زیارت سے نیچے بائیں جانب دریائے جہلم ٹھاٹھیں مارتا چنگھاڑتا جا رہا تھا۔ سڑگ گھومتی موڑ کاٹتی دریائے جہلم کے کروٹ پل سے گزر کر آزاد کشمیر میں داخل ہوئی۔ بھائی نے سفید پہاڑی پودینے کے تین چار گٹھے کاٹ کر گاڑی میں رکھے۔ میں نے چشمے سے پانی لیا ، اور ہم ہولاڑ گاؤں اور ہولاڑ بازار کی چڑھائی چڑھنے لگے۔
شہ زور ٹرک کے انجن کی آزمائش کا وقت آ گیا تھا۔ لیکن نئے نویلے ٹرک نے اسے چڑھائی کو خاطر میں نہ لایا۔
ہولاڑ، کوٹلی کا دروازہ
ہولاڑ تحصیل سہنسہ ضلع کوٹلی کا دروازہ ہے،۔ اس وقت تو بس گنتی کی چند دکانیں تھیں۔ لیکن اب کافی ترقی کر گیا ہے۔ اور ڈیم بننے کے بعد یقیناً یہ ایک بڑا تجارتی مرکز، سیاحتی ریزارٹ اور بڑا شہر بنے گا۔
ہولاڑ سے ذرا آگے ایک رستہ نیچے چھے چھن کی طرف جاتا ہے۔ لیکن ہم سیدھے رستے پر اوپر اونچی چڑھائی چڑھنے لگے،۔بلندی پر پہنچے تو دریڑ ویلی پیچھے رہ گئی تھی۔ آگے دائیں جانب نیچے برساتی نالے بہہ رہے تھے،۔جن کے پیچھے پہاڑیاں تھیں، اور نن کے عقب میں میر پور/چکسواری کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔
اب سڑک قدرے ہموار ہو گئی تھی ۔ بائیں جانب اونچا پہاڑی سلسلہ تھا۔ جبکہ دائیں جانب ڈھلوانی علاقہ۔ ترالہ پہلا گاؤں تھا جو سڑک کے بائیں جانب واقع ہے، آگے دو گلہ اور ذرا آگے پلیٹ سیداں آتا ہے۔
آگے چھنی سیداں اور اس سے تھوڑا آگے جائیں، تو بائیں جانب ایک رستہ سہنسہ شہر و تحصیل کی طرف جاتا ہے۔
سہنسہ بائی پاس سے آگے نکلے تو گڑوٹھا کا گاؤں دکھائی دیا۔ آگے نکلے تو سہرمنڈی کا چھوٹا سا بازار آ گیا۔ اس سے چند کلومیٹر آگے چلے تو دائیں جانب گلپور کا قصبہ آ گیا۔
گل پوربڑالی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ
جہاں دریائے پونچھ پر ایک گلپور بڑالی ہائیڈروپاور پراجیکٹ بنایا گیا ہے جو اب مکمل ہو کر پروڈکشن شروع کرنے کے قریب ہے۔
گلپور ایک اچھا خاصہ تجارتی مرکزی ہے۔ اور ڈیم بننے کے بعد یقیناً اس میں مزید بہتری آئے گی۔ گلپور کی ایک اور خصوصیت یہاں کا تھروچی قلعہ ہے۔
لیکن اب چونکہ سورج ڈوب رہا تھا ، جس کی وجہ سے تیز چمک میں سب ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ چلیں وقت ہوا تو اسے بھی دیکھ ہی لیں گے۔ فی الحال چلتے ہیں کوٹلی کی طرف۔
مسجدوں کا شہر کوٹلی
ذرا آگے جا کر سڑک کے دونوں جانب بڑالی نامی بڑا گاؤں آباد ہے جس کی سب سے اچھی بات یہاں کی خوبصورت مساجد ہیں۔
کوٹلی شہر کو ویسے بھی مسجدوں کا شہر کہا جاتا ہے۔
بڑالی سے لے کر گلہار کالونی تک دریائے پونچھ کبھی سڑک کے پاس آ جاتا اور کبھی دور۔گلہار سے دائیں جناب کوٹلی یونیورسٹی واقع ہے۔ اب ہم کوٹلی شہر کی مضافاتی علاقے کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔
کوٹلی کافی بڑا شہر ہے لیکن عام شہروں کی نسبت کوٹلی میں بازار جلد بند ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ کافی دکاندار دوسرے علاقوں کے رہنے والے ہیں۔ اور ویسے بھی شہر کی روایت میں جلد سونا لکھا ہے۔
15 منٹ بعد بھائی نے دکان کے سامنے گاڑی کھڑی کی۔ مجھے کہا کہ ون بائی ون سیدھی کر میں دکاندار کو بلا لاتا ہوں۔
دکاندار مزدوروں کو کھانا کھلانے لے گیا تھا۔ بھائی واپس آیا تو عمارتی شیشے کے رسے ڈھیلے کیے، مزدور تجربے کار تھے وہ شیشہ اتارنے لگے۔
اور میں بابے فضل کے پاس پہنچ گیا ، جس سے کشمیری پہاڑی بکروں کے تکے کھانے کے لیے اتنا کشٹ کاٹا گیا تھا۔ قیمے والے پراٹھے تو رستے میں ہی معدے کو پیارے ہو گئے تھے ،اس لیے اپنے اور بھائی کے لیے تکے لگوائے،۔
اتنی دیر میں بھائی بھی آن پہنچا، تکوں، سادی چٹنی اور نان کے ساتھ واقعی مزا آیا۔ میں نے والدین کے لیے بھی تکے بنوا کر بندھوا لیے۔
بابے فضل سے وعدہ کیا کہ زندگی رہی اور آپ کی دکان کا کھانا پانی ہمارے مقدر میں لکھا ہوا تو اگلی بار پھر آئیں گے۔ انہیں معاوضہ ادا کیا اور واپس دکان پر آن پہنچے۔ ٹرک خالی ہو چکا تھا، دکاندار کو اللہ حافظ کہہ کر واپسی کا سفر شروع کر دیا۔
رات کے پونے 3 بجے تھے کہ ہم واپس راولپنڈی کینٹ پہنچے۔ ابا جی تہجد کے لیے اٹھ چکے تھے،۔ہم نے لائٹ جلائی تو ماں جی بھی اٹھ گئیں۔ میں نے ماں جی کو تکے پکڑائے اور کہا آپ دونوں کا ناشتہ ہے۔مجھے صبح جگانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج چھٹی کا دن ہے۔
یقین مانیں کہنے کو یہ سفر ہے لیکن ذہن کو تازہ دم کر دیتا ہے۔ میرا آزمودہ ہے کہ جب انسان ان قدرتی مناظر سے ہو کر گزرتا ہے تو وہ ہمارے ذہن پر بڑا اچھا اثر ڈالتے ہیں۔
کہتے ہیں کنکریٹ کے جنگلات میں رہ رہ کر اکثر انسان پتھر کے ہو جاتے ہیں، اس لیے کبھی کبھار باہر بھی نکلنا چاہیے۔ انسان کا خود پر بھی پڑا حق ہے، خود کو بھی وقت دیا کیجئے اور نہیں تو ذہنی ٹینشن و تھکاوٹ ہی دور ہو جاتی ہے۔