Friday, May 3
Shadow

شاعری

اے  انگوٹھا بردار انسانی کھوکھو! محسن شفیق

اے انگوٹھا بردار انسانی کھوکھو! محسن شفیق

شاعری
محسن شفیق محسن شفیق آ گیا تمہارے انگوٹھوں کے جنم کے مقصد کا دناٹھو اور اپنی تباہی کے نشان پر مہر ثبت کرواٹھو اور وسائل کے نئے قابضین کا انتخاب کرواٹھو اور تعلیم سے اپنی نسلوں کو محروم کرنے کا اعلان کرواٹھو اور صحت کے فرسودہ نظام کو برقرار رکھنے کی اجازت دواٹھو اور روٹی کی قیمت میں اپنی جانیں فروخت کرنے کی سعی کرواٹھو اور اپنے تحفظ اور حقوق روندے جانے کے نئے پنجسالے کا آغاز کرواٹھو اور انصاف کی امیدوں پر پانی پھیرواے انگوٹھا بردار انسانی کھوکھو!!!!سنواپنے انگوٹھے کی قدر و منزلت کا ادراک کروایک انگوٹھا،اپنی تعمیر کے لیےاپنے وسائل کا قبضہ چھڑوانے کے لیےاپنی نسلوں کو علم کے نور سے منور کرنے کے لیےاپنی صحت کے حق کے لیےاپنی روٹی کے حق کے لیےاپنے تحفظ اور حقوق کے پنجسالے کے لیےاپنے انصاف کی امید کی آبیاری کے لیے ...
مصطفی توحید کی تازہ غزل

مصطفی توحید کی تازہ غزل

شاعری
مصطفیٰ توحیدکسی کے  پیار نے  مارا  مجھے ہےجہاں  میں  کردیا  تنہا  مجھے ہےوہ ہر پل اب بھی میرے پاس ہی ہےیہ سچ ہے یاکہ واہمہ  مجھے ہےمجھے بانہوں میں بھر کر دل لگا کروہ کاوش سے گلے  ملتا مجھے ہے   میں کیسے مان لوں یہ بات اسکیکہ ساری عمر بس سوچا مجھے ہے نئے امکاں  ہیں اسکی شاعری  میںوہ غالب کو نہیں پڑھتا مجھے ہےمحبت  دے یا  نفرت  وہ  کرے  ابوہ جیسا ہے بہت  بھایا مجھے ہے زمانے   سے   بہت  ہی  دور  توحید   فصیل وقت  نے   رکھا مجھے ہے
تازہ نظم / شفیق انجم

تازہ نظم / شفیق انجم

شاعری
شفیق انجم  ہم بہت بڑبولے ہیں اپنی اوقات سے بڑھ کر بولتے ہیں شیخی بگھارتے شوخے ہوئے چلے جاتے ہیں معلوم نہیں کیوں رب پالتا پوستا اُستوار کرتا ہے تو ہم اپنا ڈھول، اپنا ڈھنڈورا پیٹنے لگتے ہیں ہیجانی ہوئے جاتے ہیں مقامِ شکر کی مٹی کھرچتے پنجوں کے بَل ناچتے ہیں عجیب ہیں ہم حساب نہیں رکھتے اپنے آپ کو سوچتے نہیں نعمتوں، احسانوں، عطاؤں کے ان گنت سلسلوں میں عمر بھر رہتے عمر بھر منہ پھیرے رکھتے ہیں معلوم نہیں کیوں ہم اتنے بد نصیب ہیں کہ سب کچھ سیکھتے شُکر کا سلیقہ نہیں سیکھ پاتے کوئی ایک بھی سجدہ نہیں کر پاتے کہ مٹی ہمیں بوسہ دے سہلائے۔۔۔ خوشبو کی طرح پھیلا دے عجیب ہیں ہم بڑبولے، شوخے، مشٹنڈے عجز سے عاری حالانکہ ہم اپنی اوقات جانتے ہیں تالو چاٹتے تُھوک نگلتے ہیں ۔۔۔مسلسل و متواتر! ...
تازہ نظم / عنبر حنیف

تازہ نظم / عنبر حنیف

شاعری
عنبر حنیف  میرے آنگن میں  وہ تپتی دھوپ میں چھاؤں، کہر میں دھوپ  !خزاں میں رنگ، ساون میں موتی پروتا وہ چلا گیا ,اب نہ وہ چھاؤں ہے نہ دھوپ !نہ  وہ رنگ ہیں نہ موتی وہ بتا گیا مجھ کو یہ دھوپ، چھاؤں  !یہ رنگ اور موتی وہ اپنے لیے پروتا میرا آنگن اس کا فقط عارضی بسیرا تھا۔
نظم / پروفیسر رضوانہ انجم

نظم / پروفیسر رضوانہ انجم

شاعری
 پروفیسر رضوانہ انجم زندگی کے رستوں میں دھوپ جب بکھر جائے ابر جب ٹھہر جائے آنکھ جب سفر میں ہو رنگ جب نظر میں ہوں دل کسی کی یادوں میں ڈوب کر ابھرتا ہو سانس جب معطر ہوں  پھر کسی کی خوشبو سے پھر کسی کی باتوں سے دل فریب کھاتا ہو پھر تمہیں دعاؤں میں کوئی یاد آتا ہو نیم شب نمازوں میں اشک پھر بہاؤ تم پھر کسی کی چاہت میں رب کو بھی مناؤ تم پھر کسی کو مانگو تم اور پھر نہ پاؤ تم سوچ لینا قسمت میں  اور کوئی چاہت ہے ٹوٹ کر بکھرنے کی بچ گئے تو جی لینا۔۔۔۔۔۔ ورنہ سوچ لینا یہ حادثے محبت کے جان لیوا ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ حادثے محبت کے جان لیوا ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ...
کشمیر و فلسطیں کے نام۔۔۔۔ شکیلہ تبسم

کشمیر و فلسطیں کے نام۔۔۔۔ شکیلہ تبسم

شاعری
شکیلہ تبسم یہ بادل ظلم کے چھاۓ ہیں جو چھٹ جائیں گے اک دن ۔۔۔ ترے دشمن یہ ٹکڑوں میں خود ہی بٹ جائیں گے اک دن۔۔۔۔۔ کمر جب ٹوٹی تو دھرتی سے یہ ہٹ جاہیں گے اک دن ۔۔۔۔ سب اپنے درمیاں کے فاصلے گھٹ جاہیں گے اک دن ۔۔۔۔ تری یہ شاخِ گل پھر دیکھنا اک دن ہری ہو گی ۔۔۔۔ تری جھولی یہ پھر نو خیز پھولوں سے بھری ہو گی ۔۔۔
حشر کو دنیا سے اٹھا کیوں نہیں لیتے ۔۔۔۔۔۔حشر-کو-دنیا-سے-اٹھا-کیوں-نہیں-لیتے-۔۔۔۔۔

حشر کو دنیا سے اٹھا کیوں نہیں لیتے ۔۔۔۔۔۔حشر-کو-دنیا-سے-اٹھا-کیوں-نہیں-لیتے-۔۔۔۔۔

شاعری
ان اشعار کے لیے مرکزی خیال فیض احمد فیض کے درج ذیل شعر سے لیا گیا) مِٹ‌ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے (منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں‌ نہیں‌ دیتے مظہر اقبال مظہر گر محشر ہی تیرے عدل کا مرکز ٹھہرا تو حشر کو دنیا سے اٹھاکیوں نہیں لیتے ہر آن جو دبتی ہے کسی مفلس کی صدا تو افلاس کو دنیا سے اٹھا کیوں نہیں لیتے یاں فکر معیشت ہے واں دغدغہ حشر تو فکر کو ہستی سے اٹھا کیوں نہیں لیتے رند کو واعظ ، واعظ کو گناہ کی وحشت وحشت کو دنیا سے اٹھا کیوں نہیں لیتے ہے جلووں میں بھی شوق دیدار کی آمیزش توجلوت کو دنیا سے اٹھا کیوں نہیں لیتے جو اس عہد کے لوگ ہیں طلب گارِ داد تو جرم کو جرم سزا کو سزا کیوں نہیں کہتے ...
یکم مئی/ نظم / شہباز گرد یزی

یکم مئی/ نظم / شہباز گرد یزی

شاعری
شہباز گرد یزیجسم سے پیپ اور خون بہتا ہواآبلوں کے سلیپر ہیں ہر پاؤں میںدھوپ اوڑھے ہوئےبرف پہنے ہوئےپھاگ آنکھوں کے چشموں سے بہتا ہواپیٹ فاقوں کی وجہ سے پچکا ہواگود میں چیختی، پیٹتی حسرتیںدرد کے آسماںدھر کے شانوں پہ ہمتیز تلوار سےظلم کی رِیت کوکاٹنے آئے ہیںپھر نئے عزم سےروٹیوں کے تعاقب میں نکلے ہوئےگرتے پڑتے ہوئےبیکسانِ دہرقصرِ شاہی پہ بھاری ہے دن آج کا''آج بازار میں جشنِ افلاس ہے''
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact