Friday, May 3
Shadow

افسانے

ٹیٹوال کا کتّا- سعادت حسن منٹو

ٹیٹوال کا کتّا- سعادت حسن منٹو

افسانے
افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کے آبا علامہ اقبال کی طرح کشمیری الاصل تھے اور کاروبار کے سلسلہ میں کشمیرسے ترک وطن کرکے لاہورمیں آبسے اور پھر وہاں سے امرتسرچلے گئے۔ منٹوکی شادی بھی ایک کشمیری النسل لڑکی صفیہ سے ہوئی۔منٹو کو تقسیم کی وجہ سے بمبئی چھوڑکرلاہورآناپڑا۔ منٹونے کشمیرکو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔اس کے اس سلسلہ میں دوافسانے مشہور ہیں جو وادی نیلم کے گاﺅں ٹیٹوال کے گردگھومتے ہیں جو ہندوستانی کشمیرکاایک سرحدی گاﺅں ہے۔ان میں ’ٹیٹوال کا کتا‘ اور’آخری سیلیوٹ‘ شامل ہیں۔ یہ دونوں افسانے 1951 کے اواخرمیں لکھے گئے- ٹیٹو ال کا کتا سعادت حسین منٹو کا شاہکار افسانہ ہے جو کشمیر کی وادی نیلم کے ایک گاؤں کے پس منظر میں لکھا گیا - وادی نیلم اس علاقے کو ٹیٹوال سیکٹر بھی کہا جاتا ہے - ٹیٹوال اب بھارتی مقبوضہ کشمیر کا حصہ ہے اور وادی نیلم کے چلہانہ گاؤں سے  دیکھا جا سکتا ہے ۔ گاؤں ٹیٹوال/ فو...
افسانہ – دھرتی میری جان ! ش م احمد

افسانہ – دھرتی میری جان ! ش م احمد

افسانے
آرٹ ورک سب رنگ انڈیا/ روی روراج    ’’کالے قانون کی واپسی نہیں ، گھر واپسی نہیں‘‘  اپنے بھاشن کے اختتام پر کسان نیتا کا اتنا بولنا تھا کہ ستنام سنگھ کی رَگ رَگ میں جوش کی بجلی دوڑ گئی:  ’’ کسان ایکتا‘‘  ستنام اُٹھ کھڑا ہوا ، مٹھیاں بھینچ لیں، ساری قوت کو زبان پر جمع کر کے تین زرعی قوانین کو ردکرنے کا مطالبہ نعرے میں ڈھالا ۔  ’’زندہ باد‘‘ ہزاروں آندولن کاریوں نے بآواز بلند نحیف ونزار اور بیمارکسان کے نعرے کا جواب دیا : ستنام سنگھ نوے سال کی پختہ عمر کابزرگ آندولن کاری کسان ہے۔ باپ دادا سے وراثت میں ملی دس بیگھہ زمین کو اَن داتا سمجھتااور کرم بھومی کہتا ہے۔ کھیتی کسانی کر تے ہوئے گوربانی اور بھجن دل کی دھڑکنیں بنانے والا بوڑھا کسان آج گھر سے بہت دور دلی کے سنگھو بارڈر پر مورچہ زن ہے ، معمولات یکسر بدلے بدلے ہیں کہ اس خیمہ بستی میں نعرے ہیں،احتجاجی ترا...
لوجہاد ،  ش  م   احمد

لوجہاد ، ش م احمد

افسانے
 جمنا دیوی کی زندگی کی تمام آرزوئیں پوری ہوچکی تھیں ۔ دھن دولت، ٹھاٹ بھاٹ، بڑا نام کیا کچھ نہیں تھااس کےپاس ۔ اب اُس کی صرف دو ہی حسر تیں تھیں کہ اپنی اکلوتی بیٹی نیلم کے ہاتھ پیلے کرے اورپھر اپنے بیٹے سنجے کی شادی کرکے ستی ساوتری جیسی بہو گھر لائے اور پھر ہری دوار سے ہوآئے ۔ جمنا کی یہ حسرتیں گزشتہ دودنوں سے نیلم کا مر جھا ہوا چہرہ دیکھ دیکھ کر انجانے خوف سے بدل رہی تھیں۔ وہ خود سے سوال کرتی یہ سب کیا ہے کہ نیلو میرےجیتے جی مررہی ہے، اُس کی زندگی میں کون سی کمی ہے ، اونچے برہمن گھرانے کی اکلوتی بیٹی، بلا کی خوب صورت ، پتا جی دیش کااتنا بڑا نیتا ،بھائی کئی فیکٹریوں کا مالک، بڑے بڑے گھرانوں سے رشتوں کے ڈھیر ، نوکر چاکر گاڑیاں ، عیش و آرام ، بھگوان کی دَیا سے کوئی کمی نہیں. تو کیا وجہ ہے کہ نیلم ا تنی دُکھی بیٹھی ہے کہ بھوک پیاس بھی برداشت کررہی ہے۔    جمناآج ایک ب...
خوف

خوف

آرٹیکل, افسانے
افسانہ انعام الحسن کاشمیری ”جوتے پالش نہ کروں، تو بہتر ہو گا ورنہ یہی لگے گا کہ میں امیر آدمی ہوں۔ کپڑے بھی یہی مناسب ہیں، اچھے کپڑے پہن کر آدمی سیٹھ لگنے لگتا ہے خواہ جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ ہو لیکن… لیکن میرے پاس تو خاصی رقم ہے!!!“ یہ خیال آتے ہی وہ لوہے کی مضبوط الماری کی طرف مڑا جو دوسرے کمرے میں کاٹھ کباڑ کے ساتھ یوں رکھی تھی جیسے اسی کا حصہ ہو۔ پہلے اس نے اپنے فلیٹ کے داخلی دروازے کو غور سے دیکھا، جب اطمینان ہو گیا کہ وہ مقفل ہے، تو جا کر الماری کھولی۔ سب سے نچلے خانے کے اندر ایک اور خانہ تھا، اس میں چھوٹے سے ڈبے کے اندر رقم رکھی تھی۔ وہ بڑی احتیاط سے ڈبابا ہر نکال کر نوٹ گننے لگا۔ تین لاکھ روپے پانچ بار گن کر انہیں دوبارہ سیاہ لفافے میں رکھا۔ لفافہ بند کرنے کے بعد اسے دستی بیگ کا خیال آیا جو دوسرے کمرے میں تھا۔ لفافہ قریب دھری میز پر رکھ کر وہ دستی بیگ لینے اٹھا۔ جو ن...
آٹھ آنے کی کہانی

آٹھ آنے کی کہانی

افسانے
سید شبیر احمد ستر کی دیہائی کے آخری سالوں میں آزاد کشمیر کے اس چھوٹے سے قصبے کی برانچ میں بطور مینیجر میری پوسٹنگ ہوئی تھی۔ مجھے چارج لئے ابھی ایک ہفتہ ہوا تھا کہ میں برانچ کے دو تین بڑے کھاتہ دار دکانداروں سے ملنے اپنے سپروائزر کے ساتھ بازار میں آیا۔ ایک دکان سے جیسے ہی ہم باہر نکلے تو وہ اچانک میرے سامنے آ گیا اور ہاتھ پھیلا دیا۔ آٹھ آنے ہوں گے۔ میں اسے دیکھ کر ایک دم گھبرا گیا۔ دھول سے اٹے جھاڑجھنکار سر کے لمبے لمبے بال اور اسی سے ملتی کھچڑی داڑھی۔گندے لمبے ناخن، میل سے سیاہ ہاتھ و چہرا۔ مٹی سے اٹے ہوئے سیاہی مائل کپڑے۔ میں اچانک اسے سامنے پا کر ششدرہو کر کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر دوسری طرف مڑ گیا۔ سپر وائزر نے بتایا، سر جی یہ پاگل سا آدمی ہے، ایسے ہی پیسے مانگتا رہتا ہے۔ لیکن کسی کو کہتا کچھ نہیں ہے۔ ہم پھر دوسری دکان کی طرف چل دیے۔ اس کے بعد اکثر وہ آتے جا...
چار بوتل خون

چار بوتل خون

آرٹیکل, افسانے
صغیر قمر  شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔بارش اور دھند کی وجہ سے ماحول جلد تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔ سری نگر کی سڑکوں پر حسب معمول ویرانی نظر آ رہی ہے۔ اکا دکا گاڑی یا رکشا گزرنے سے خاموشی ٹوٹ جاتی ہے۔ غلام قادر نے ورکشاپ کا دروازہ بڑی بے دلی سے بند کیا۔ اس نے اپنی پھٹی پرانی فیرن کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دن بھر کی کمائی جو اسے ورکشاپ کے مالک نے دی تھی جیب میں پڑی تھی۔ غلام قادر نے حقارت سے کندھے اچکائے‘ جیسے اسے یہ چند روپے محنت کے بدلے نہیں بھیک میں دیے گئے ہوں۔”آج کل تو اتنی بھیک بھی کوئی نہیں دیتا۔“ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور بیساکھی اٹھا کر چل پڑا۔اس کی بیساکھی کی آواز نے ماحول کے سکتے کو پھر توڑ دیا۔ آج نہ جانے کیوں اس کے دل میں یہ خیال در آیا تھا کہ وہ لال چوک سے ہو کر گزرے گا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ جب سے کشمیر میں تحریک نے زور پکڑا ہے‘ لال چوک مں موت کا سناٹا رہتا ہے...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact