Monday, May 13
Shadow

ادیب

ادب اطفال کے نئے لکھاریوں کو درپیش مسائل،  تحریرو تحقیق : ذوالفقارعلی بخاری

ادب اطفال کے نئے لکھاریوں کو درپیش مسائل، تحریرو تحقیق : ذوالفقارعلی بخاری

ادیب
تحریر وتحقیق:  ذوالفقار علی بخاری / برقی پتہ :  zulfiqarali.bukhari@gmail.com وقت تیزی سے گذر رہا ہے ۔ہم نت نئی اشیاء سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے آج بھی ادب اطفال کے لکھاریوں،  خاص طور پر نئے لکھاریوں کے بیشتر مسائل جو کہ حل ہو سکتے ہیں وہ جوں کے توں ہی برقرار ہیں۔ اشاعت کے حوالے سے بروقت اطلا ع سب سے اہم ترین مسئلہ جو کہ کسی بھی نئے لکھنے  والے کو ہو رہا ہے،  وہ ہے اُس کی کسی بھی تحریر  (کہانی/مضمون) کی اشاعت کے حوالے سے بروقت اطلا ع نہ دینا ہے۔ ہمارے ہاں دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ اس حوالے سے چند ادارے ہی اپنی ذمہ داری بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ تحریر کی اشاعت کے حوالے سے لکھاری کو آگاہ نہ کرنے کی وجہ سے وہ اُس تحریر کو کہیں اور بھیج دیتا ہے۔  اور چند ماہ کے بعد یہ پتا چلتا ہے کہ وہی تحریر کسی اور بھی رسالے م...
ہمارا مادھو ہم سے بچھڑ گیا، احمد سہیل

ہمارا مادھو ہم سے بچھڑ گیا، احمد سہیل

ادیب
تحریر و تصاویر: احمد سہیل ہمارا مادھو یعنی زاہد ڈار ہم سے بچھڑ گیا۔ میں نے ان سےمطالعے کی عادت سیکھی ۔ زاہد ڈار۔۔ جن کو ھم " مادھو" کہتے تھے اردو نظم نگاروں میں ایک توانا،منفرد حسیت اور مزاج کے شاعر ہیں۔ زاہد ڈار کی ولادت 1936 میں مشرقی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں ہوئی جب وہ چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے اس وقت ہندوستان کا بٹوارہ ہوا ۔ ان کا کنبہ نقل مکانی کرکے لاہورمیں بس گیا ۔ جہاں اسلامیہ ہائی سکول سے 1952 میں انہوں نے میٹرک پاس کیا اور اسی برس گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ انہوں نے انیس ناگی اور دیگر دوستوں کے ساتھ ادب پر بات چیت کرنے کے لیے دو برس تک کالج جانا جاری رکھا لیکن انٹر میڈیٹ کا امتحان نہیں دیا۔ انہوں نے معاشیات کا مضمون چنا تھا لیکن کتاب کا پہلا صفحہ کھولتے ہی انہیں یہ نہایت بیزار کُن محسوس ہوئی اور انہوں نے اسے بند کر دیا۔ معاشیات کی وجہ سے ہی وہ امتحان میں...
مسئلہ کشمیر اور ہمارے دانشور ادیب

مسئلہ کشمیر اور ہمارے دانشور ادیب

ادیب, دانشور, شخصیات
  پروفیسر فتح محمد ملک صاحب طرز انشاءپرداز اشفاق احمد کے ایک افسانے کی مرکزی کردار مظلوم کشمیری لڑکی شازیہ اُردو کے نامور ادیبوں اور شاعروں کے پاس یکے بعد دیگرے جاتی ہے اور ان میں سے ہر ایک کی خدمت میں کشمیری مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ پیش کرتی ہے ۔ مگر سارے کے سارے ادیب کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کے پاس اپنا اپنا بہانہ ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک کوئی کہتا ہے کہ “میری لائن انسان دوستی ہے سیاست نہیں”کوئی کہتا ہے کہ “یہ میری فیلڈ نہیں ہے میں گرامر،عروض اور ساختیات کا سٹوڈنٹ ہوں”۔یہ لڑکی ستیاجیت رائے اور گلزار جیسے فلم سازوں کے پاس بھی کشمیریوں کی مظلومیت کی فریاد لے کر جاتی ہے۔ مگر یہ لوگ بھی اس کی بات سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔بالآخر یہ لڑکی افسانے کے واحد متکلم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact