کتاب کا نام : لینڈ اسکیپ آف کشمیر:فوٹو گرافک مونو لاگ
مؤ لف : محمد ریحان خان// تبصرہ نگار :: ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
مناظر قدرت کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کا ہنر دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ مشکل اور فنی مہارت لیے ہوئے ہے۔ اس کے لیے اس کام میں دلچسپی بنیادی شرط ہے۔
قلم کارحسین مناظر کو دیکھ کر انہیں تحریر میں اس طرح پیش کرتا ہے کہ پڑھنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ از خود ان مناظر کے سامنے ہے اور ان کا نظارہ کر رہا ہے، جب کہ کیمرے کی آنکھ سے قدرت کے خوبصورت وخوب رُو اورحسین مناظرِ قدرت کو محفوظ کرنے والا پورٹریٹ فوٹو گرافر ، تصویر نگار اپنی تخلیق سے کوئی بھی خاص پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے ۔
وہ ایک باذوق اور حساس جذبات لیے ہوئے ہوتا ہے ، اُسے قدرت کے حسین اور خوبصورت منا ظر سے عشق ہوتا ہے ،یہ مناظر گویا اس کے محبوب ہوتے ہیں ، وہ کائنات کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھتا ہے اوراپنے احساسات و جذبات کو کیمرے کے توسط سے محفوظ کرتا ہے۔
جس طرح شاعر اپنے محبوب کے حسن کی تعریف اپنی شاعری میں خوبصورتی سے بیان کرتا ہے اسی طرح تصویر نگار کیمرے کی آنکھ سے مناظر قدرت کو محفوظ کرتا ہے ، اس عمل کو فوٹو گرافک مونولاگ یعنی تصویری خود کلامی کہا گیا ہے۔
تصویر نگار اپنے محبوب، مناظر قدرت سے مخاطب ہوتا ہے ، ان سے ہم کلام ہوتا ہے اور انہیں اپنے دل میں بسا کر کیمرے کے توسط سے محفوظ کر لیتا ہے۔ جس طرح ایک شعرکے توسط سے شاعر اپنا حال دل کھول کرربیان کردیتا ہے اسی طرح مصور یا تصویر نگار اپنی کھینچی ہوئی ایک تصویر سے خاص پیغام دے دیتا ہے۔وہ نمائش کے ذریعہ یا کتابی صورت میں اپنے شہکار دوسروں تک پہنچا کر تسکین اور خوشی و مسرت محسوس کرتا ہے۔
تصویر کشی کے حوالے سے ایک مثل مشہور ہے کہ ’’تصویر کی طاقت ہزار الفاظ کے برابر ہے‘‘۔ گویا نثر لکھنے والا کسی بھی قدرتی منظر کی منظر کشی میں ہزار الفاظ استعما ل کرتا ہے اور تصوریر نگار ایک ہی لمحہ میں ایک کلک سے جو تصویر محفوظ کر لیتا ہے وہ لکھاری کے ہزار الفاظ کے برابر ہوتی ہے۔ اس مثال سے تصویر کی اہمیت، طاقت اور وسعت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
پورٹریٹ فوٹو گرافی کی تاریخ قدیم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سب ے پہلے لاؤس ڈیگیوری(Louis Daguerre) نے فرنچ اکیڈی آف سائنسز 1839 میں متعارف کرائی اسی سال رابرٹ کارنیلیس(Robert Cornelius)نے سیلف پورٹریٹ کی بنیاد رکھی۔
امریکہ میں 1861میں سول وار کے دوران اس پورٹریٹ فوٹو گرافی نے رواج پایا اور فوجیوں اور جنگ کے دوران ہونے والے واقعات کو تصاویر کی شکل دی گی۔
رفتہ رفتہ اس شوق نے ایک پیشے کی صورت اختیار کرلی، وقت کے ساتھ جدید کیمرے ایجاد ہوئے، یہاں تک کہ آج ہر شخص کے پا س جوموبائل ہے وہ تصویر نگار بنا ہوا ہے لیکن پیشہ ورانہ فوٹو گرافی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے۔
اس شعبے میں کئی پورٹریٹ فوٹو گرافروں نے مقبولیت حاصل کی ، ان کی ایک طویل فہرست ہے لیکن دنیا کے10 مقبول پورٹریٹ فوٹو گرافروں کی ایک ویب سائٹ نے جاری کی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان کے عاطف سعید، فرانس کے (Daid Keochkerian)، امریکہ کے Darren White، نیوزی لینڈ کے Trey Rateliff، آسٹریلیا کے Peter LIk، بلگاریا کےEvgeni Dinev، نیدر لینڈ کےLasvan de Goor، فرانس کے Viencent Favre، جرمنی کے Killian Schonberger اور نیدر لینڈ کے ہی Max Riveشامل ہیں۔
اسی طرح پاکستان سے تعلق رکھنے والے پورٹریٹ فوٹو گرافروں میں بعض قابل ذکر ہیں ان میں مصباح قیصر، اسد امان، عامر، اسد فاروقی، ناد علی، مصطفیٰ شیخ، نویشن دادا بھائی، محمد انور زادہ، محمد علی احمد اور مظہر نیاز شامل ہیں۔
ریحان خان صاحب کئی سالوں سے فنون لطیفہ جو مباحاتِ فطرت میں سے ہے سے وابستہ ہیں ،وقت کے ساتھ ساتھ ان کے فن کو پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ انہوں نے اس شعبہ میں اس طرح کام جاری رکھا تووہ دن دور نہیں جب وہ پاپاکستان کے صفحہ او ل کے پورٹریٹ فوٹو گرافروں میں سے ہوں گے۔ ا ن کی کھینچی ہوئی تصاویر کی نمائشیں منعقد ہوچکی ہیں، پیش نظر کتاب سے پہلے بھی ان کی تصاویر پرمتمل کتاب شائع ہوچکی ہے۔
پیش نظر ’تصویری خود کلامی‘ وادئ کشمیر کے خوبصورت ، دلکش اور حسین مناظر کا تصویری مجموعہ ہے ۔ریحان خان صاحب پیشے کے اعتبار سے وہ ماہر انتظامیات ہیں، شماریات میں جامعہ کراچی سے ماسٹرز کر چکے ہیں۔ اس وقت بلدیہ کراچی میں سینئر ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ، فوٹو گرافی ان کا شوق ہے۔
اپنی شوق کی تکمیل میں آزاد کشمیر کے مختلف حصوں کا تفصیلی دورہ کیا اور ان قدرتی مناظر کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرتے گئے جس کا حاصل اس کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ایسی تصاویر جو دیکھنے والوں کوبے ساختہ تعریف کرنے پر مجبور کردیں کسی بھی مصور یا تصویرنگار کی کامیابی تصور کیا جاتاہے۔
اس کتا ب کی ایک ایک تصویر کو دیکھتے جائیں ایک جانب توکائنات کا حسن اور اور اس میں موجود خوبصورت و حسین مناظر کا احساس انسان کو اللہ پر پختہ یقین اور اس کی وحدانیت کے احساس کو اور پختہ کردیتا ہے،بے شک یہ حسین و جمیل مناظر ، اونچے اونچے سر سبز پہاڑاور ہرے بھرے درخت ، پودے ، پہاڑوں کے بیچ بہتے دریا، جھیلیں، بل کھاتے راستے، سرسبز و حسین وادیاں سب مالک کائنات کی تخلیق کردہ ہیں۔ اللہ نے سورہ رحمٰن میں ارشاد فرمایا ’’اور تم اللہ کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤگے‘‘ ۔ قدرت کے ان مناظر کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر لینا انسان کا ایک کارنامہ ہے۔
جہاں تک وادئ کشمیر کے حسن کا تعلق ہے تو یہ جغرافیائی خطہ صدیوں سے کرہ عرض پر اپنے حسن و جمال کی بہاریں دکھارہا ہے۔ اس کا قدرتی حسن کشمیر کا دورہ کرنے والوں کے دلوں کو متاثر ہی نہیں کرتا بلکہ دیکھنے والے حَیران، ھکا بکا، دنگ ، سرگشتہ اور دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے ہیں اور ریحان خان جیسے تصویر نگار ان دیدہ ذیب و حسین مناظر کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر لیتے ہیں، بعد میں یہ نمائش کی صورت میں یا کتاب کی صورت میں عام و خاص کی دلچسپی کے لیے پیش کردیتے ہیں۔
کشمیر کے حسن کی تعریفیں ہوتی چلی آئی ہیں جو حقیقت پر مبنی ہیں ریحان خان نے لکھا کہ ’’جب مغل شہنشاہ جہانگیر کشمیر آیا تو اس نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ ’’اگر خطہ زمین پر کوئی ’’جنت نگاہ‘‘ یعنی وہ جگہ جہاں روحانی مسرت حاصل ہوسکتی ہے تو وہ جگہ یہ کشمیر ہے، وہ یہاں ہے ، وہ یہاں ہے، وہ یہاں ہے‘‘۔
فوٹو گرافی ریحان خان کا شوق ہے ، اس حوالے سے ان کی تسلسل کی سرگرمیاں بتا رہی ہیں کہ وہ اپنے اس شوق میں فنا فل ہیں۔ ان کی تصاویر کی اب تک چار ’تصویری نمائشیں ‘‘ منعقد کرچکے ہیں۔
پہلی دو نمائشیں فروری2011اور جون2011میں ہوئیں، ان نمائشوں میں شامل تصاویر پاکستان، کینیڈا، انگلینڈ ، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور سنگاپور کے نظاروں پر مشتمل تھیں۔تیسری اور چوتھی نمائش مئی اور ستمبر2015میں ہوئیں ۔
عنوانExplore Pakistanاور My Pakistanتھا۔ ان تمائشوں کا تعلق گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے تھا۔ کتابوں کی تفصیل پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ریحان خان کی کھینچی ہوئی تصاویر پر مبنی اولین کتاب Clicks in Search of Beautyکے عنوان سے پہلی کتاب شائع ہوئی ، اس میں بھی آزاد کشمیر کے حسین مناظر تھے۔
پیش نظر کتاب کشمیر ڈے کے موقع پر 2016 میں بعوانLandscapes of Kashmir: a photographic Monologue منظر عام پر آئی۔ کتاب بنیادی طور پر انگریزی میں ہے۔
اس میں چار محترم شخصیات کے پیغامات شامل ہیں ان میں آزاد جمو کشمیر کے صدر الحاج سردار محمد یعقوب خان صاحب نے مؤلف کی کاوشوں کو سراہا ہے۔ گورنمنٹ آف آزاد جمو کشمیر کے وزیر اطلاعات جناب عابد حسین عابد نے اپنے پیغام میں ریحان خان صاحب کی جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کشمیر سے متعلق اس تصویری کام کو قابل قدر قرار دیا ہے۔ کمشنر کراچی جناب شعیب احمد صدیقی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ اس تصویری کتاب کی اہمیت اس وجہ سے اور زیادہ ہوجاتی ہے کہ یہ کتاب کشمیر کے دن کے موقع پر پیش کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا دن ہے جب کہ پوری پاکستانی قوم کشمیر سے اظہار یکجہتی کا اظہار کررہی ہوتی ہے۔
معروف شاعر، ادیب ، ماہر تعلیم ،ضیا ء الدین یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے اپنے پیغام میں لکھا کہ “His work is a masterpiece which shows his versatility, strong photogenic sense and, of course, artistic capabilities” ڈاکٹر پیرزادہ کے پیغام کے عنوان میں ریحان خان کی فوٹو گرافی سے وابستگی کی وضاحت خوبصورت انداز سے بیان کردی گئی۔
یہاں تک کہ اب اس حوالے سے کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی، واقعی تصویری سرگرمیوں سے ریحان خان کی دلچسپی ، گہرائی اور گیرائی کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے۔
کشمیرکے جن مقامات کی تصاویر کتاب کا حصہ ہیں ان میں آزاد جمو کشمیر اسمبلی بلڈنگ ، دریا نیلم اور جہلم کا سنگم ڈومیل(Domel)، مظفر آبادکا حسین منظر، مظفر آباد قلعہ جو ریڈ فورٹ (Red Fort) کہلاتا ہے، حضرت سید سائیں سخی سہیلی سرکار کی قبر مبارک اور مقبرہ کا منظر، مقبرے کے احاطے میں مسجد،پی چناسی(Peer Chanasi)، مقبرہ حضرت سید شاہ حسین بخاری ، پیر چناسی، خورشید حسن خورشید کا مقبرہ، براسالا (Barasala) میں ’قائد اعظم سیاحوں کا مرکز‘ اور تاریخی ڈاک بنگلہ، براسالا(Barasala) میں دریائے جہلم پر پل، آزاد جمو کشمیر روایتی شادی کا منظر، پٹیکا(Patika) کا منظر، دریائے نیلم دو پہاڑوں کے درمیان ، نیلم ویلی کے مختلف مناظر، کیران (Keran) گاؤ جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے ،شاردا(Sharda) ایک چھوٹا سا گاؤ نیلم ڈسٹرک میں اس کا خوبصو رت منظر، نیلم ویلی میں شاردا پل (Sharda Bridge)کا حسین منظر، نیلم ویلی پر ایک چھوٹے سے گاؤ کیل(Kel)کا منظر، ٹاؤبٹ(Taobut)ایک خوبصورت گاؤ کا منظر، نیلم ویلی کا بھارت کی جانب کا منظر ،دریائے جہلم، لیپا ویلی (Leepa Valley) میں سڑک کا حسین منظر، گھری ڈوپٹا(Ghari Dupatta)ایک چھوٹے سے گاؤ کا منظر، چکر لیک(Chakar Lake)کا حسین منظر، گنگا چوٹی (Ganga Choti)کا منظر، سدھن گلی (Sidhan Gali)کے حسین مناظر، باغ ڈسٹرک کا منظر، برپانی(Birpani)کا منظر، درہ حاجی پیر برف سے ڈھکی وادی کا منظر، بٹال ہاجیرا (Batal Hajiraکا منظر، دریائے پونچ(River Poonch)کا حسین منظر، ٹاٹاپانی(Tatta Pani)کے مناظر، کوٹلی شہر کے مختلف مناظر، میر پور اور کوٹلی کے درمیان ٹنل کا منظر، صوفی پنجابی ہندکو شاعرمیاں محمد بخش کا مقبرہ، گلگت کے بازار کا منظر، منگلا ڈیم کے خوبصورت مناظر، کھائی گالا(Khai Gala)، ٹولی پیر (Toli Peer)،بنجوسا جھیل(Banjosa Lake)کے مناظر، بنجوسا جھیل کے کنارے گھوڑوں کی خوبصورت تصویر، مونگ(Mong)شہر کا منظر، راولا کوٹ ، گوئی نالا اور آزاد پٹن(Azad Pattan)کے مناظر کتاب کا حصہ ہیں۔
ہر تصویر کے ساتھ اختصار سے اس کے بارے میں معلومات درج ہیں جو اس تصویر کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرتی ہے۔ رنگین تصاویر، آرٹ پیپر پر خوشنما اور دیدہ زیب چھپائی، ایسی کتب عام طور پر لینڈ اسکیپ سائز کی ہی ہوتی ہیں تاکہ تصویر واضح اور مکمل شائع ہو۔ فوٹو گرافی کے لیے کتاب کے مؤلف نے یقیناًان تمام علاقوں کا تفصیلی دورہ کیا ہوگا ، مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا بھی کیا ہوگا۔ اس لیے کہ اس طرح کی تصاویر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنا بہت آسان نہیں بلکہ اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے والی بات ہوتی ہے۔ لیکن شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا۔ ریحان خان قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے اپنی تمام تر دفتری مصروفیات، نجی اور گھریلوذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے شوقِ فوٹو گرافی کو دل و جان سے زندہ رکھا ہوا ہے۔ فوٹو گرافی کی تاریخ میں ریحان خان کو اعلیٰ مقام حاصل رہے گا، ان کی اس کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے