“ابھی جاں باقی ہے”
تحریر: خالددانش
ایک ایسے قلمکار کے بکھرے موتی جس کا تعلق کشمیر کے ایک ایسے پسماندہ علاقے سے ہے ۔ جہاں آج بھی بچیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ چنگیز راجہ کا شمار ان جرات مند قلمکاروں میں ہوتا ہے۔ جو گردش ایام، معاشرے میں پھیلی انارکی، ڈر و خوف سے عاری ہو کر سچ لکھنے اور سچ پہنچانے کا ہنر جانتے ہیں۔
راجہ صاحب نے اپنی حسین تخلیق “ابھی جاں باقی ہے” میں ذہنی تناؤ اور کشمکش میں مبتلا نفوس اور گھریلو مسائل،جلاو گھیراو،مار پیٹ کا شکار خواتین کی مشکلات کو احسن اسلوب میں قلمبند کیا ہے۔۔۔۔
ایک زمانہ تھا کہ جب علمی شعور کی ارتقاء کےلئے بڑے بوڑھے کہانیاں،قصے اور اصلاحی واقعات سنایا کرتے تھے۔۔مگر آج قلم اور کتاب کی طاقت لکھاری کی ژرف نگاہی اور ہمت کی بدولت مانی جاتی ہے۔
چنگیز راجہ نے اپنے ناول میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کا سچا عکس پیش کیا ہےاور انکے دماغی خلل کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندھی کی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ان خواتین کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے جو ہمارے معاشرے میں تکلیف دہ زندگی گزار رہی ہیں جنھیں انتہائی ظلم کا سامنا ہے۔
ابھی جاں باقی ہے۔۔اک ایسا نایاب ناول ہے جو ھمارے سماجی مزاج کے برعکس ہے ہم عشق و محبت کی داستانیں سن کر تالیاں بجانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں جو سراسر ہماری علمی کمی کی غمازی ہے۔۔مگر راجہ صاحب نے یکبارگی سے معاشرے و سماج کی توجہ حساس موضوعات کی جانب کرانے کا عملی کارنامہ سر انجام دیا ہےجو انکی علمی شخصیت کا جامع عکس یے۔۔
عوامی سطح پر اس کتاب کو پزیرائی ملنا نقارہ حق یے۔۔اسمیں موجود حقائق کو اور مباحث کو داد و تحسین سے نوازا جانا گویا سچ کے کارواں میں شامل ہونے کے مترادف یے۔۔
رب کریم سے دعا ہے اس کتاب کو بگاڈ پیدا کرنے والوں کے لئے سدھار کا ذریعہ بنا۔۔۔امین۔۔