“ان مکانوں میں عجیب لوگ رہا کرتے تھے”، تحریر : نادیہ انصاری
نادیہ انصاری ۔ کراچیآج برسوں بعد اُس علاقے سے گزر ہوا تو بےاختیار جی چاھا کہ اُس گلی میں قدم رکھا جائے جہاں بچپن بےفکری لیے گزرا۔ اُس گھر کے سامنے کچھ دیر کو ٹھہرا جائے کہ جس کے کھلے دروازے سے کبھی زندگی ٹپکا کرتی تھی ۔ وہ گھر کہ جس کی سیڑھیوں پر اچھل کود کرتے ، ٹرین بنائے کھانا کھاتے اور جس کے ٹیریس پر کھوکھو ، برف پانی کھیلتے بچپن نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا۔ آج زمانے بعد اُس گھر کے سامنے کھڑے ہوئے بے اختیار جی چاہا کہ اُن گزرے لمحات کو ایک بار پھر سے جیا جائے ۔ جی چاہا کہ بچپن پھر سے لوٹ آئے ۔ نگاہوں میں وہ مناظر ، سماعت میں وہ شور آج بھی زندہ تھا ۔ دل یک دم بے اختیار ہوا ایک بار تو اندر داخل ہو کر دیکھوں لیموں کا درخت اب بھی پھل دیتا ہے ۔ پیپل کے درخت پر جھولا پڑا ہے ۔ اُس گھر میں ایک عہد بستا تھا لیکن وہ کہتے ہیں نا ہر منظر ایک سا نہیں رہتا ۔ وقت بدل جاتا ہے سو وہ گھر جو کبھی ...