تحریر: م ، ا ، بٹ


کبھی کبھی سوچتا ہوں ہم جب بڑے ہوتے ہیں تو ہمارا اندر کا بچہ کیوں مر جاتا ہے ۔ بچپن کی یادوں کو ہر شخص حسین اور ناقابل یقین کہتا ہے لیکن اس دور میں رہنا نہیں چاہتا ۔ بچن میں بغیر سکھلائی کے ہم ہمدردی کے جزبہ اور ایثار اور قربانی کا عملی مظاہرہ بھی کرتے تھے ۔ تحائف کے لینے دینے کو بھی سمجھتے تھے ۔ دوست کو وقت دینے اور اس کا سہارا بننے کو بھی سمجھتے تھے ۔

شائد یہ چیزیں ہم بچپن میں ہی کر سکتے ہیں کیونکہ نہ خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے اور نہ ہی حسد ۔ تکبر کا لفظ تو اس وقت آتا ہے جب دوسروں کو ہیچ سمجھنا شروع کرتے ہیں ۔ اسوقت ہر ایک کو اپنا اور اپنے جیسا سمجھ کر گلے لگا لیتے تھے ۔ ہر کوئی اپنا اور کوئی غیر نہ تھا ۔ اب تو فرق بھی نظر آنے لگا اور کبھی کبھی غریب سے نفرت اور حقارت بھی ۔

 کیا یہ سب ہمیں معاشرے نے نہیں سکھلایا  ۔اگر یہ صحیح ہے تو معاشرے کی اصلاح کیسے کی جائے ؟ جوں جوں اصلاح کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو انہی قدموں پر قدم رکھ کر چند روکنے والے سامنے آجاتے ہیں ۔ جب تک سب کی ترجیحات ایک نہیں ہوں گی ۔ایک اور نیک معاشرے کا تصور ناممکن ہے ۔

 آئیے ایک دفعہ پھر بچہ بن کر معاشرے کی اصلاح کا بار اٹھائیں ۔ وہ بچہ جو غریب اور امیر ، بڑا اور چھوٹا ، انسان اور حیوان ، خوشی اور غم ، مجبوری اور معزوری ، ظلم و جبر جیسی اسطلاحوں کو استحصال کے لئے استعمال نہ کرے ۔ بچن میں نہ پھولوں کی دکانیں ہوتی تھیں ۔ لیکن ماحول پر کشش اور فضا معطر ہوا کرتی تھی ۔ کیونکہ ہر بچہ گلی محلہ میں اپنا حصہ ڈالکر اپنے گھر تک اس خوشبو کو لے آتا تھا ۔ اور بزرگ بھی اس سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ کیونکہ دوریاں نزدیکی میں بدلنے کا فن بچے سے زیادہ کسی کو نہیں آتا اسی لئے ہر ایک کو بچہ اچھا لگتا ہے ۔

 اب جبکہ ہر گلی نکڑ پر پھول کی دوکان ہے ۔ پھول خریدے جاتے اور تحفہ میں پیش بھی کئے جاتے ہیں لیکن وہ دوریاں مٹنے کا نام نہیں لیتیں ۔ پر کیوں ؟ خلوص اور چاہت کا اظہار کرنے والے چہرے نہیں ملتے ۔ چلیں بڑے ہو کر بھی ہم چہروں پر بچوں کی سادگی ، اپنائیت اور دلکشی کا خول چڑھا لیں اور زبان سے ادا الفاظ کو پاکیزگی اور ہمدردی کے بولوں میں بدل دیں ۔ کوشش کر کے دیکھیں ۔ یہ معاشرے پر آپ کا احسان عظیم ہو گا۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content