تحریر: راجہ ندیم سرور
سیاست اور جمہوریت کے نام پر اس ملک میں کیا کیا ہوتا رہا۔ اگرچہ سب لوگ باخبر تھے مگر زبان سب نے سی رکھی تھی صرف اس لیے کہ کہیں وہ بھی نشانہ نہ بن جائیں۔ کہیں تعلقات خراب نہ ہو جائیں۔ کہیں مل کر کھانے کا یہ قصہ تمام نہ ہو جائے۔ یہ تباہی ٩٠ کی دہائی سے پہلے ہرگز نہ تھی۔
نوے کی دہائی کے ساتھ شروع ہونے والی قتل و غارت۔ غنڈہ گردی۔ بھتہ خوری۔ رشوت ستانی۔ اقربا پروری۔ منی لانڈرنگ اور سفارش کلچر نے سب کچھ یکسر بدل کر رکھ دیا۔ دنیا اکیسوی صدی میں جب داخل ہو رہی تھی تو ایک بدلی ہوئی دنیا۔ تعلیم و تربیت۔ سائنس و ٹیکنالوجی۔ علوم و فنون جبکہ ہم اوپر بیان ہونے والی ہولناکیوں کو لے کر داخل ہوئے۔
چنانچہ دنیا نے ترقی کی جدید خطوط پر اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی استوار کی۔ چاند پر کمندیں ڈالیں۔ طب اور سائنس میں نئی نئی ایجادات کیں اور پوری دنیا کے انسانوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے راہ ہموار کی۔ ویکسین کی ایجادات ہوئیں بیماریوں پر کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے۔
سسکتی اور بلکتی دنیا کو ایک نئی امید دلوائی۔ دوسری جانب ملک پاکستان کی سیاسی اور جمہوری جماعتیں بھی اکیسویں صدی میں داخل ہوئیں۔ فرقہ واریت۔ انتہاپسندی۔ تفرقہ بندی۔ بھتہ خوری۔ دہشتگردی۔ بے راہ روی اور مایوسی لے کر۔ اگرچہ ٩٠ کی دہائی میں جو فصل ہم نے بوئی وہ اب تک ہم کاٹ رہے ہیں اور جو بھی رپورٹس سامنے آرہی ہیں وہ ایک ایک فرد کا بیانک چہرہ سامنے لا رہی ہے۔
کہ کس طرح سیاست اور جمہوریت کے نام پر اس قوم و ملک کے ساتھ یہ مکرو دھندہ کیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی وقت ہے کہ ہم لوگ خود کو بدلیں شخصیت پرستی کو چھوڑ کر ملک میں حقیقت پسندی کا ساتھ دیں۔ حق و سچ کے علمبردار بنیں اور ملک و قوم کی تعمیر کرنے والوں کا ساتھ دیں۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ملک پاکستان کی ہر بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.