آرسی رٶف
چلو اک کام کر تے ہیں
ریوائنڈ اپنے سب صبح و شام کرتے ہیں
اپنی اکائیوں کے رستوں پر چل کر
دیکھتے ہیں پھر سے
میری کائنات کا محور بھی فقط اپنی ذات تھی
تم بھی اپنی دنیا کے مسافر تھے
چاروں آنکھوں کے خواب بھی اپنے تھے
مسخر کچھ جزیرے فکر و روح کے کرنے تھے
اپنی اپنی سوچوں کے برش سے حاشیے
جو کھینچے تھے
ان میں ہم نے خود رنگ بھرنے تھے
کہ کسی کی آنکھ کا خواب کوئی دوسرا
دیکھ ہی کب سکتا ہے
کسی کے لب کا حرف کوئی کہہ ہی نہیں سکتا
تخیل کے عمل کی جان فشانی کو دوسرا سہہ نہیں سکتا
کوئی بشر بھی سیال صورت
اپنے سانچے سے نکل کر دوسرے میں ڈھل نہیں سکتا
چونکہ ہم اپنی ذات میں اکائی تھے
کیونکہ ہم اپنی ذات میں ایک اکائی ہیں
یہ بھی ممکن ہی کس طرح ہے
حیطہء خیال تک لانا
کہ
اپنے دائروں کو چھوڑ دیں ہم
زندگی کے صفحات کو اپنے رخ موڑ لیں ہم
کہ الست میں جڑے روحوں کا
اٹوٹ ہے بندھن
چلو یہ مان لو پھر
جان ڈن کی تراشیدہ پرکار کے
ایک سرے پر تم دوسرے پر میں ہوں
اپنے محور میں گھوم گھوم تھک چکے ہیں
مگر
خود کو کھو نہیں سکتے
دوسرے کی ذات میں ضم مکمل ہو نہیں سکتے
اگر یہ مان لیں
تو
پھر سوچتے ہیں
اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے کو
اپنی جا ان دائروں میں،
گاہے بہ گاہے
اک دوسرے کے ساتھ
بدل بھی تو سکتے ہیں
کرہ ہائے ذات کے محور زاویوں میں
ڈھل بھی تو سکتے ہیں
گلیشیر تودوں کی صورت
پگھل بھی تو سکتے ہیں
متوازی نہیں گر ممکن تو
زگ زیگ راستوں پر
چل بھی تو سکتے ہیں
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.