عثمان غنی (ابنِ غنی)
مدھم بھاری سانسوں کی آواز سپیکر سے ابھرتی ہوئی اس پرسکون کمرے میں بکھر کر اس کی فضا متاثر کر رہی تھی۔ وہ سمجھ سکتا تھا کہ مخاطب اس وقت کچھ بولنے سے قبل اپنی سسکیوں کو ضبط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بلاآخر بھرائی ہوئی آواز نے اس بوجھل سکوت کو توڑ ڈالا۔
ایسا کیوں کہتے ہو…..؟ وداع ہونے کی باتیں کیوں کرتے ہو۔…؟
کیونکہ یہی تو سچائی ہے۔ مادام. آج ، کل ، پرسوں، جب بھی لیکن تمہیں مجھ سے الگ ہونا ہے۔ مجھ سے رخصت ہونا ہے۔ بہانہ کچھ بھی بنے، تمہارا رشتہ، تمہاری اچھی نوکری، یا کچھ بھی لیکن وہ دن دور نہیں جب تمہیں مجھ سے وداع لینا ہو گا۔ کیونکہ میں تو جامد ہوں، ساکت، ٹھہرا ہوا اور لوگ ٹھہرے ہوئے لوگوں سے کنارہ کرتے ہیں۔
اس کی آواز میں کیا تھا۔ یہ جاننا مشکل تھا۔ اسے اپنے جزبات چھپانے میں ملکہ تھا۔ انہیں کبھی عیاں نہیں ہونے دیتا تھا۔ وہ مسلسل بولتا جا رہا تھا۔
سمندر دیکھا ہے نا، جامد ، ساکت ، پرسکون ، ٹھہرا ہوا۔،
ہوںمممممم،۔ جواب دیتے ہوئے اس نے ہموار آواز نکالنے کی کوشش کی تھی۔
پھر کشتی بھی دیکھی ہو گی….؟ وہ سوال کر رہا تھا۔
جی دیکھی ہے۔ اب اس کی آواز میں نمی نہیں تھی۔
گڈ، سمندر شانت ہوتا ہے۔ میری ہی طرح، ٹھہرا ہوا۔ کشتی یعنی لوگ، آتے ہیں۔ سینے میں جزبات کی صورت تلاطم مچاتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں۔ سمندر وہیں ٹھہرا رہتا ہے۔ جیسے میں، نہ کوئی پیش رفت، نہ کنارہ۔ بس جامد۔
تو قدم بڑھاؤ، کس نے روکا …؟ اب وہ سوال کر رہی تھی۔ چیلنج کر رہی تھی۔
ہاہاہاہاہاہاہا ، قہقہے کی آواز پہ اس نے فون کان سے ہٹا کر سپیکر کو گھورا۔
افففف یہ شخص، اس کی باتیں۔ اور اس کا یہ ظالم قہقہہ۔ وہ بربڑائی۔
میری پیش قدمی سمندر جیسی ہے۔ بپھری ہوئی لہروں کی صورت سب بہا لے جانے والی۔ تہس نہس کر دینے والی، میرا یقین کرو، میری جاں، تم اسے سہار نہیں پاؤ گی۔ بہہ جاؤ گی۔ ڈوب جاؤ گی۔ میں تمہارا امتحان نہیں لینا چاہتا۔ تمہیں آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتا۔
اففففف یہ ذات کے مسائل۔ اس نے نم آنکھوں سے بڑبڑا کر سر جھٹکا۔ فون کے دوسری جانب موجود شخص ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا۔ شاید یہ سچی باتیں ہی تھیں۔ جو اسے رونا آیا تھا۔ دس منٹ کی خاموشی کے بعد کوئی جواب نہ پا کر کال کٹ چکی تھی۔
ہمیشہ یہی ہوتا تھا۔ وہ بڑے شوق سے کال ملاتے۔ گفتگو شروع ہوتی۔ ہنسی مزاق چلتا۔ پھر گفتار سنجیدگی اختیار کرتی۔ بات اظہار محبت پہ آتی۔ دونوں چند لمحے خاموش ہو جاتے۔ پھر وہی دوبارہ بات شروع کرتا، اسے سمجھانے، بتانے کی کوشش کرتا۔ وہی باتیں، جنہیں ہر مرتبہ سمجھایا کرتا تھا۔ بتایا کرتا تھا۔ زمانے کے حقائق، تلخیاں، سچائیاں۔ وہ خود بھی سمجھتی تھی مگر اس دل کا کیا کرتی….؟
آنکھیں صاف کرتی اس سراپاِ محبت کے ذہن میں اپنے محب کی لاسٹ کال میں کہی گئی بات بڑے شد و مد سے گونج رہی تھی۔
“میری جاں ، حقیقت تلخ اور سچ کڑوا ہوتا ہے”
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.