قانون سازی اردو میں کیوں نہیں ؟ سردار محمد حلیم خان

قانون سازی اردو میں کیوں نہیں ؟ سردار محمد حلیم خان

سردار محمد حلیم خان
پچھتر سال سے اس ملک میں تبدیلی کے نعرے لگ رہے ہیں لیکن عام آدمی کی زندگی میں کوءی تبدیلی نہیں آئی ایسا نہیں ہے کہ تبدیلی کے نعرے لگانے والے سارے ہی لوگوں کا مقصد صرف سستے نعرے کے ذریعے عوام کو اپنے ساتھ ملانا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ایسی تبدیلی جس سے عام آدمی کی زندگی واقعی تبدیل ہوتی کے لیے بنیادی  ڈھانچے میں تبدیلی کسی کا ہدف ہی نہیں رہی
کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کے بعد آذاد ہونے والا چین دنیا کی نمبر ایک سپر پاور بن چکا ہے لیکن پاکستان نے پچھتر سالوں میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت بننے والے قانون سازی کے قواعدِ و ضوابط میں کوءی تبدیلی تک نہیں کی ۔اس کے زمہ دار پچھتر سال میں برسراقتدار آنے والے تمام افراد جماعتیں اور ممبران پارلیمنٹ ہیں۔
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت 1937میں برصغیر میں پہلے الیکشن کے نتیجے میں بننے والی اسمبلیوں کو محدود قانون سازی کا اختیار تھا اور قانون سازی کی ساری کارروائی بھی اردو میں ہوتی تھی تاکہ کالے لوگ جو قانون سازی کریں اس پہ انگریز بہادر کی نظر رہے۔چنانچہ اس دور کی کاروائی کی جو جو روداد سامنے آتی ہے پتہ چلتا ہے کہ تقریریں وغیرہ تو اردو میں ہوتی تھیں تحریک  استحقاق اردو میں ہوتی لیکن مسودہ قانون ہمیشہ انگریزی میں پیش ہوتا۔
انگریز چلے گے پاکستان وجود میں آگیا لیکن اس روایت کو اتنا مقدس سمجھا گیا کہ کسی امر کی اور نہ ہی کسی جمہورےکی اسمبلی نے اس کو  چھیڑا حالانکہ دوسری طرف پاکستان کے حکمرانوں نے آزادی ملنے کے صرف ایک سال بعد ڈھاکہ میں بنگالیوں کے اس مطالبے پہ گولی چلائی کہ وہ ایک کی بجائے دو قومی زبانوں کا مطالبہ کر رہے تھے اردو اور بنگلہ ۔
لیکن مسلم لیگ کے زعماء نے اس مطالبے کو وحدت پاکستان کے خلاف سمجھا اور اردو کی محبت میں اس حد تک چلے گے کہ آغا خان کا عربی کو قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ بھی رد کر دیا گیا۔لیکن اردو ہنوز سرکار دربار میں اجنبی رہی اور آج تک اجنبی ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اجنبی ہے ۔حتی کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ممبران نے بھی اس طرف توجہ نہ دی۔اور یوں اسمبلی کا سب سے اہم اور اصل بزنس یعنی قانون سازی انگریزی میں ہی ہوتی رہی۔یہی وجہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت کی اسلام کے ساتھ والہانہ محبت کے باوجود اور ممبران اسمبلی کی بھی بڑی تعداد کے دینی مزاج اور صوم و صلوٰۃ کا پابند ہونے کے باوجود قانون سازی میں اس ایمان اور عقیدے کا پرتو نظر نہیں آتا اس کا ایک شاہکار ٹرانس جینڈر بل بھی ہے اور ختم نبوت  کے حلف  نامے میں تبدیلی کا بل بھی۔جس قانون ساز اسمبلی نے یہ دو بل منظور کیے تھے اس کی اکثریت کے ایمان اور عقیدے پہ شک کرنا بھی گناہ ہے اور سوءے ظن ہی کہلائے گا لیکن اس کے باوجود یہ قوانین منظور ہو گے کیونکہ موقع پہ مسودہ قانون انگریزی میں ہونے کی وجہ سے اور سپیکر ایاز صادق صاحب کے رٹے رٹاءے جملوں کے جواب میں ممبران اسمبلی بغیر سمجھ بوجھے یس کہتے گے کیونکہ قیادت کا حکم تھا میرا ایمان ہے کہ یہ مسودہ ہائے  قانون اگر اردو میں ہوتے تو یوں آسانی سے منظور نہ ہوتے۔
اسی طرح آئی ایم ایف کے حکم پر موجودہ اسمبلی میں تحریک انصاف کی حکومت نے جو بل منظور کرواءے مسودہ قانون اردو میں ہوتا تو حکمران جماعت کے اپنے ممبران بھی اس بل کے حق میں ووٹ نہ ڈالتے اور شاید باجوہ ترمیم بھی بھاری اکثریت سے حکومت اور اپوزیشن مل کے منظورنہ کرسکتیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ مسودہ قانون انگریزوں کی موجودگی میں تو اس لیے انگریزی میں ہوتا تھا کہ اصل حکمرانوں کو کوئی  دقت نہ ہو قانون سازی پر نگاہ رکھنے میں پاکستان بن جانے کے بعد کیا مجبوری تھی؟
کیا کسی مقام پہ کوءی غیر تحریر شدہ معاہدہ ہے؟
عقل وشعور سے بالا تر ہے یہ چیز کہ سب لوگ جو پارلیمنٹ میں ہیں اردو بولتے اور سمجھتے ہیں۔یہ قانون سازی عوام کے لیے ہورہی ہوتی ہے وہ سب بھی اردو سمجھتے ہیں اس قانون سازی پر عملدرآمد جس انتظامیہ کے ذریعے ہونا ہے وہ اردو بولتی اور سمجھتی ہے سپریم کورٹ سے لیکر سول جج کی عدالت تک تمام ججز اور وکلاء اردو سمجھتے ہیں پھر یہ مسودہ قانون انگریزی میں اوراس کی ساری کاروائی بھی زبان غیر میں ہوتی ہے آخر کیوں؟
اگر اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو زبان اتنی تہی دامن ہے کہ وہ قانون سازی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تو پچھتر سال میں کھربوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات لینے والے اردو کے اساتذہ کیا کرتے رہے ؟اگر پچھتر سال تک ایک زبان پڑھانے کے باوجود اس زبان میں قانون سازی نہیں ہو سکتی تو اس زبان اور اس کے پڑھانے والوں میں سے کسی ایک کو دریا برد کرنے کی ضرورت یے۔ ۔غیر ملکی زبان میں قانون سازی کا اگر پہلا نقصان یہ ہے کہ اپنے عقائد نظریات اور کلچر کے مطابق قانون سازی نہیں ہوتی تو یہ نقصان بھی کچھ کم نہیں کہ قانون سازی انگریزی میں ہونے کی وجہ سے عدالتوں کے فیصلوں پہ بھی اس کا اثر پڑتا ہے اور عدالتی فیصلے اور  مباحث بھی انگریزی میں ہوتے ہیں آپ عوام کی مظلومیت ملاحظہ فرمائیں عوام کے پیسوں سے مراعات لینے والا جج اور عوام کی طرف سے پیسوں کے عوض ہائر کیے گئے وکلاء اس زبان میں گفتگو فرماتے ہیں اور ججز اس زبان میں فیصلے لکھتے ہیں کہ عوام کو کچھ سمجھ نہیں آتی بحث کیا ہوئی  وکلاء نے دلایل کیا دیے اور جج صاحبان نے فیصلہ کیا دیا۔پھر اسی بدیسی زبان میں فیصلہ ہونے کی وجہ سے وکلاء سے لیکر بیوروکریسی تک عوام کی جیب پہ مزید قینچی چلاتی ہے۔کیوںکہ عوام کو نہیں پتہ چلتا کہ اس کے حقوق اور فرائض کیا ہیں۔
ہماری عدلیہ کی مثال بھی دنیا میں کہیں نہیں ملتی کہ جو اپنے ہی سابق چیف جسٹس کی  حکم عدولی کرتی ہے جنہوں نےحکم دے رکھا ہے کہ تمام عدالتی فیصلے اردو میں لکھے جاءیں گے لیکن اس حکم کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اس پہ کوءی  توہین عدالت معزز ججوں پہ نہیں ۔بنتی۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ عدالت نے یہ عجیب وغریب حکم نامی بھی جاری کر رکھا ہے کہ اب پاکستان میں قانون کی تعلیم اس کی قومی زبان میں نہیں دی جاسکتی بھی نہ اردو  میں قانون کوپڑھایا جاسکتا ہےنہ اس کا امتحان لیا جا سکتا ہے
ان سارے عوامل سے متاثر کون ہوا؟عام آدمی ۔وہ عام آدمی جو عدالتوں اور مقننہ کی مراعات پہ اٹھنے والے اخراجات اپنے خون پسینے کی کاروائی سے پورے کرتا ہے ٹیکسوں کی صورت میں آج تک منتخب ہونے والے ممبران پارلیمنٹ سے۔
بہت بڑی کوتاہی ہوءی ہے لیکن اب بھی کچھ باغیرت ممبران اسمبلی اس کا ازالہ کر سکتے وہ اس طرح کہ مسودہ قانون انگریزی میں پیش کرنے کے خلاف مزاحمت کریں۔قانون سازی کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے  ترامیم تجویز کریں۔اس وقت پارلیمنٹ میں علماء کی  تعداد ایک درجن  سے زائد ہے اور ان کے ووٹ حکمران اتحاد کے لیے فیصلہ کن اہمیت رکھتے ہیں وہ یہ کام آسانی سے کر سکتے ہیں
غلامی کی اس علامت کو تبدیل نہیں کیا جاتا تو قانون سازی کا باءیکاٹ کریں۔ جب تک قانون سازی اردو میں کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہوتا سمجھ لیں کہ تبدیلی کی پہلی اینٹ بھی نہیں رکھی گئی


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.