تحریر : میاں مہر علی
1 معاش کا درخت
ہم درخت سے دوچیزیں لیتے ہیں ایک چھاؤں اور دوسرا پھل، چھاؤں ٹھنڈی ہوتی ہے جبکہ پھل میٹھا ہوتا ہے ،اگر ہمیں زندگی میں ٹھنڈی چھاؤں اور میٹھے پھل کو لینا ہے تو ہمیں سات درخت لگانے پڑیں گے ۔ اس شخص کی زندگی میں روشنی ہوگی جس کی زندگی میں سات درخت ہیں ،لوگ زندگی میں سات درخت نہیں لگاتے صرف ایک ہی درخت لگاتےہیں اور اسی کو کامیابی سمجھتےہیں اور اس درخت کانام ہے معاش ۔ جب تک بقیہ چھ درخت نہیں لگائیں گے کامیابی نہیں ملے گی۔
بگ بینگ کے مفروضے کے مطابق اس کائنا ت کی عمر یا زندگی کی عمر چودہ کھرب سال ہے جبکہ اس زمین کی عمر چار کھرب پانچ سو ارب سال ہے اور اس میں انسانی زندگی کی عمر پینتیس لاکھ ہے ۔ اتنے زیادہ وقت میں آج کے انسان کے پاس صرف ساٹھ برس ہوتے ہیں ان ساٹھ برس میں شعور والی زندگی بہت تھوڑی ہوتی ہے ۔جس کے پاس شعور ہوتا ہے اس کے پاس قوت فیصلہ ہوتی ہے جبکہ شعور کا حساب ہونا ہے کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے میں نے حساب لینا ہے ۔ جب شعور والی زندگی اتنی مختصر اور مہنگی ہے تو پھر سوال ہے کہ کیا ہم نے کبھی اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ؟ کیا کبھی اس کی ترجیحات بنائیں ؟ ہمیں مہینے کی ایک کمائی تنخوا ہ کی صورت میں ملتی ہے ہم اس کی پلاننگ کرتےہی جبکہ جو کل کمائی ہے اس کے بارے میں سوچتے نہیں ہیں ،ہم نے صرف پیسے کو اپنی ترجیح بنایا ہوا ہے ،ہم نے ہر چیز کو مادے کے ساتھ جوڑ دیا ہے ۔لوگوں کے پاس پیسہ ہوتا ہے لیکن بعض اوقات سکون نہیں ہوتا ، بعض اوقات عز ت نہیں ہوتی ، بعض اوقات اپنے آپ کا پتا نہیں ہوتا ، بعض اوقات ایمان نہیں ہوتا ، بعض اوقات اپنی ذات نہیں ہوتی ۔ معاش کا درخت ضرور ہونا چاہیے لیکن صرف معاش کا درخت نہیں ہونا چاہیے۔
2۔ خدمت کا درخت
زندگی میں سب سے خوبصورت چیز اطمینان قلب ہے ۔ جو سکون بانٹنے میں ملتا ہے وہ کمانے میں نہیں ملتا یہ شائد اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ب بھی بانٹنا ہے ۔ زندگی میں دوسرا خدمت کا درخت ضرور لگائیں، پروفیسر معیذ صاحب کہتےہیں ” جو بندہ یہ کہتا ہے میں امیر ہو جاؤں تو بانٹوں گا وہ کبھی نہیں بانٹےگا کیو نکہ وہ امیر تو ہو جائے گا لیکن حوصلہ نہیں ہوگا ” جو بندہ آدھی روٹی خود کھاتا ہے اور آدھی بانٹ دیتا ہے وہ بڑا انسان بنتا ہے ۔ خدمت کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ پیسے ہوں تو خدمت ہو گی ہے خدمت تو مزاج سے ہوتی ہے حدیث مبارک کا مفہوم ہے “سخاوت دل سے ہے مال سے نہیں “۔ خدمت کا مطلب ہے معاوضہ بندے سے نہیں ملنا اللہ تعالیٰ سے ملنا ہے ۔ خدمت میں چوکیداری نہیں کرنی بس نیکی کرنی ہے اور دریا میں ڈال دینی ہے ۔ خدمت عقل کی زکوٰۃ ہے، یہ فہم کی زکوۃ ہے ،یہ ذہانت کی زکوۃ ہے ، یہ بڑے پن کی زکوۃ ہے ۔ اگر میٹھا پھل کھانا اور ٹھنڈی چھاؤں لینی ہے تو پھر خد مت اللہ تعالیٰ کےلیے ہونی چاہیے ۔
3۔ فیملی کا درخت
فیملی بہت اہم ہے اور اس کو اہم سمجھنا بھی چاہیے اس کی ضروریات کو اہم سمجھنا چاہیے ۔ فیملی کی تین ضروریات ہوتی ہیں ہم ایک کو پورا کر کے دو سے کنارہ کشی کر جاتے ہیں ، پہلی ضرورت پیسہ ہے دوسری توجہ ہے ، توجہ کا مطلب ہے بچوں کی تمام چیزوں کے ساتھ تعلق ہو، تیسری ضرورت قربانی ہے کیو نکہ تعلق کی قیمت قربانی ہے ، تعلق قربانی مانگتا ہے ۔ وہ لوگ جوان تینوں میں سے ایک رکھتے ہیں باقی نکال دیتےہیں وہ زیادتی کرتےہیں ان کا درخت کبھی بھی میٹھا پھل اور ٹھندی چاؤں نہیں دیتا ۔
4۔ پیشے کادرخت
زندگی میں انسان کا دو چیزوں کے ساتھ زیادہ وقت گزرتا ہے ایک پیشہ دوسرا بیوی اس لیے دونوں کا انتخاب سو بار سوچنے کے بعد کرنا چاہیے ۔ ہم نے دنیا کا کوئی کام کرنا ہو اس میں چاہے کپڑے خریدنے ہوں، جوتے خریدنے ہو ، کوئی بیماری ہو یا کوئی اور چیز ہو اس کے لیے سو لوگوں سے مشورہ کرتے ہیں لیکن جس کے ساتھ ہماری زندگی گزرنی ہوتی ہے اس کے بارے میں مشورہ ہی نہیں کرتے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے انتخاب کی طاقت دی ہے یہ کسی اور مخلوق کو نہیں ملی،انسان اپنے مزاج کے مطابق اپنے پیشے کو منتخب کرتا ہے ، انتخاب میں غلطی ہو سکتی ہے ممکن ہے نوکری والا بندہ کاروبار کرتا ہو، ممکن ہے کاروبار والا نوکری کرتا ہو ، ممکن ہے نوکری جس طرح کی چاہیے تھی ویسی نہ ہو ، ممکن ہے کاروبار جس طرح کا چاہیے تھا ویسا نہ ہو لیکن اس بارے میں سوچنا ضرور چاہیے اور مشور ہ ضرور کرنا چاہیے۔ زندگی میں غلط ٹرین ہو ں تو اتر کر صحیح ٹرین پکڑنےمیں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے ۔ اپنی زندگی میں چیزیں چھوڑنے کی طاقت ، ہمت ، جرات پیدا کریں کیو نکہ جو چھوڑ سکتا ہے وہی آگے جا سکتا ہے پھر اس کو ٹھنڈی چھاؤ ں ملتی ہے اور میٹھا پھل بھی ملتا ہے ۔ جس پیشے سے بندہ انجوائے نہیں کرتا وہ پیشہ پھرسوالیہ نشان ہے ، جس کے لیے اس کا ہم سفر راحت کا سبب نہیں ہے تو پھر سوالیہ نشان ہے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں “دوست سے سکون نہیں ہے اورد شمن سے تکلیف نہیں ہے تو پھر نہ دوست دوست ہے اور نہ دشمن دشمن۔ “
5۔ ساکھ کا درخت
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عزت اور ذلت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے لیکن بندے کو وہ کام کرنے چاہییں جو عز ت کا سبب بنیں کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے یہ کام عزت والے ہیں یہ ذلت والے ہیں ۔یہ اتنی اہم چیز ہے کہ بندے کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کی ساکھ کو دیکھا جاتا ہے اس لیے ہمیشہ زندگی میں ساکھ برقرار رکھیں لیکن یہ بات بھی یاد رہیں کہ ساکھ ہو نے کے باوجود بھی مسئلے رہیں گے ، اچھا ہونے کے باوجود لوگ برا کہیں گے ۔ جس چیز کاکوئی حل نہیں ہے اس کی فکر مندی چھوڑ دیں بس آنکھیں نیچی کر کے چلتے جائیں ایک دن سر اٹھے گا دنیا ساتھ ہوگی ۔ اپنی نگاہوں میں اپنے آپ کو بھی گرنے نہ دیں۔ دنیا میں سب سے بڑا مجرم اپنی ذات کا مجرم ہوتا ہے ، لوگوں میں چور پن ہوتا ہے ، جس کی اپنی نگاہوں میں اپنی عزت نہیں ہے وہ کسی کی عزت کیا کرے گا ، جو چیز ہے ہی نہیں وہ کیسے دی جا سکتی ہے عزت تو عزت دار بند ہ کرتا ہے ۔ساکھ کو اہم سمجھیں اس پر انوسٹمنٹ کریں ، وقت لگائیں ۔ بندے کی دوستوں اور دشمنوں سے بھی پہچان ہونی چاہیے ، شاہین شاہین کے ساتھ ہی اڑتا ہے مردار کھانے والے گدھ کے ساتھ نہیں اڑتا۔ تعلق کی وجہ پیسہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ نظریہ ہونا چاہیے حضرت علی المرتضی ؒ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں “نظریے کا ساتھ ازلی اور ابدی ہوتا ہے۔” طے کریں کن کے ساتھ کام کرنا ہے کن کے ساتھ کام نہیں کرنا کئی، لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ صرف دوستی رکھی جا سکتی ہے کام نہیں کیاجا سکتا کیو نکہ اپنے کا جواب دیا جا سکتا ہے ۔جس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا جاسکتا اس کے ساتھ تعلق مت رکھیں۔
6۔ مذہب کا درخت
زندگی میں یقین ہے، ایمان ہے ، روحانیت ہے ، روح زندہ ہے ، عباد ت ہے،اس درخت کو بھی اہم سمجھنا چاہیے ۔حضور اکرم ﷺ نے جن تمام انداز کے ساتھ نماز ادا کی وہ سب سنت ہیں اب جو بھی جس انداز میں پڑھ رہا ہےاگر اس کی نیت یہ ہے کہ یہ میرے رسول کریم ﷺ کی سنت ہےتو ثواب ہے۔ وہ تمام نیکیوں کے کام جو آپ کو سکون دیتےہیں ان کو ضرور کریں کیو نکہ آپ کی عبادت ، روحانیت اور دین ان سے جڑا ہوا ہے ۔
7۔ ذات کا درخت
اپنی ذات کو بھی سکون چاہیے اس درخت کو بھی اہم سمجھنا چاہیے ۔ تنہائی کو انجوائے کرنا سیکھیں، اپنی پسند کی کتابیں خریدیں ، اپنے بے لوث دوست کے ساتھ وقت گزاریں، صبح کے وقت گیلے گھاس پر چل سکون حاصل کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کااحساس ہو ۔ ہم نے سب سے زیادہ اپنی ذات کے ساتھ وقت گزارنا ہوتا ہے اگر ہم اپنے اچھے دوست نہیں ہیں ، اپنی ذات کے ساتھ اچھا تعلق نہیں ہے تو پھر یہ درخت ٹھنڈی چھاؤں نہیں دے گا اور نہ ہی میٹھاپھل دے گا ۔
آج سے ان درختوں کے بیج لگائیے کچھ دنوں بعد آپ کو محسو س ہوگا کہ پودابننا شروع ہوگیا ہے۔…
ہیں لوگ وھی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
علامہ اقبال
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.