تہذیب آیا لیکن تہذیب نہیں آئی

تہذیب آیا لیکن تہذیب نہیں آئی

حکومت آزاد کشمیر کے ادارے  کشمیر اکیڈمی کے ادبی مجلے “ تہذیب “ کے بارے میں  بے باک تبصرہ 

تبصرہ نگار بشیر مراد 

 کوئی بھی نام ہو بہت سوچ سمجھ کے رکھنا چاہےاگر بنا سوچےرکھ  ہی لیا جائے تو پھر لاج  بھی رکھنی چاہے فرض کیجیے کے کسی لاغربندے کانام رستم خان ہے تو اس پر سہراب خان نامی بندے کو ڈھونڈڈھانڈ کر پچھاڑنا فرض ہو جاتاہے۔

یہ الگ بات کہ فی زمانہ فرض ادا نہ کرنا بھی ہر  عاقل و بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ بات خواہ  مخواہ دھینگا مشتی کی جانب چل پڑی ہے پس ہم پر بھی فرض ہےکہ آمدم بر سر مطلب کا چلن اختیار کریں۔

ابھی آج ہی کلچرل اکیڈیمی کا رسالہ “تہذیب “بصورت ہدیہ شریف بذریعہ ڈاک شریف موصول ہوا۔پڑھ کر دکھ ہوا کہ ایک کلچرل ادارے کوابھی تک تہذیب  شریف نہیں آئی ۔

یوں تو تہذیب نامی یہ عمر رسیدہ جریدہ برس ہا برس سے  اسی بد تہذیبی اور بے ترتیبی  سے شائع ہونے کی سعادت حاصل کر رہاہے لیکن اس شمارے سے ہم  خواہ مخواہ تہذیبی وترتیبی حسن کے توقع باندھےبیٹھے تھے کہ پچھلے ایک برس سے اکیڈیمی کے ارباب اختیار بے اختیار چخ پکاررہے تھے۔

کہ وہ اقلیم سخن کے آخری  مغل شہزادے اور ہمارے یار طرحدار افتخار پر ایک خاص نمبر نکالنے کے سزاوار ہورہے ہیں۔ اسقدر تشہیر اور حددرجہ تاخیر کے بعد امید تھی کہ ہمارے یار جیسا کوئی  شاندار اورجاندار بلکہ خونخوار قسم کا رسالہ ہوگا۔

لیکن دیکھا تواک قطرہ خوں بھی نہ نکلا۔ وہی بے تر تیبی جو انسانی تہذیب کی ضد اور رسالہ تہذیب کا خاصہ رہا ہے ۔قلمکاروں کے حفظ مراتب کا تو ذکر ہی کیا یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کون سے مضموں کے سوتے کہاں سے برآمد ہوتے ہیں۔

اور کہاں پہ دریا برد ہوجاتے ہیں ۔بہت سے مضامیں پڑھنےسے تعلق رکھتے ہیں لیکن جس ڈھب سے سمیٹ اور لپیٹ کےشائع کیے گیے اس سے  بچاروں کاسارا حسن بکھر کر رہ گیا۔

کچھا کھچ مضامیں کی ایسی کھچڑی پکائی گئی کہ نہ کھانے کی اور نہ کھلانےکی۔  ستم بالا ئے  ستم  یہ  کہ کسی ستم ظریف نے اصلاح کے زعم میں اسقدر فحش غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے کہ اکیڈیمی کی علم شناسی کا سارا پردا فاش ہوگیا۔

ہمارے مضموں میں جہاں ہم نے “ناراضی” لکھا تھا وہاں انھوں  نےناراض ہو کر” ناراضگی” لکھ مارا اور یہ بھی نہ سوچا کہ ناراضگی لغوی اعتبار  سے لغو اور اتنا ہی  غلط ہے جتنا وہ برخود غلط قسم کےہیں۔

ایک اور جگہ  لفظ “نذر”کو نظر سے بدل دیا اور یہ بھی  نظر نہ آیاکہ اس قبیع حرکت سے جملے کا مفہوم ہی تبدیلی کی نذر ہوگیاہے۔ اور دیکھیے ۔۔حظ کو خط سے اور چکار کو خکار سے  بدل ڈالا۔۔

وہ تو خیر ہوئی کہ شہنشاہ چکار افتخار مغل زندہ نہیں ورنہ اس کے وطن  عزیزچکار کو بروزن خرکار باندھنے والے کو بے  عزتی کا وہ حظ اٹھانا پڑتا کہ قیامت تک قلم اٹھانے کی بھی ہمت نہ ہوتی۔

ہمیں اس ادارے کی لیاقت پہ شروع دن سےناز تھا چنا نچہ اس خدشےکے پیش نظر اپنا  مضموں مکمل کتابت اور کامل اصلاح کے بعد ای میل کیا تاکہ  نہ انھیں کمپوزنگ کی  زحمت ہو اور نہ مضموں قطع وبرید کی ہزیمت سے دو چار ہو ۔

 لیکن اس کےباوجودکوئی علا مہ اپنی کم علمی جھاڑنے اس غریب پر پل پڑے۔یہ  ستم  بھی  ملاحظ ہو کہ یہ فقط افتخار نمبر نہیں تھا اس میں ادب کے ایک اور بڑے بابے کو بھی جبرا” فٹ کرنے کی سعی کی گئی ۔

گویادریا کے بجائے دو سمندر ایک کوزے میں بند کرنے کی حرکت کی گئی۔ جس سےنہ صرف کوزہ پھاڑ ڈالابلکہ ہردو صاحبان کو عالم ارواح میں تکلیف پہنچانے کی سازش بھی کی گئی کہ دونوں کے درمیاں استاد شاگرد کے رشتے کے باوجودادبی چشمک کا تعلق بھی تاحیات قائم و دائم رہا۔

دوران مطالعہ ہماری جہد مسلسل کے باوجودیہ معرکہ بھی  سرنہ ہوا کہ قبلہ آفاقی پہ مضامیں کا سلسلہ  کہاں تھمتا ہے اور مغل شہنشاہ کی سلطنت کہاں سے شروع ہوتی ہے ۔کوئی تو حد بندی ہوتی  لیکن  ظلم  کی حد کردی ۔شاعری کا حصہ نثر میں یوں پیوست کیا کہ بے ہنری کے داددیے بغیر چارا نہیں رہا۔ تہذیب کی اس بد تہذیبی  پر ہمارے    مغل شہزادے پر عالم برزخ میں کیا بیتی ہوگی خدا معلوم کہ مرحوم سخت  زود رنج واقع ہوئےتھے ۔

تاہم صابر آفاقی  فراخ دل انسان تھے شائد وہ اس بے ادبی کو برداشت کر لیں لیکن زندگی کےآخری دنوں میں وہ بھی  زود رنج ہوگیے تھے  ۔جس زمانے میں ہم ایک نجی ٹی وی پر  بے ہنروں کے ڈائریکڑ ہونے کا الزام برداشت کررہے تھے صابرافاقی صاحب نے ہمیں ایک خط لکھا کہ ۔” میں اصل  بابا گوجری ہوں جبکہ میرپور سے ایک صاحب اس عہدے کے دعویدار ہیں ۔۔وغیرہ وغیرہ “۔

ہمیں  حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے ادیب اور شاعر کو یہ کیا سو جھی؟ ۔۔سو ہم نے جواب نہیں دیا۔۔ کچھ عرصے بعدخود تشریف لائے  تب تک وہ ٹیلی ویژن اللہ کے کرم ، مالکان کے باہمی تعاون اور کارکنان کے ہنر مندی  کے باعث بند ہو چکا تھا۔

اور ہم ریڈیو کے پروڈیوسری سے لپٹے ریڈیو کے بند ہونے کا انتظار کھینچ رہے تھے۔ آفاقی صاحب بابا گوجری کے موضوع پر مناظرے کے لیے بضد تھے ۔ہم نے عرض کی کہ اگر اپ خود پر اس طرح کا مقامی لیبل  چسپاں کرلیں گے تو آفاقیت خطرے میں پڑ جاے گی اور پھر ریڈیو کی تنگ دامنی اس قسم کے ملاکھڑے کا بو جھ بھی سہار نہیں پائے گی ۔۔

وہ مان گیے پس اس شرط پر انٹرویو ریکارڈ ہوا کہ بابا گوجری کا زکر نہیں ہوگا۔۔۔وہ سمجھدار انسان تھے مقامیت اور افاقیت کافرق جان گیے۔لیکن اس کا کیا کیجیےکہ کلچرل اکیڈیمی کے کار پردازوں کو آج تک تہذیب وثقافت کی تفہیم نہیں ہوپائی۔

ان کو چھوڑیےاہل فہم بھی کلچر اور تہذیب کو ایک ہی جانتے ہیں ۔حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے ۔کلچر کے لیے اردو کا موزوں لفظ ثقافت ہے جو تہذیب کی ابتدائی صورت ہے جبکہ تہذیب کےلیے موزوں ترین انگریزی لفظ Civilization بنتا ہے ۔جو کلچر کی ترقی یافتہ ہیت ہے۔کلچر تو  پری ہسٹری  یعنی پتھر کے دور میں بھی موجود تھا لیکن تہذیب کو ہم mesopotamia  and egyptian  civilization سے پہلے مربوط شکل میں کہیں نہیں پاتے۔

کہنے ک بات یہ ہے کہ اس اکیڈیمی کو ابھی کلچر کی سمجھ نہیں  آئی تہذیب تو بہت دور کی بات ہے۔  ثقافت کس طرح تہذیب میں ڈھلتی ہے یہ ایک طوالت آمیز علمی بحث ہےجو ارباب ا کیذیمی کےلیے کلام نرم نازک بےاثر کے مترادف  ہےکہ ان بچاروں کو ادب و تقافت کے فروغ کے لیے نہیں بلکہ سیاسی ثنا خوانی کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے۔

پس وہ ہر شے کو تہذیبی اور ادبی بصیرت کے بجائے سیاسی بصارت سے تاڑتے ہیں جس کا کینوس بہت محدود ہے۔یہ اس ادارے کا وہ روگ ہے جس پر جتنا سوگ کیا جائے کم ہے۔

رنج تو یہ ہے اس ادارے کی تشکیل میں ہم سمیت کئی اور  بے گناہ احباب کے گناہ بھی شامل ہیں  ۔ایک طویل مدت تک مظفراباد کی ادبی تنظیموں نے اس کے قیام  کی  جہدوجہد کی لیکن جب اس پودے نے نمو پائی تو اس پر علم وادب کے پھول کھلنے کے بجائے سیاسی ببول اگنے لگے ۔ غلام احمد پنڈت پہلے اور آخر ی سربراہ تھے جو میرٹ پر مقرر ہوئے وہ بلند پایہ علمی شخصیت اور اس منصب کے لیے موزوں ترین شخص تھے لیکن سیاسی مداخلت نےانہیں ٹکنے نہ دیا۔ان کی بڑی خواہش تھی کہ بندہ خطا کار ان کے ساتھ بحثیت اسسٹنٹ ڈائریکڑ ملازمت میں جت جائے لیکن ادھر ہم تھے کہ ازل سے لا پرواہ ، بے مہار اور ناہنجار  نوکری کا دماغ کہاں؟

۔۔۔ہمارے دوست اشتیاق اتش از راہ محبت وزیر اعظم سے ہمارے حق میں حکم تقرری لے آئے۔  اس زمانے میں ملک عبدالرشید سیکریڑی تھے ۔۔ انہوں نے بہت ہی حسیں اور دلچسپ بہانہ بناکر ہمیں نوکری کے شکنجے سے بچا لیا۔ ملک صاحب کافرمان تھا کہ  “تم ایم۔ اے پاس ہو جبکہ اس آسامی کے لیے بی ۔اے پاس ہوناضروری ہے”۔۔ اس پہ  ہمیں بے اختیار ہنسی آئی گویا ہماری اضافی اہلیت ہی ہماری نااہلیت قرار پائی ۔ہم نوکری نہ ملنے پرشادیانیے بجاتے باہر آئے تو  دائیں جانب سے برآمد ہوتاایک اہلکار ہمارے بائیں کان  میں خفیہ سر گوشی سے ایک راز کی بات پھونک کے گزرگیا اس کے بقول ملک صاحب اپنے سے زیادہ پڑھے لکھے بندے کو اپنے محکمے میں رکھنا پسند نہیں کرتے۔ پس بعد میں اس آسامی پر ایف۔ اے پاس بندہ موزوں ترین قرار دیا گیا۔اس طرح ملک جی کےفہم و فراست کی وجہ سے اس ادارے کا حصہ بننے سے بال بال بچ گئے وگرنہ آج ہم بھی علامہ بنے اپنے بجائے دوسروں کی اصلاح کے لیے قلم بگوش ہوئے پھرتے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.