تین خدا
تین خدا

تین خدا ؟ تحریر، مائدہ شفیق

تحریر: مائدہ شفیق

خُدا کی پناہ ہے ۔ یہ کون شرک کر رہا ہے؟  یہ کیسے الفاظ ہیں؟ بھلا کوئی انسان تین چیزوں کو اپنا خُدا کیسے مان سکتا ہے۔ ہم تو بہت تعلیم یافتہ بلکہ اعلی ٰتعلیم یافتہ ہیں۔ ہم ایسے کیسا کر سکتے ہیں۔

’’ہمارا معبود تو ایک ہے۔‘‘معبود توسوچ و فکر کا محور و مرکز ہوتا ہے -محبوب ہوتا ہے، پیارا ہوتا ہے، مطلوب ہوتا ہے۔

اُس کی طلب ہوتی ہے۔ اُس کی خواہش ہوتی ہے۔ مقصود ہوتا ہے،  (وہ مقصدحیات ہوتا ہے)۔ کیا ہمارا  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ  کا اِلہ معبود ہماری زندگیوں میں یہی کردار ادا کرتا ہے؟؟؟

کیا ہم باقی تمام خواہشات اور ترجیحات کو “لا” کرچکے ہیں۔ کیا ہم اپنی ذات کی نفی کر چکے ہیں۔ جو چیزیں ہماری محبت اورہمارا مقصد ہوتی ہیں۔ وہی ہمار نظریہ، فوکس اور مرکز ہوتی ہیں۔ اُنہیں کے گرد ہماری زندگیاں گھومتی اور ڈولتی ہیں۔

ہمار ا مقصد کیا ہے ؟

ذرا سوچئے ہم نے کس چیزکو فوکس کیا ہے۔ ہمارا مقصد کیا ہے؟ ہمیں محبوب کیا ہے؟ ہمارامطلوب کیا ہے۔مٹی سے بنا جسم جو صرف قناعت و صبر سے ضروریات کو پورا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اُس کو زرق برق لباس مہیا کرنے شاندارجوتے مہیا کرنے، عالیشان اور آرام دہ گھروں کا حصول کا ایک عجیب سانشہ لے کر ہم پوجتے رہے ۔

تین چیزوں کو اور اُن کو مقصد حیات بنا لیا۔دولت، عزت، شہرت جسے ہم نے Status and Standardکا خوب صورت نام دے معاشرے کا حصہ بنا لیا۔

 جناب جو مقصدِ حیات ہوتا ہے،  وہی تو خداہوتا ہے ۔ ہم نے علم حاصل کیا۔دولت کے لئے، شہرت کے لئے۔  مان لیجئے۔پیسہ ضرورت ہے زندگی نہیں ہے، معبود، وہ خالق، وہ خدا جوٹیکنالوجی کو اِس اتنے عروج پر لا چکا ہے کہ آپ سات سمندر پار سے پَل پَل کی خبریں یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

 جو آوازوں اور تصویروں کو ریکارڈ کرکے لہروں کے ذریعے آپ تک پہنچا رہا ہے۔ جس نے دنیا کو ایک کلک پرکر دیا ہے۔ہر چیز اس کی تخلیق ہے۔ساری کائنات اُس کی تخلیق ہے۔سب سے بڑی تخلیق انسانی دماغ جو اُس کی کائنات کو تسخیر کر رہا ہے۔

مصور کے رنگ ہوں۔۔۔۔ یا شاعروں کے تخیل۔۔۔۔ تتلیوں کےرنگ ہوں۔۔۔۔۔ گلوں کی خوشبُو۔۔۔۔آسمان میں گھومتےسیٹلائٹس۔۔۔۔یا آکسیجن سے بھری فضاء۔۔۔۔زمین کے اندریورینیم کی دھات ہوایٹمی ملک بننے کو۔۔۔۔ یا نیٹ کا کنکشن آپ کے ہاتھ میں۔۔۔۔یہ سب اُس کی تخلیق ہے۔

 ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ تخلیق خالق سے ملاتی۔۔۔ جوڑتی۔۔۔۔۔ قریب لاتی۔۔۔۔قرب ملتا۔  مگر افسوس!!! مخلوق سے خالق گُم ہو کر رہ گیا۔ ہم سے۔۔۔۔۔۔ہم سے۔۔۔۔۔۔ہم سے ہمارا خالق اپنی ہی تخلیق میں گم ہو گیا۔

ہم سے ہمارا معبود کھوگیا

ہم سے ہمارا معبود کھوگیا۔ کیوں گُم ہوا؟ اس لئے ہمارے پاس آنکھیں تھیں بصیرت نہیں۔۔۔۔۔ دماغ تھا فکر نہیں۔۔۔۔ دل تھا احساس نہیں۔۔۔۔۔ڈھوند لیجئے۔وہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، بہت قریب۔ قریب تر۔خالق کا حق ہے مخلوق پر ہے۔

خالق کو اُس کا حق دیجئے۔اُس نے بھی آپ کو بہت کچھ دیا ہے۔ سانسیں اور زندگی کا سامان ۔ محبت کا حق دیجئےوہ مستحقِ محبت ہے۔عبادت کا حق دیجئے۔ وہ مستحق عبادت ہے۔

وہ خالق ہے۔ ایک ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔ وہ آپ کو بھٹکنےنہیں دے گا جیسے آپ کی ماں ایسا نہیں کر سکتی۔وہ راہ دکھائے گا اگر کوئی چاہے۔جناب ہم کب تک ایمان کا حیرت انگیز لبادہ اوڑھیں گے۔یہ کیساایمان ہے؟؟؟

اور اللہ پاک سے ہمارے رشتے اور تعلق کی نوعیت کیاہے؟ جو عمل کا تقاضا نہ کرے۔ہم بتوں کو نہیں پوجتے۔ ہم جاہل نہیں ہم ماڈرن ہیں ہم جدید پُجاری ہیں ہمارا شرک بھی جدیدہے۔

ہم دنیا میں بسنے والے تین خداؤں کی پوجا کرتے ہیں : عزت، دولت اور شہرت

مان لیجئےہم دنیا میں بسنے والے تین خداؤں کی پوجا کرتےعزت، دولت اور شہرت۔  اگرآپ یہ نہیں مانتے۔ تو خُدا کی مان لیجئے حساب کے دن کو یاد رکھئے۔

’’جب اہلِ سفا، مردودِ حرم مسند  پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے

نام رہے گا اللہ کا  جو ظاہر بھی ہے باطن بھی

اور راج کرے گی خلقِ خدا جو ہم بھی ہیں اور تم بھی ہو

وہی خلق جو اُس کی غلامی کرے گی، وہی راج کرے گی۔ حقیقی معنوں میں ہم اللہ پاک کو اپنا “الہ” تبھی مانیں گے جب ہم اپنی ہرنفسانی خواہش کی نفی کریں ۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.