تبصر ہ نگار: تہذین طاہر
بچوں کے ادب کی بات کی جائے تو تسنیم جعفری کانام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔آپ کی”میرے وطن کی یہ بیٹیاں“، ”چھوٹو میاں“،”پریوں کی الف لیلیٰ“،”روبوٹ بوبی“ ،”تھانگ شہزادی کی کہانی“،” مخلص دوست “جیسی لازوال کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ حال ہی میں تسنیم جعفری کو کتاب ”زندگی خوبصورت ہے“ پر یو بی ایل لٹریری ایوارڈ ملا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کو کئی کتابوں پر ایوارڈ مل چکے ہیں۔
سائنس کے مضامین ادب کا ذوق رکھنے والوں کے لیے زیادہ دلکشی کا باعث نہیں ہوتے۔ اور اگر بچوں کی بات کی جائے تو بہت سے بچے سائنسی ادب سے اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں۔اس سب کے باوجود تسنیم جعفری وہ پہلی خاتون رائٹر ہیں جنہوں نے سائنس فکشن پر لکھا ۔مصنفہ نے اپنی کہانیوں اور ناولزکو ایسے انداز میںتخلیق کیا کہ بچوں کو سائنسی معلومات میں دلکشی ودلچسپی کا سامان مہیا کر دیا۔سائنس فکشن پرمصنفہ نے اب تک جو ناولز لکھے ان میں ”مریخ کے مسافر“، ”مریخ سے ایک پیغام“، ”پوزی اور الیکٹرا“ اور حال ہی میں پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع ہونے والی آپ کی کتاب”سائنسی جنگل کہانی“ قابل ذکر ہیں۔ماحولیات سے آپ کی وابستگی کی بات کی جائے تو آپ کا لگاؤ یہاں بھی قابل دید ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے آپ کی دو کتابیں ”ماحول سے دوستی کیجئے“، اور”پیوستہ رہ شجر سے“ اپنی مثال آپ ہیں۔لوگوں کی بے رنگ زندگی کو رنگوں سے بھرنے کے لیے آپ نے اپنی سی کوشش کی اور کتاب”زندگی خوبصورت ہے“ لکھ کر لوگوں کو دنیا کی رنگینیوں سے واقف کروایاجس پر یہ کتاب 2021ءکے یو بی ایل لٹریری ایوارڈ کی حق دار ٹھہری۔
زیر نظر کتاب”زمین اداس ہے“ ماحولیاتی آلودگی پر لکھی جانے والی آپ کی ایک اور بہترین کاوش ہے۔اس کتاب میں نہ صرف تسنیم جعفری بلکہ قدرت اور ماحولیات سے محبت رکھنے والے بہت سے مصنفین کی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ ماحولیات کے تحفظ پر نئی نسل کو دلچسپ پیرائے میں کہانیاں پیش کی گئی ہیں۔ یہ کتاب بچوں کے علاوہ بڑوں کے لیے دلچسپیاں لئے ہوئے ہے۔”زمین اداس ہے“ اس عنوان سے کہانی بھی کتاب کی زینت ہے۔کہانی کی کچھ لائنیں ملاحظہ کیجئے:” بیو اور جینو ننھی منی سنہری مچھلیاں تھیں، جس کا مسکن پہاڑوں کے دامن میں موجود ٹھنڈا نیلا چشمہ تھا۔ کہنے کو تو یہ ایک چشمہ تھا مگر درحقیقت اس کے ٹھنڈے میٹھے پانی نے اس علاقے کو جنت کا ٹکڑا بنا رکھا تھا۔ اردگرد کے درخت اور سبزہ و ہریالی اسی کے پانی پہ نشوونما پاتے۔ رنگ برنگے پھولوں پہ منڈلاتی تتلیاں، درختوں پہ رسیلے پھل، اس چشمے کی قدرو قیمت بتاتے تھے“۔
لیکن پھر وقت کی کایا پلٹی اور وہ چشمہ پانی کی کمی کا شکار ہو گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ جنت کا ٹکڑا تو کیا زمین کا گوشہ بھی نہیں لگ رہا تھا۔ کیونکہ وہاں زمین اداس تھی۔ اسی لیے تو مجتبیٰ بیگ لکھتے ہیں”دھرتی ماں کے دکھ بانٹتی ان ماحولیاتی کہانیوں کو پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ کارہائے زیست سر انجام دیتے ہوئے جانے انجانے میںسب سے اعلیٰ و ارفع مخلوق یعنی انسانوں سے نہ جانے کیا کیا کچھ ہو جاتا ہے جس کا انہیں یا تو احساس ہی نہیں ہوتا یا اس وقت احساس ہوتا ہے جب زمین پر اس عمل کے منفی اثرات سامنے آنے لگتے ہیں“۔
زیر نظر کتاب میں بیو اور جینو کی طرح دیگر کہانیوں میں بھی ایسے ہی کردار ہیں۔ کہیں کچھوا بزرگ کا کردار ادا کر رہا ہے، شیر تو جنگل کا بادشاہ ہوتا ہی ہے۔ بلیاں بول رہی ہیں۔ گدھا دانش کی باتیں کر رہا ہے۔ لومڑی تمیز سکھاتی نظر آتی ہے۔
یہ کتاب واقعی بچوں اور بڑوں کے لیے دھرتی ماں کے دکھ بانٹتی کہانیوں پر مشتمل ہے۔کتاب میں شامل تمام تحریریں قابلِ تحسین ہیں۔ تمام کہانیوں کا موضوع”جنگل کا ماحول ، اس پر آلودگی کے اثرات اور ان سے بچاؤ کی تدابیر“ ہے۔ بچوں کے دلچسپی کے لیے کتاب میں تصاویر شامل کی گئی ہیں جو کتاب کی خوبصورتی میں اضافہ کا سبب ہیں۔ کتاب کا سرورق سید ابرار گردیزی نے جس مہارت سے ڈیزائن کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ کتاب کا انتساب دھرتی ماں سے محبت کرنے والوں کے نام کیا گیا ہے۔ کتاب کی معمولی سے قیمت 400/-روپے ہے۔”زمین اداس ہے“ کتاب پریس فار پیس فاؤنڈیشن برطانیہ کی جانب سے شائع کی گئی۔کتاب حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
www.pressforpeace.org.uk
info@pressforpeace.org.uk


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content