تاثرات: عنیزہ عزیر

کتاب “اسیرِ ماضی”ہاتھوں میں تھامے اور نظریں ٹائٹل پر جمائے، میں خود بھی ماضی کے سفر میں پہنچ گئی ہوں۔ جب خلوص لہجوں سے چھلکتا تھا اور ہر تعلق میں عزت کو ترجیح دی جاتی تھی۔ بہت سی چیزوں کے ساتھ یہ بھی ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ ماضی کی منظر کشی کرتی کتاب کا ٹائٹل بلاشبہ بہت خوبصورت ہے۔

“اسیرِ ماضی” کے مصنف جناب حافظ ذیشان یاسین صاحب، جہانیاں (پنجاب) کی ایک معتبر شخصیت ہیں۔ دینی اور دنیوی تعلیم سے آراستہ جناب حافظ یاسین صاحب کی تخلیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ، ماحول میں ہونے والا تغیر ان کی طبیعت پر ناگوار گزرتا ہے۔

وہ اب بھی خالص غذاؤں، قدرتی مشروبات اور پُر فضا ماحول کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن ان کے لکھے گئے افسانے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنا درد مند دل رکھتے ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اپنے  ارد گرد کے ماحول وہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کی کمی کو بھی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔

کتاب اسیرِ ماضی کا انتساب پڑھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ صاحبِ کتاب نے اپنے دل کا درد الفاظ کی صورتصفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔

” اسیرِ ماضی“ میں ماضی میں لوٹ جانے کی خواہش ہو،  “سرد شام” میں اداس فاختہ کی  سی روح کو مضطرب کر دینے والی خاموشی ہو یا پھر “خواب سرائے” میں نصف شب کے مخفی پیغام اور افسردہ حکایتوں کا ذکر ہو مصنف نے بہت گہرے مشاہدے سے سب کچھ رقم کیا ہے۔

مصنف کی گہری نگاہ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کڑھائی کے دوران، پوروں پر سوئی سے لگنے والے زخم اور جولاہوں کی بیچارگی کو بھی بہت دلسوزی سے بیان کیا ہے۔

”جنگل کاطلسم” میں سنسان اور ویران رستوں پر لومڑیوں اور غزالوں کے قدموں کے نشانات کے ذکر کے ساتھ ساتھ جنگل میں مخفی طلسم کاذکر ہو، “گرم دوپہر” کی بھید بھری اداسی اور تنہائی جو وہ چرواہوں اور جولاہوں  کے سپرد کر کے اپنے اندر بہت سی کہانیاں سمو کر رخصت ہوتی ہے، کا تذکرہ یا”شب گزیدہ خواہشیں” میں مرشد کی تلاش میں دریائے چناب تک کے پُر حزن و ملال سفر کا ذکر ہو اور  یا”چناب کے دُکھ”  میں چناب کی موجوں میں نہائے  چاند کے عکس سے لے کر گزشتہ زمانوں کے لشکروں کے پڑاؤ کے تذکرے کے ساتھ چناب کی المناک حکایتوں کا بیان ہو، مصنف نے ایک ایک لفظ اتنی دلسوزی سے لکھا ہے کہ قاری کو بھی اپنا وجود بھی غم کی شدت کے باعث نمک کی مانند گھلتا محسوس ہوتا ہے۔

قاری خود بھی”ادھوری داستان “ میں مصنف کے ساتھ زمانے کے بھید ڈھونڈتا، اپنے گزرے بچپن کو یاد کرتا، بہت سی بھید بھری ادھوری داستانوں کے مکمل ہونے کا گمان رکھتا ، اپنے آپ میں مگن تحریر پڑھتا جاتا ہے، لیکن یہ ادھوری داستان رُخ بدلنے لگتی ہے اور “شبِ نشاط” میں قاری خنک رات میں مرشد سے بیان کردہ دکھوں کے جواب میں مرشد کے غم کی پرچھائیاں لئے چہرے کے ساتھ خود بھی ملول ہو جاتا ہے، گرم دوپہر میں ماضی کے طلسم میں بھی کھو جاتا ہےاور پھر ماضی کے جھروکوں سے نکل کر احساس ہوتا ہے کہ وقت کتنی تیزی سے ہاتھ سے پھسل گیا ہے۔

”یہ دل گداز مرثیے“ میں بچپن میں سنی کہانیاں، بادشاہوں کے عقوبت خانے، قدیم کھنڈرات، آسیب زدہ حویلی، گھاٹ پر کپڑا دھوتی خواتین، گھوڑوں کی بگھی، سلائی کرتی خواتین اور عہدِ رفتہ کی قدیم حکایتوں کا ذکر کرنے کے بعد جب مصنف افسانے کا اختتام کرتا ہے تو وہ درد ناک حکایتیں مرثیے کا روپ دھار لیتی ہیں۔

”سلگتے سائے  “ میں جنگل کی تنہائی، درختوں کے کاٹنے کا دکھ، معصوم جانوروں کی اداسی اور پرندوں کے غم کا ذکر کرنے کے بعد “گم شدہ قافلے” میں صحرا کا سکوت، ریگستان کی تنہائی، پرندوں کی ہجرت کے ساتھ ماضی میں چاندنی راتوں میں سفید صحرائی ہرن کا کلانچیں بھرنا اور چکور کا گنگنانا بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔

”غبارِ دشت” میں اونٹوں کی شوخ آنکھوں سے بیان کردہ قصے ہوں یا پھر”سوزِدروں” میں نہر کے پانی پر کندہ طویل سفروں کی حکایتوں اور دریاؤں کی روایتوں کے پڑھنے کے ذکر کے ساتھ ساتھ فطرت کے بھید کے بارے میں جاننے کا تجسس ہو یا پھر چڑیا سے کیا گیا خوبصورت انداز میں مکالمہ، ہر ہر لفظ قاری پر گہرا نقش چھوڑتا ہے اور قاری خود بخود یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے طوطے، چڑیا اور بلبل اور ہدہد جیسے بے شمار جانور ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔

افسانوی مجموعہ”اسیرِ ماضی”قاری پر ایک گہری چھاپ چھوڑتا ہے اور قاری کو اپنے گرد و نواح میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے سوچنے کےلیے  بہت سے نئے در وا کرتا ہے۔

اسیرِ ماضی کے مصنف محترم ذیشان یاسین صاحب نے جتنی دلسوزی سے یہ افسانے تحریر کئے ہیں، اس سےان کے حساس دل ہونے کا بخوبی احساس ہوتا ہے اور وہ ان خوب صورت نثر پاروں کے ذریعے قارئین   میں فطرت  سے  محبت و انسیت کا  احساس اجاگر کرنے میں بہت حد تک کامیاب   نظر آتے ہیں۔

افسانے کے روایتی اسلوب  اور خاکے  سے ہٹ کر عمدہ لفاظی کے ساتھ لکھے گئے ان  نثر پاروں سے  بلاشبہ قاری کو بہت کچھ سیکھنے  اور عصر حاضر کے چند اہم امور کے بارے میں غور و خوض کا موقع ملتا ہے۔ ادارہ پریس فار پیس پبلیکیشنز  ایک خوب صورت کتاب کو شائع کرنے پر داد کا مستحق ہے۔ دعا ہے کہ ادارہ اور مصنف بہت  سی کامیابیاں سمیٹیں۔آمین ثم آمین

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact