تبصرہ نگار: شبانہ اسلم
فرح ناز فرح انتہائی شفیق اور محترم ہستی جن کی شخصیت کی بات کی جائے تو ایک بڑی بہن کے جیسا پیارا احساس جگنے لگتا ہے اگر نثر نگاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو سنجیدہ اور حساس موضوع کو مزاح کی چاشنی میں لپیٹ کر پیش کرنے والی بہترین نثر نگار مانی جاتیں لیکن شاعری میں تو فرح ناز صاحبہ کا جواب نہیں مجھے بہت لوگ کہتے کہ ہم شاعری کی کتاب بھیجیں لیکن میں تردّد سے کام لیتی ہوں کیونکہ آج کل ہر تیسرا بندہ یا بندی شہرت حاصل کرنے کی چاہ میں اندھا دھند ایک دوسرے کی تقلید کررہا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے شاعروں اور مصنفوں کی میرا تھن ریس ہورہی ہے اور ہر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کو بے تاب ہے۔
لیکن سچّے اور کھرے لوگ جو اپنے ہنر میں یکتا ہیں ایسی چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔کیونکہ ان کا کسی سے مقابلہ بنتا نہیں مقابلہ تو وہ کریں جن کے پائے کا کوئی ہو اور قابل لوگ تو اعلی پائےکے ہوا کرتے ہیں۔وہ ان چیزوں سے بالاتر ہوکر سوچتے ہیں۔
دنیا کو پیچھے لگانے کی بجائے دنیا ان کے پیچھے ان کے ہنر کی خوشبو کو سونگھتی ہوئی پہنچ جاتی ہے۔شہرت کے لیے سستے اور نیچ ہتھکنڈے اپنانے کی بجائے تحمل سے اپنے وقت کا انتظار کرنے والا ہی سکندر ہوتا ہے اور بلاشبہ فرح ناز صاحبہ میں یہ خوبی بدررجہ اتم موجود ہے
عشقم کتاب ہاتھ میں آئی تو دیکھ کر دلی مسرت ہوئی سرورق سے ہی اندازہ ہوگیا کہ کتاب کی کوالٹی کس قدر شاندار ہے اور پھر جب شاعری کھول کر پڑھی تو دل بے ساختہ داد دینے کو ہمکنے لگا۔ کچھ نظمیں پڑھ کر تو دل عش عش کر اٹھا ایسی پختگی ایسا رچاؤکہ ایک کے بعد ایک غزل پڑھتی گئی اور طبیعت تھی کہ سیر ہونے میں نہ آرہی تھی۔لفظوں کا چناؤ دلفریب تو اوزان کی خوبیوں پر پورا اترتے اشعار دل کو لبھاتے گئے ۔
میں شاعرہ تو نہیں لیکن اچھی بری شاعری میں فرق کرنا تو جان ہی گئی ہوں اور فرح کی شاعری کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بندی نے کمال شاعری کی کے پڑھنے کا لطف الگ گنگنا کر سر دھننے کا لطف الگ آیا۔۔۔
ہائے کس کس غزل کی تعریف کروں اور کس کی نہ کروں فیصلہ کرنا گرچہ تھوڑا دشوار ہے لیکن پھر بھی کچھ منتخب شاعری آپ کی بصارتوں کی نذر بھی کرتی ہوں آپ سب کو بخوبی اندازہ ہوجاٸے گا کہ فرح ناز کی شاعری میں جو جادو ہے وہ ایک نثر نگار پر کیسے سر چڑھ کر بولتا ہے۔
میرا تو کم ازکم یہی حال ہے۔اور دل سے ان کی شاعرانہ صلاحيتوں کی معترّف ہوکر رہ گئی ہوں۔
بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ میں عشقم کے عشق میں عشقم عشقم ہوگئی۔
سب سے پہلے تو دعا سے آغاز کیا گیا ہے۔
جس میں ذکر اللہ شان جل جلالہ کے ساتھ محمد ﷺ کے امتی ہونے کا اقرار خوبصورت لفظوں میں کیا گیا ہے۔
زندگی بن جاٸے میری روشنی پروردگار
بندگی میں ہی بسر ہو زندگی پروردگار
ہے یقیں امت محمد ﷺ کی ہے، بخشے جاٸیں گے
اب تو بس امید میری ہے یہی پروردگار
اور یہ کس قدر خوب لکھا۔
جنونِ عشق کی گہرائیوں سے ڈرتی ہوں
کتابِ عشق کی سچاٸیوں سے ڈرتی ہوں
نہیں میں ڈرتی کبھی حق بیان کرنے سے
پر اس کے بعد کی تنہائیوں سے ڈرتی ہوں
ان کی یہ غزل کے اشعار بہت پسند آئے مجھے۔۔۔
ہوائیں گنگناتی ہیں، نظارے رقص کرتے ہیں
کنواری شب کے آنچل پر، ستارے رقص کرتے ہیں
حیا کا ڈال کر آنچل کبھی جو مسکراتی ہو
خوشی کے رنگ چہرے پر، ہمارے رقص کرتے ہیں
ان کی شاعری میں پختگی کا ذرا اندازہ لگائیے ۔۔۔
محبت خواب کی صورت، سرہانے چھوڑ جائیں گے
ترے جینے کو جاناں، کچھ بہانے چھوڑ جائیں گے
یہاں کلیاں مسل ڈالیں، وہاں گل جلا ڈالے
یہ ظالم نوچ کر گلشن ، ویرانے چھوڑ جائیں گے
یہ غزل ملاحظہ ہو
بے ساختہ ہماری زباں سے نکل گیا
گویا کہ تیر کماں سے نکل گیا
وہ دوستی کے رشتے بنانے چلا ہے پر
جو ساتھ ہے وہ وہم و گماں سے نکل گیا
اب عشق میرا میرے خدا سے ہے جا ملا
اب معاملہ سودوزیاں سے نکل گیا
خوش تھا امیر شہر اسے زنداں میں ڈال کر
وہ خوش نصیب قیدِ زماں سے نکل گیا۔
اس غزل کے شعر کو پڑھیے
مجھ کو فراقِ یار نے بنجارہ کردیا
باذوق تھا میں انساں، آوارہ کردیا
فرح ناز صاحبہ نے کچھ آزاد نظموں کو بھی اپنی کتاب کی زینت بنایا ہے اور محبت جیسے لطیف موضوع سے لیکر ہر وہ معاشرتی موضوع جو انسان کی روح سے جڑا ہے اس پر طبع آزماٸی کی ہے اور کامیابی بھی حاصل کی ہے۔
عشقم کی تمام غزل و نظم کو میں یہاں تو قلمبند نہیں کرسکتی تاہم اگر آپ ایک اچھی اور موزوں شاعری کی کتاب پڑھنے سے محروم نہیں رہنا چاہتے تو آپ اس کتاب کو خریدیے اور پھر فرح ناز کی نظر سے عشق کی شاعری کے سمندر میں ڈوب کر دیکھیے امید ہے مایوسی نہیں ہوگی۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.