تحریر: مشرف جبین (پشاور)

نصرت نسیم کی زندگی کے شب و روز پر مشتمل خودنوشت ”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“ ماضی کے ایک مخصوص دور کی رخشندہ روایات اور سماجی خوبیوں کی عکاسی کرتی ہے،     تا ہم اس خود نوشت میں زیادہ تر اچھے دنوں کی وہی قابل رشک رسم و رواج پر مشتمل روایتی زندگی کی باتیں ہیں جو ہمارے معاشرے کا خاصہ اور پہچان تھیں۔ تقسیم ہند کے بعد نئے ملک پاکستان کی سیاسی، معا شی اور معاشرتی زندگی کے خد و خال پشاور اور کوہاٹ نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عمومی عکس ہیں۔

اس خود نو شت پر تبصرے خوب کیے گئے ہیں۔ بڑے کھلے دل اور رواں قلم سے اس کے حسن و خوبی پر اظہاریے موجود ہیں۔ بلا شبہ ہر بندے کی اپنی شخصیت، اپنا خاندان، خاندانی روایات اور ماحول ہو تا ہے اور یہ اسی فرد کا ورثہ ہیں۔ مگر خارجی دنیا اور اس ماحول میں گزرنے والی زندگی کے روز و شب، معاشرہ اور روایات ہم سب کا سا نجھا ورثہ ہیں۔ نصرت نسیم کی زندگی کے ”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“ بظاہر اس کے ہی سہی مگر اس دور میں زندگی جینے اور جیئے جانے والوں کے کچھ دن کیا کہ ہر ایک دن انہی سیا سی، تاریخی، معا شی اور معاشرتی دھوپ چھاؤں میں گزرا۔

نصرت نے مجھ سے موبائل فون پر فرنٹیئر کالج کی اردو لیکچرر فہمیدہ رؤف سے اپنے تعلق کا ذکر بڑے مان سے کیا کہ میں ان کی فیورٹ سٹوڈنٹ تھی۔ یوں نصرت میں دلچسپی بڑھی۔ میں بذات خود مس فہمیدہ رؤف کی بہت فیورٹ سٹوڈنٹ اور کو لیگ رہی تھی۔ انہیں ہر نئے سیشن میں تحریر و تقریر میں صلاحیت رکھنے والی طالبات کی تلاش رہتی۔ قابلیت کے ساتھ ہی انہیں شوخ اور تیز و طرار طالبات بھی اچھی لگتیں۔ حسن پر ست بھی تھیں۔ خوبصورت آنکھیں ان کی کمزوری تھی۔ نصرت کی خود نو شت میں بچپن سے نو جوانی تک مسکین صورت، دھیمی مسکرا ہٹ، سہمی سہمی لڑکی کا عکس نظر آتا ہے۔

نصرت نسیم کے خوابوں کی کہکشاں بعنوان ”کہکشاں ہے یہ مرے خوابوں کی“ کا مطالعہ کیا تو خوابوں کی اس کہکشاں نے صاف بتا دیا کی نصرت کی عمدہ تحریر اور الفاظ و بیاں کے      منا سب استعمال کے علاوہ اس کی مطالعے پر توجہ اور تاثرات کے اظہار نے فہمیدہ کی فیورٹ طالبہ اور مجلس اردو کی صدر بنایا تھا۔

خود نوشتیں عوام کی ہوں یا خواص کی، پڑھنا اچھا لگتا ہے۔ آپ بیتی ہو کہ جگ بیتی، تجسس رہتا ہے کچھ نئے کا کسی انوکھے اور کسی انہونی کا ۔ عمومی باتیں بھی لطف دیتی ہیں۔ اس میں عمل کی تر غیب، جد و جہد، کشمکش، کا میا بی ناکامی اور ہجر و وصال کے سارے رنگ بکھرے ہوتے ہیں۔ کتاب کا مطالعہ کرنے سے پہلے میں تبصرے ہر گز نہیں پڑھتی۔ کتاب کے سرسری دو چار صفحے دیکھ کر نفس مضمون کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ لکھاری کی سوچ کا پتہ چل جاتا ہے۔ کتاب کوئی بھی ہو۔ بڑے قلمکار کی کہ نئے لکھا ری کی، کوئی بھی تخلیق معمولی نہیں ہوتی۔ یہ اپنے خالق کے جذبے و شوق کی علا مت ہوتی ہے پسند یا نا پسند قاری کی صوابدید پر ہے۔

”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“ صرف نصرت کے نہیں، یہ ایک ورثہ جو نجانے کہاں سے چلا آ رہا ہے۔ اگر ان بیتے دنوں کی یا دوں کو 1947 ء یعنی قیام پاکستان سے شروع کریں تو یہ وہ زمانہ ہے کہ میں زیادہ نہ کم ہی سہی شناسا ہوں۔ اس دور اور اس سے آنے والے دنوں سے مراد اور نصرت کا رشتہ جڑا ہوا ہے۔ کو ہاٹ ہو پشاور کہ پاکستان کا کوئی اور قریبی یا دوری والا شہر، ایک جیسا ماحول اور حالات۔ تختی، سلیٹ، سیا ہی کی دوات اور کاٹنے والی قلم۔

سخت کھر درے ٹھنڈے گرم فرش ہمارے سکولوں کے پڑھنا لکھنا کم۔ استا دوں استا نیوں کا خوف و ڈر زیادہ۔ وہی کھیل تماشے وہی کھانے اور مشروبات۔ کتاب میں کو ہاٹ گورنمنٹ گرلز سکول میں سکولز انسپکٹر یس کے معائنے کا حال پڑھ کر سکول کے دن یاد آ گئے۔ پرائمری سے میٹرک تک سالانہ معائنہ کے دن بھی سکول کے حق میں اچھے مگر استا نیوں کے لئے آزمائشی ہوتے۔ شمال مغربی سر حدی صوبہ (موجودہ خیبرپختون خوا) کے سکولوں میں محکمہ تعلیمات کی دو خوا تین افسر تھیں۔ ایک بہت بردبار اور متین، ساڑھی میں ملبوس حیدر آباد دکن کی تھیں۔ دوسری انسپکٹر، جن کا ذکر نصرت نے کیا ہے، وہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تھیں۔ نجم الدین گھڑسوار اور شوٹر تھیں۔ کوٹ پتلون اور سکرٹ پہناوا تھا۔ بالوں کا سٹائل، مردانہ حجامت۔ سخت مزاج اور غصیلی۔ نصرت نے یاد دلایا تو ہمیں یاد آیا۔

قارئین کو ان دو متضاد شخصیات کا تعارف ایک قاری کے کرا دیا۔ دیے سے دیے ایسے ہی چلتے جاتے ہیں۔ نصرت کوہاٹ کی گلیوں میں موجود آنہ لائبریری یاد کرتی ہیں۔ پشاور ہو کوہاٹ کہ پاکستان کا کوئی شہر، ان آنہ لائبریریوں کا علم و ادب کو فروغ دینے میں بنیادی حصہ رہا ہے۔ پیسے، ٹکے، آنے دو آنے لے کر سوا سلف لانا بچوں کو اچھا لگتا تھا کہ جھو نگا ملتا تھا۔ ہمارے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ ہم سب بچوں نے آنہ لائبریری سے کتاب لی تھی اور جھونگے بھی لئے تھے۔ ”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“ اور اس جیسی دوسری کتا بیں پڑھ کر گزری ایک صدی کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔

نصرت کتنی تابعدار بچی تھی کہ خو شی خوشی ٹوپی والا برقع کمسنی میں پہن لیا۔ ایک ہم تھے کہ روتے پیٹتے پہنا۔ وہ بھی اس دھمکا نے پر کہ سکول جانا ہے تو ٹو پی والا برقعہ پہننا پڑے گا بصورت دیگر سکول جانا بند۔ پھر ایک وقت آیا کہ ہم لڑ کیوں نے فیشنی برقعے پہنے۔ یہ فیشنی برقعے سب ہی نے بخوشی پہنے۔ بیکری کے لوازمات میں سے کریم رول اور کوکونٹ پیسٹری یاد رہی مگر خستہ نمکین کلچے بھلا دیے۔ ضروری نہیں اس دور کی دوسری بچیوں اور آج کے ادھیڑوں کو بھی پسند ہو۔

تر بیلہ ڈیم ٹرپ میں میں بنفس نفیس شا مل تھی۔ اس ایک روزہ ٹرپ کی تو کیا کہیے! ہم سب نے خوب انجوائے کیا اور وہ خورونوش کے لوازمات بھلا دیے جا سکتے ہیں۔ بھلا کنڈ ٹرپ میں شہد کی مکھیوں کے اچانک یورش کے چر چے کئی دنوں تک رہے۔ حیرت ہے کہ شہد کی کسی ایک بھی مکھی نے لکھاری کو کیوں نہ ڈسا۔ اپنی بڑی سی چادر میں لپٹی لپٹائی ہو گی یا خو شبو نہ لگائی ہو گی۔ یہ شہد کی مکھیاں رنگوں اور خوشبوؤں کی کشش میں ڈنک چبھوتی ہیں۔ بریکنگ نیوز تھی جو ہفتوں کالج کی سکر ین پر چلتی رہی۔ کراچی ٹرپ پر نہ جا سکی کہ پا نچ اور تین سال کے بچوں کو چھوڑ کے جانے کا حوصلہ نہ تھا۔ پیر پیائی کی صداقت، عارفہ، رضیہ، ممتاز محل، محمودہ اور فوزیہ (ائر ہوسٹس) سبھی میری سٹوڈنٹس تھیں۔ سب یاد ہیں۔

کالج ہاسٹل کا احوال من و عن ہے۔ زردہ کے دیگچے کا بھی ہمیں پتہ چلا تھا۔ چارسدہ کی دو بہنوں کا ذکر کیا ہے۔ سعیدہ درانی وارڈن تھی، اس کی بہن سکینہ درانی اکنامکس کی لیکچرر تھیں۔ ان کا تذکرہ کیا، بالکل درست۔ ان دونوں سے سب کی کور دبتی تھی۔

سی بی کالج کو ہاٹ کی لیکچرر نو شانہ وا سطی میری دوست تھی۔ بی۔ اے آنزر میں ہم دو ہی طالب علم تھیں۔ یونیورسٹی کی دوستی، ان کی وفات تک چلتی رہی۔ ان کی شخصیت کا ہلکا سا عکس دیا گیا ہے۔ وہ بہت نیک و متین تھی۔ زیر لب مسکرا ہٹ اس کے معصوم چہرے کا حسن تھی۔ ہم دونوں شخصیات کے حوالے سے معکوس تھیں مگر دوستی و خلوص کے اپنے ہی رنگ ہیں۔ کرک کی گائنا کالو جسٹ ڈاکٹر ناہید خٹک اور اس کی بہن صبیحہ خٹک دونوں میری سٹوڈنٹس تھیں۔

تھانہ گرلز کالج میں صبیحہ اور ہم کو لیگز رہے۔ اس خود نو شت کے تن ظر میں ہم کو ہاٹ کے معا شرے کے رنگ دیکھتے ہیں۔ ہم پش اور یوں اور آپ کوہاٹیوں کے حوالے سے خود نوشت میں کوئی ایسی بات نہیں۔ جس سے ہم نا آشنا ہوں۔ ایک جیسے معاشرے کی ایک جیسی روایات۔ رتی بھر یا پاؤ بھر تفاوت، جغرافیائی فاصلے کی وجہ ہو سکتی ہے۔ شادی بیاہ کے رسم و رواج ایک جیسے۔ دلہا کی سواری کے لئے گھوڑا سجا دھجا ہوا، دلہن کی رخصتی ڈولی یا چو پان میں۔

اب اتنی بہت سی مماثلتیں ہوں تو نصرت کی خود نو شت صرف اسی کی تو نہ رہی نا! رمضان کی ستائیسویں شب کو ہاٹ میں کھچڑی کا رواج تھا تو پشاور میں سحری میں ابلے سادہ سفید چاولوں پر دہی اور چینی ڈال کر فاتحہ دیا جاتا۔ نصرت کی پھپھو اماں ماہ رمضان کی رخصتی پر ”یا زندگی یا نصیب“ کہہ کر آبدیدہ ہو جاتیں تو اپنی نانی اماں حسرت زدہ لہجے میں ”یا رزق یا نصیب“ کہتیں بچپن میں کیا معلوم تھا اب سترے بہترے ہوئے ہیں تو مفہوم بھی واضح ہونے لگے اور ہم بھی آہیں بھرنے لگے۔

زچگی میں دی جانے والی کو ہاٹ کی اچھوینی پشاور میں اچھوانڑی تھی۔ حج یا عمرہ سے واپسی پر چار موم کے دو پٹے قریبی رشتہ داروں کو تحفہ یا بطور سوغات دینے کے لئے تھان کے حساب سے لائے جاتے تھے۔ پشاور میں اس رواج کا پتہ تھا کیو نکہ ایک دو دوپٹے اب بھی میرے استعمال میں ہیں۔ کو ہاٹ میں چار موم کے دوپٹے دینے کا علم نصرت کی کتاب سے ہوا۔

ع چھیڑ خوباں سے چلی جائے ہے اسد

اپنی گوری رنگت اور خو بصورت ہاتھوں کا ذکر کیسے جوش و ولولے سے کرتی گئی۔ نو جوانی کی چھب پر تو بندہ آپ ہی فریفتہ ہو تا ہے۔ ہم جیسے کائیاں اپنے حسن و جمال کے قصیدے پڑھ سکتے نہ لکھ سکتے ہیں۔

”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“ میں سکول کی مسکین سی کمسن ہلکی مسکان والی لڑکی کی تصویر سے ظاہر ہے کہ نصرت سچی باتیں کر رہی ہے۔ شادی کے بعد یک دم کیسی بولڈ ہو گئی کہ حمل اور زچگی کے معاملات روانی سے بیان کر گئی۔ ہم سے تو آج بھی یہ الفاظ بمشکل لکھے گئے ہیں۔

نصرت کی جی داری کا ایک اور حوالہ تھپڑ کھانے اور اس کی تلخی، خجالت، شرمندگی اور دکھ کے احساس کے با وجود رقم کر دینا اور وہ بھی اپنی خودنوشت میں۔ یہ حوصلہ اور خود اعتمادی میری دانست میں نصرت کے نصف بہتر کی عنایت ہے۔ تسلی رکھو، تھپڑ کھانے کی اذیت یا لذت سے شاید ہی کوئی بیوی صاحبہ بچی ہو۔ اس اذیت کا احساس اپنے ساتھ شیئر کرنا محال ہے کجا کہ مان لیا کہ نصرت حقائق اور واقعات کے بیان میں سچی ہے اور بڑے دل گردے والی بھی۔

نصرت کی پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ننھیالی رشتوں کے ساتھ محبتیں، شفقتیں بیان کرتے ہوئے جذباتی ہو جانا فطری عمل ہے۔ یا دوں کو دہراتے ہوئے سارے جذبے نکھر کر کبھی خوشی کبھی غم کی کیفیات طاری کر دیتے ہیں ”تین عورتیں تین کہانیاں“ پڑھتے ہوئے اخبار خوا تین کا خصوصی صفحہ یاد آ گیا۔ ”ڈیڈی۔ شجر سایہ دار“ فعال شخصیت کے مختلف رنگ روپ نے ان کی شخصیت کا معترف کر دیا۔ نصرت کی محبتیں، یا دیں، جذبات و احساسات پوری طرح نکھر کر سا منے آئے اور قاری کو بھی ساتھ لئے چلے۔

سن 1965 ء کی جنگ کا احوال پوری جزئیات کے ساتھ رقم کیا ہے اگر چہ اس وقت یہ کم عمر تھی۔ یاد داشت اچھی ہے کہ 1971 ء کے المیے کو چھیڑا تو سیاست کے رنگ بھی شامل کر دیے۔ کشمیر کے آلام کا سرسری حوالہ دلپذیر پیرائے میں کیا۔ ”میرے وطن تری جنت میں آئیں گے اک دن“ اس نغمۂ دلگداز کا ایک ایک حرف اور لے ایسی دلگداز ہے کہ دل بھر آتا ہے تو آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں۔

واقعات و حالات کے بیان میں ایک نیچرل سی کیفیت یہ محسوس ہوئی کہ بے تکلف دوستوں یا قریبی رشتہ داروں کے ساتھ گفتگو میں باتوں کا سلسلہ یک دم دوسری جا نب پلٹ جا تا ہے۔ فلم یا ڈرامے کے بدلتے سین کی طرح بالکل غیر متعلق سی بات یا ذکر درمیان میں چھڑ جاتا ہے۔ نصرت کی چابکدستی ہے کہ ربط اور سلسلہ ٹوٹتا کھٹکتا نہیں۔ کوئی نئی دریافت اپنا نیا رنگ جمانے لگتی ہیں۔

مذہب و دین کی طرف رجحان، دینی ماحول میں پرورش بھی ہے اور نصرت کی طبیعت کی ایج اور خاصہ بھی۔ آیات قرآنی کا حوالہ اور دعاؤں کی برکتوں پر عقیدہ، قاری کو بھی اپنی بر کتوں کی چھاؤں میں لے آتا ہے۔ اشعار کا استعمال بھی بر محل و عمدہ ہے۔ اشعار معیاری ہیں اور بیان کی تاثیر میں باعث اضافہ ہیں۔ ایک موقعہ پر ریل کے سفر کو مجاز کی نظم ”رات اور ریل“ کے اشعار نقل کر کے اجاگر کیا گیا ہے۔ پشاور کی ایک شادی کے ذکر میں کمسن میں روحے میں اسی خوشبوؤں کا بیان جو شادی کے گھر اور خصوصاً دلہن کے کمرے سے مخصوص ہوتی ہے۔ مہندی اور خوشبوؤں کی ملی جلی خو شبو، ہم جیسے اس دور والے لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ جن کے مشام جاں بچپن کی یا دوں اور خوشبوؤں سے مہکتی رہتی ہے۔

سید ہے سادے بیان میں جگہ جگہ ایسے فقرے آ جاتے ہیں۔ جو نمکینی و شیرینی جیسا سواد دے جاتے ہیں۔ لکھا ری کا شعر و ادب سے نا طہ رشتہ بتا جاتے ہیں۔ چند سطور نقل کرنے کو جی کرتا ہے۔

”ہر خو شی تبسم بن کر مسکاتی ہے۔ ہر غم ستارا سا پلکوں پر آ کر ٹھہر جا تا ہے“

”یا دیں بھی یوں چپکے سے در دل پر دستک دیتی ہیں کہ آدمی کن زمانوں میں جا نکلتا ہے۔ یادوں کے جزیرے پر چلتے چلتے کوئی خوفناک یاد بھی یوں سر اٹھاتی ہے کہ اپنے زہریلے پن سے ایک بار پھر آپ ویسی تکلیف اور خوف محسوس کرتے ہیں جیسے اس وقت لکھتے لکھتے جگنو، ستاروں، تتلیوں اور کتابوں کی باتیں کرتے کرتے یہ یاد۔“

”کتاب و آواز انسان کی قوت متخیلہ کو مہمیز کرتے ہیں“
”اپنے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے، مکمل تنہائی اور عبادت“
”باپ گھر کا درخت ہوتے ہیں“

”دل تو دل ہے نا! اپنی بساط سے بڑھ کر طلب کرتا ہے پر دینے والے کی بھی کیا شان ہے۔ تیری اونچی شان ہے مولا“ اپنے رب پر مان۔ احساس تشکر۔ شکر کا فیض ہے کہ وہ نواز تا رہتا ہے۔

نجانے یہ محبت کے معا ملے میں گنتی کا حساب کیوں رکھا جاتا ہے۔ پہلی محبت، دوسری، ساتویں وغیرہ۔ محبت بس محبت ہے ”جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے“ نصرت نے اپنی پہلی محبت کا اقرار کیا ہے۔ آنہ لائبریری سے۔ پہلی محبت اپنے پورے وجود کی تمام رعنائیوں کے ساتھ آس پاس موجود ہے ”میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں“

”ایک کتاب ہے کہ ریٹائر منٹ کے بعد کے بے کیف دنوں کو بھی پر کیف بنائے ہوئے ہے“ زندگی کی بے کیفی کو پر کیف بنانے والی یہ کتا بیں پیاری سہیلیاں ہیں۔ جو زندگی کے اچھے دوستوں اور جان سے پیا رے رشتوں کے بچھڑ جانے کے دکھی احساس میں سہارا بنی رہتی ہیں۔ تو یہ سہارا نصرت کو میسر ہے۔

”آج وہ ہوتے تو کتنا خوش ہوتے کیسا فخر کرتے“ اس مختصر فقرے میں اپنے جذبات و احساسات کی مکمل شکل ملی ایسے لگا جیسے میرے لبوں پر آ یا یہ فقرہ نصرت نے اچک لیا ہے۔ اپنے جواں سال اکلوتے بھائی کی اچانک جواں موت کے بعد زندگی میں آنے والے ایسے ہی دو مواقع پر بالکل یہی الفاظ میرے تھے۔

”آج وہ ہوتے تو کتنا خوش ہوتے۔ کیسا فخر کرتے“ عجب ہے ایک جیسے مواقع پر ایک جیسے محسوسات اور ایک جیسے الفاظ دو اجنبیوں کے ساتھ جڑے ہیں جو اب ایک دو سرے کے لئے اجنبی نہیں رہے۔

”دعاؤں کا کوئی رنگ نہیں ہوتا لیکن یہ زندگی کو گل رنگ بنا دیتی ہیں۔“
”دعا کو کبھی معمولی نہ سمجھیں خاص طور پر والدین اور بزرگوں کی“

دعاؤں کے ضمن میں مصنفہ کے پر تاثیر الفاظ کی چھاؤں میں گپ شپ اور حال احوال کے بیان کو مہر بند کرتے ہیں۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content