مصنفہ۔۔۔ عطیہ ربانی

img 7703 1
عطیہ ربانی

تبصرہ نگار : پروفیسر خالدہ پروین

اس مادی دنیا میں  زندگی اور لوازماتِ زندگی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ انسان  تبدیل شدہ حالات کے پیشِ نظر قیاس آرائی سے کام لیتے ہوئے ایک را ئے قائم کر لیتا ہے جو کبھی صرف انفرادی حیثیت کی حامل ٹھہرتی ہے اور بعض اوقات  وسعت اختیار کرتے ہوئے ایک ہجوم کے نعرے کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔  قلم و قرطاس سے متعلقہ افراد میں اکیسیوی صدی کے آغاز سے ہی ایسی ہی ایک آواز نے ہلچل مچا دی۔ یہ آواز تھی

        “یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی”

 انسانی فطرت ہے کہ ایسی کسی بھی صورت حال میں  بھرپور ردِعمل کا اظہار کرتا ہے جس کی نوعیت منفی بھی ہوسکتی ہے اور مثبت بھی۔ لہذا اس نعرے کے بلند ہونے کی دیر تھی کہ چاروں طرف سے کتابوں کی اشاعت کے سلسلے نے زور پکڑ لیا۔ مختلف شعبہ ہائے جات میں سے ادبی کتابوں کی تعداد زیادہ رہی جن میں سے افسانوی مجموعوں اور ناول کی اشاعت اور قرأت کا تناسب زیادہ رہا۔ عموماً معاشرتی، اصلاحی، رومانوی، نفسیاتی موضوعات کا رجحان نمایاں رہا۔ نئے ابھرتے ہوئےمصنفین  صبیح الحسن، شفا چودھری، فرح ناز، قانتہ رابعہ، ماہم جاوید، زارون علی، مریم صدیقی، ارشد ابرار ارش، مہوش اسد وغیرہ میں عطیہ ربانی صاحبہ کا نام  منفرد آواز اور خوشگوار جھونکے کی حیثیت رکھتا ہے۔ “لافانیت ایک سراب” کے بعد “زندگی ذرا ٹھہرو! “کی اشاعت ایک گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔

کسی بھی کتاب کا سرِورق قاری کو کتاب سے جوڑنے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ “زندگی ذرا ٹھہرو!” کا پرکشش سرِورق خیالات کو مہمیز دینے کے علاوہ تجسّس کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خصوصاً نسائی خاکے میں مسجد اور محراب میں صنفِ آہن کا عکس مسحور کن کیفیت طاری کر دیتا ہے۔

ناول کا موضوع غیرمسلموں  کے اسلامی تعلیمات اور اقدار پر اٹھائے جانے والے بے جا اعتراضات اور مسلمانوں کی مذہب سے سرسری وابستگی اور  اس کے نتیجے میں جنم لینے والا احساس کمتری ہے۔ جس پر اگر قابو پالیا جائے تو نا صرف مسلمانوں  کے کردار کی مضبوطی سامنے آتی ہے بلکہ غیر مسلموں پر اسلام کی حقانیت واضح ہونے کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں میں  تبدیلی ایمان و قلب کی صورت بھی دیکھنے میں آتی ہے۔

ناول اگرچہ  بہت ضخیم نہیں ہے مگر  بے شمار معاشرتی و نفسیاتی مسائل، رویوں اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والی تبدیلیوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔  مغربی معاشرے کے ماحول، سوچ طرزِ زندگی کی عکاسی  اور   فرانسیسی زبان کے استعمال کے ذریعے مصنفہ کی مقصدیت  نگاری سامنے آتی ہے۔

ناول کے کردار نمایاں خصوصیات کے مالک نظر آتے ہیں۔نائل، رحل، ایمی ، اینزو کے کردار اگر دوستی کے تقاضوں کو نبھاتے نظر آتے ہیں تو جولیانو جیسے مہمان کردار کے ذریعے ہم جنس پرستی کی طرف اشارہ بہت عمدہ ہے۔ خیام علی کا کردار بہترین باپ کے کردار کے طور پر سامنے آیا ہے تو عالیہ بیگم کے ذریعے سوتیلے رشتے ، سطحی سوچ اور منافقت کی بہت عمدہ عکاسی ملتی ہے۔ عمر کے کردار  میں  موجود دوست، شوہر، مربی اور ایک بہترین انسان کے روپ قاری کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کرنے کا باعث بنے۔

نجویٰ کا کردار اگرچہ کم عمر تھا مگر سمجھداری، معاملہ فہمی اور   مسائل کے حل کے لیے عملی قدم اٹھانے کی صلاحیت نے اسے یادگار بنا دیا۔

رحل اور نائل ناول کے مرکزی کردار ہیں جن کی  مقصد سے لگن  ان کے کرداروں کو مضبوط اور آئیڈیل بنا دیتی ہے۔

رحل سے کیے جانے والے غیر مسلم دوستوں کے سوالات ان مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں جن کا سامنا غیر مسلم ممالک میں کسی بھی مسلمان کو کرنا پڑتا ہے۔

نائل  ایک ایسے نوجوان کا کردار ہے جو کفر کے اندھیروں سے نکل کر حق کی روشنی میں قدم رکھتا ہے۔ بظاہر اس کا سبب عورت ( رحل) کی کشش اور محبت دکھائی دیتی ہے لیکن درحقیقت یہ اللّٰہ تعالیٰ کی اس عطا کی نشاندہی ہے جس میں انسانوں کو چن لیا جاتا ہے سبب جو بھی ہو۔

مغربی معاشرے کی عکاسی بھرپور اور  متاثر کن ہے۔ ناول کی زبان بہت شستہ اور اسلوب رواں اور دلکش ہے۔ مکالمے جان دار اور  دل کو چھو لینے کا باعث ٹھہرتے ہیں۔

بعض اوقات مقصدیت غالب نظر آتی ہے مثلاً فراسیسی زبان کا استعمال اور اس کا ترجمہ، رحل کی سوچ کے ذریعے پاکستانی معاشرے میں بچیوں کی تربیت کا مخصوص انداز  ، اسلامی معلومات کی پیشکش اور ایک آدھ جگہ مصنفہ کا براہِ راست خطابیہ انداز  لیکن اس سب کے باوجود  ناول میں مشرقی اور مغربی معاشرے کے ماحول اس کی خوبیوں اور خامیوں کی عکاسی اور موازنے کا انداز بہت عمدہ اور قابلِ ستائش ہے۔

ناول میں جابجا نظموں  کا استعمال مصنفہ کیے سخن سے لگاؤ کا مظہر ہے۔

مصنفہ کی کہانی پر گرفت، مواد کی عمدہ پیش کش، رواں اسلوب، ماضی سے حال اور حال سے ماضی کی طرف مراجعت ناول کو تجسّس اور دلچسپی کی صفات سے متصف کرتے ہوئے قاری کو ناول کے ساتھ جوڑے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

مجموعی طور پر ایک منفرد موضوع کا حامل عمدہ ناول جس کی اشاعت پر مصنفہ کو دلی مبارکباد۔

ادارہ پریس فار پیس کو خوب صورت اور بہترین اشاعت  کے سلسلے میں ایک اور کامیابی مبارک ہو۔

اللّٰہ تعالیٰ کامیابیوں کا سلسلہ دراز فرمائے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact