مصنف حافظ ذیشان یاسین
رائے : مہوش اسد شیخ
جناب ذیشان یاسین صاحب کے علامتی افسانوں کا مجموعہ “اسیر ماضی “کا دوسرا ایڈیشن میرے ہاتھوں میں ہے ۔
انتساب بہت منفرد ہے یہی سمجھیے کہ کتاب کا انتساب اپنے افسانوں کے کرداروں کے نام کیا گیا ہے۔
“سنہرے ماضی، گم شدہ بچین، کٹتے درختوں، دربدر پرندوں، اداس چرواہوں، گم گشتہ جولاہوں، بوڑھے ملاحوں، اونٹوں کے ساربانوں، گمنام قافلوں، بجھتے چراغوں، لرزتی قندیلوں، مسمار فصیلوں، سوکھتی جھیلوں، ٹوٹتے حوصلوں، مرجھائے پھولوں، سلگتے دلوں، جلتی آنکھوں، بے چین صداؤں، ماتم کناں ہواؤں، مسموم فضاؤں، آزردہ دریاؤں اور تپتے صحراؤں کے نام”!
میں نے ایسا انتساب پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
کتاب میں چودہ افسانے موجود ہیں۔
تجریدی /علامتی افسانے پڑھنے کا یہ پہلا تجربہ تھا، اس سے پہلے حافظ بھائی کے کچھ افسانے اخبارات و میگزین میں پڑھ رکھے تھے مگر یقین جانیے کتاب کی صورت پڑھنے کا جو لطف آیا وہ آن لائن پڑھنے میں نہیں آیا تھا۔
آپ ایک افسانہ شروع کرتے ہیں تو پڑھتے چلے جاتے ہیں، منظر نگاری آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں، مطالعہ کے دوران مجھے محسوس ہوتا رہا یہ تو سراسر جذبات نگاری ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے منظر کی ہر ہر شے خواہ وہ بے جان ہے جذبات رکھتی ہے۔ جذبات سمندر کی لہر کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں ایک دم رواں لگتے ہیں۔ مصنف کا مشاہدہ بہت گہرا ہے۔ ایک نظر میں ہر شے کا ایکسرے کر لینا ان کی بہت بڑی خوبی ہے۔
کتنے ہی مقامات پر آپ خود کو جذباتی ہونے سے روک نہیں پاتے۔ ہر انسان اسیر ماضی ہے، ماضی خوبصورت ہو یا بدترین ہم چاہ کر بھی اس سے دامن چھڑا نہیں پاتے۔
افسانہ” اسیر ماضی”یہ یہ جملہ دل کو بہت بھایا کاش ہم اس حقیقت کو سمجھیں ۔
” حال کے امر کو پہچانو، ماضی خواب ہو چکا، سراب کی جستجو مت کرو ۔“
کچھ سطریں بہت پسند آئیں۔ ان میں سے کچھ قارئین کی نذر کر رہی ہوں۔
“رات جب کسی ناشناسا کرب میں اشکبار ہو جاتی ہے تو اس کے غمگین آنسو درختوں کے پتوں اور سبز گھاس پر پانی کے قطروں کی صورت گرتے رہتے ہیں، وقت سحر سبز پتوں پر چمکتی شبنم دراصل رات کے آنسو ہیں جن میں پرندوں اور چرواہوں کے لیے اداس شب کے کچھ پیغام اور نشانیاں پنہاں ہوتی ہیں”۔
“پرندوں کے جانے سے درخت تنہا اور اداس ہو جاتے ہیں اور شام تک ان کی سلامتی کی دعائیں کرتے رہتے ہیں، جیسے بوڑھی مائیں اپنے پردیسی بچوں کے لیے فکر مند اور ان کی واپسی کی منتظر رہتی ہیں۔”
“پیغام رسالہ اور عمرو عیار کی طلسمی کہانیاں میرے سرہانے رکھی تھیں، میں عمرو عیار کی داستان مکمل کر چکا تھا اور اب عینک والا جن کی نئی قسط کے شوق میں شام ہونے کا انتظار کر رہا تھا ۔اچانک ماضی کی وہ گرم دوپہر جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تو میں نے پریشان ہو کر کہا:” کچھ دیر ٹھہر جاؤ! مجھے اپنے کھلونے، گوٹیاں اور قلم دوات سمیٹ لینے دو، بکھرے خواب، ادھوری نیندیں، کاغذ کی کشتیاں اکٹھی کر لینے دو، عینک والا جن کی ایک قسط دیکھنے دو، پیاسی چڑیا کو پانی پلانے اور طوطے کو چوری کھلانے دو، گم شدہ بچپن کی سنہری یادیں اور کچھ خواب چن لینے دو۔”
یہ صنف اردو ادب کی ایک مشکل صنف ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں کہ قصہ کہانی کے بغیر قاری کی توجہ حاصل کر سکے۔
* ذیشان صاحب اور ادارے کے لیے ڈھیروں مبارکباد اور نیک خواہشات۔
مصنف یونہی قلم کا جادو جگائے رکھیں۔
شکریہ
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.