کتاب ” اسیرِ ماضی “۔
مصنف :  حافظ ذیشان یاسین صاحب
تاثرات : عبدالحفیظ شاہد۔مخدوم پور پہوڑاں
زیر اہتمام: پریس فار پیس پبلی کیشنز

زندگی میں جو دن بیت گیا وہ واپس نہیں آتا۔ یہ شب و روز کا خوبصورت سنگم ہے، جس میں دن، مہینے، سال اور صدیوں کا جنم ہوتا ہے۔ یوں ہر دن اپنی یادوں کے خوبصورت پھول اور کانٹے اگاتا ہے۔ تو کسی کو اس گلشن میں خوشبو کا احساس ہوتا ہے اور کسی کو درد کا ۔”اسیرِ ماضی” خوشبو ،  درد  اور محبت   جیسی ان ہی بیتی  یادوں کے  انمول لمحوں  کی پٹاری ہے  جو آپ کو سوتے جاگتے اپنے ہونے کا احساس  دلاتی رہتی ہے۔
انتہائی نفیس کاغذ ،  عمدہ و دیدہ زیب پرنٹنگ ، شاندار ٹائیٹل اور128  بہترین صفحات پر مشتمل کتاب ” اسیر ماضی”  موصول ہوئی۔ کتاب پریس فار پیس جیسے معتبر ادارے سے اشاعت شدہ ہے۔  پبلشنگ  اور  پروف ریڈنگ  کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔کتاب  کی پرنٹنگ  دیکھ  کر  دل خوش ہو جاتا ہے۔مصنفین اور قارئین دونوں کو  پریس فار پیس پبلی کیشنز کے منتظمین کا مشکور ہونا چاہیے جنہوں نے اعلیٰ قسم کی کتب شائع کرکے  معیار  کا اعلیٰ نمونہ قائم کیا۔ جس کے لیےادارہ  اور خاص طور پر  جناب ظفر اقبال صاحب بے شمار مبارک باد کے مستحق ہیں۔”اسیرِ ماضی “میں کل پندرہ  افسانے پیش کیے گئے ہیں ۔
افسانوں پر مشتمل بہت سی  کتب پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ لیکن بہت کم لوگ اتنا ڈوب کے لکھتے ہیں کہ  کہ ہر تحریر  دل میں اترتی چلی جائے۔  کتاب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم نے بہت خوب صورت وقت ماضی کے حوالے کردیا۔ آج کا دن کل ماضی بن جائے گا اگر ہم ایک خوشگوار مستقبل کی طرف جارہے ہوتے تو شاید ماضی کو یاد کرتے وقت لفظوں میں اتنی اداسی نہ ہوتی ۔ اس کتاب میں  مصنف  اپنی انگلی پکڑا کر ہمیں اپنے ساتھ ماضی کی گلیوں میں گھوماتے رہے۔میں تو عجیب بھنور میں پھنس کے رہ گیا ہوں۔ ابھی تک سمجھ نہیں آتا کہ ماضی   میں کسی اونٹ کے ٹل کے پیچھے پیچھے  سر دھنتے ہوئے رواں دواں ہوں یا حال کی تلخ حقیقتوں میں واپس آچکاہوں۔
اس کتاب کا انتساب بہت کمال کا لکھا گیا۔ اگر پوری کتاب بھی  صرف انتساب پر مشتمل ہوتی ہے تو مصنف ادب کی دنیا میں ایک گرانقدر اضافہ   کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔کتاب پڑھتے ہوئے آپ  اپنے آپ کو جگنوؤں ، تتلیوں اور چہچہاتے پرندوں کی معیت میں محسوس کرتے ہیں۔انسان کے دل و دماغ میں یادوں کا بھی الگ سا میلا ہوتا ہے۔ جس میں تربیت و نصیحت بھی شامل ہوتی ہے، اور آنے والے وقت کے لئے آگاہی بھی۔ یاد نئی ہو یا پرانی وہ اپنی قدر و قیمت کسی  بھی موسم میں  کبھی نہیں کھوتی۔ اس کتاب میں تحریریں یا افسانے نہیں ہیں بلکہ اس میں  تو آپ کے بچپن کی سنہری یادیں  اور انمٹ نقوش  کی  وہ کترنیں ہیں جو آپ کو کبھی ہنساتی ہیں تو کبھی رونے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
اسیر ماضی” کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ  اس کتاب میں  جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد ذاکر عباسی (شکاگو، امریکا)، جناب پروفیسر ڈاکٹر سباط ایزم (باکو-آذر بائیجان)، ڈرامہ نگار ڈاکٹر یونس بٹ صاحب ،  محترمہ ڈاکٹر عشرت گلناز (کینیڈا)، محترم جناب ضیاء اللہ محسن صاحب جیسی علمی  شخصیات کے  تبصرے شامل ہیں۔
“اسیرِ ماضی ” حافظ ذیشان یاسین صاحب  کی علامتی کہانی سنانے کے ہنر کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو قارئین کو ان کی اپنی زندگیوں اور یادوں پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ آپ علامتی افسانے کے پرستار ہوں یا محض فکر انگیز ادب سے  دلچسپی رکھتے ہوں “اسیرِ ماضی ” ایک ایسی کتاب ہے  جو آپ کے دل و دماغ پر  دیرپا  تاثر چھوڑنے  میں کامیاب  ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ یادیں خوشیوں اور غموں کی زنجیر سے بندھی ہوتی ہیں۔ ان کو جس سرے سے بھی پکڑو  وہ اپنی تلاش اور اپنائیت کا احساس ضرور  دلاتی ہیں۔ بچپن سے بڑھاپے تک یہ ایک طویل مسافت ہے جو تین ادوار سے گزر کر مثلث بناتی ہے۔ زندگی نعمت خداوندی ہے نہ اس کا شروع ہے اور نہ آخر۔ بس ایک بہاؤ ہے جو نسل در نسل چلا رہا ہے۔ کیونکہ ہر دور کی اپنی چاشنی اور لطافت ہوتی ہے جو ارادوں اور جذبات کو تعبیر بخشتی ہے۔اور  اسیرِ ماضی اس چاشنی اور لطافت کے لمحات  کو دوگنا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اگر  آپ خوبصورت موضوعات لکھنے کا ہنر سیکھنا چاہتے ہیں تو یہ کتاب قلم کی زرخیزی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ حافظ ذیشان یٰسین صاحب کا یہ ادبی سفر ایسے ہی جوش و خروش سے جاری و ساری رہے۔ان کی یہ کتاب آپ کی لائبریری کی شان بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔مصنف  کو کتاب کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک ہو ۔ اللّٰہ تعالیٰ مزید عروج اور کامیابیاں عطا فرمائے ۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact