مصنفہ: عمیرہ احمد
تبصرہ نگار: ثانیہ خان ثانی
مصنفہ عمیرہ احمد کے قلم سے لکھا ہوا ناول “امربیل” ایک دل کو چھو لینے والا اور حقیقت پر مبنی شاہکار ہے۔
“امر بیل” ایک اردو لفظ ہے جو دو اجزاء پر مشتمل ہے: “امر” اور “بیل”۔ “امر” عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی ہیں “ہمیشہ رہنے والا” یا “لامحدود”، جبکہ “بیل” اردو میں ایک ایسے پودے کی قسم کو کہا جاتا ہے جو درختوں یا دیگر جھاڑیوں پر چڑھتی ہے۔ امربیل ایک ایسی بیل کو کہا جاتا ہے جو جڑ کے بغیر ہوتی ہے اور دوسرے درختوں یا پودوں پر انحصار کرتی ہے۔ اس بیل کی خاصیت یہ ہے کہ جو پودا اسے سہارا دیتا ہے یہ اُسے آہستہ آہستہ ختم کر دیتی ہے۔
اگر میں ناول کی بات کروں تو
ناول میں مرکزی کردار عمر جہانگیر اور علیزے سکندر ہیں۔ عمر کے والد جہانگیر سکندر اور ان کے خاندان کے باقی مرد کرپٹ بیوروکریٹ ہوتے ہیں۔ عمر اور علیزے دونوں کے والدین علیحدگی اختیار کر چکے ہوتے ہیں۔ ایک اہم مسلئہ اس ناول میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ بچے جو ٹوٹے ہوئے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے والدین علیحدگی اختیار کر چکے ہیں وہ اس معاشرے میں کیسے سروائیو کرتے ہیں اب سارے کہانی نہیں بتاؤ گی سسپنس خراب ہو جائے گا نا۔۔۔ مختصر کہوں تو یہ کہانی سماجی، معاشرتی، اور سیاسی مسائل کی عکاسی کرتی ہے۔ مصنفہ نے اس کے ذریعے کرپٹ بیوروکریسی، پولیس اسٹیشنوں کی حقیقت اور حکومتی فیصلوں کے عوامی اور ان کی ذاتی زندگی پر اثرات کو بے نقاب کیا ہے۔ اس ناول میں بہت سے اہم اسباق پوشیدہ ہیں۔ اس میں ایک اور اہم موضوع صحافت کے شعبے کی حقیقت ہے مصنفہ نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کس طرح بعض صحافی مفادات کی خاطر جھوٹی خبریں شائع کر دیتے ہیں میں اس طرح کی کافی خبریں بھی سن چکی ہوں اور یہ حقیقت ہے۔ اسی طرح کی کئی تلخ حقیقتوں کو اس ناول میں بیان کیاگیا ہے۔
“امربیل” میں ایک رومانوی پہلو بھی ہے جہاں علیزے سکندر اور عمر جہانگیر کے درمیان محبت کا رشتہ ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے بے انتہا محبت ہوتی ہے مگر عمر اور علیزے کے رشتہ میں کچھ پیچیدگیاں بھی ہوتی ہیں جو آپ کو کہانی پڑھ کر ہی سمجھ آئیں گی اور پہلے ہی سب کچھ بتا کر میں آپ سب کا سسپنس خراب نہیں کرنا چاہتی، پڑھیے گا ضرور۔۔۔۔
اگر میں ایک قلم کار کے طور پر اس ناول کا جائزہ لوں تو میں اسے ایک بے مثل تخلیق تصور کرتی ہوں اس کا پلاٹ نہایت مستحکم ہے اور قاری ہمیشہ تجسس میں رہتا ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ ناول میں الفاظ کی سادگی اور روانی نے اسے ہر قاری کے لیے قابل فہم اور دلکش بنا دیا ہے۔ ایک خاص بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ ہے کہ اس میں غیر ضروری تفصیلات اور بیزار کن منظر نگاری کا فقدان ہے جو اکثر نئے لکھاریوں کے ناولوں میں اس قدر دکھائی دیتی ہے کہ قاری کو تھکا دیتی ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ مصنفہ نے کردار نگاری میں کمال کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کے کرداروں کو محض فرشتہ بنا کر پیش نہیں کیا بلکہ ان کو غلطیاں کر کے انہیں سیکھنے کا موقع دیا۔ اسی وجہ سے قاری ان کرداروں سے جڑتا ہے۔
آخر میں اگر میں اس ناول کا مجموعی طور پر جائزہ لوں تو مجھے یہ ایک بہترین تخلیق محسوس ہوتی ہے۔ اس میں صرف محبت کی کہانی نہیں ہے بلکہ زندگی کے کئی گہرے اور اہم پہلو بھی ہیں جو قارئین کو سبق دینے اور سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ہر قاری کو یہ ناول پڑھنا چاہیے کیونکہ اس میں نہ صرف رومانوی عناصر ہیں بلکہ زندگی کے مختلف اسباق بھی پوشیدہ ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.