تقسیمِ جموں کشمیر کے بعد پاکستانی زیرانتظام ‘‘آزاد جموں کشمیر‘‘ (جو مختصراََ ‘‘آزادکشمیر‘‘ کہلاتا ہے) میں بہت کچھ لکھا گیا ہے،بالخصوص گزشتہ تین دہائیوں میں افسانے، سفرنامے، ناول، شاعری اور دیگر اصنافِ ادب میں کیا کیا تخلیقات سامنے آئی ہیں۔ دل کو طمانیت ہوتی ہے ہم کہ ہم ادب کے میدان میں تہی دامن نہیں ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں سب سے کم کسی موضوع پر لکھا گیا تو وہ اس خطے کی تاریخ ہے۔ تاریخ سے کسی خطے کے عوام کو بے بہرہ رکھ کر اُن کی منزل باآسانی کھوٹی کی جاسکتی ہے۔ اس ضِمن میں ہمارے ہاں جو کچھ لکھا گیا وہ ایک مسلط شدہ بیانیہ ہے۔ ریاست جموں کشمیر میں تین بیانیے ، پرو پاکستان، پرو انڈیا اور پرو جموں کشمیر ہیں۔آخرالذکر بیانیہ جو اس دھرتی اور یہاں بسنے والے عوام کا بیانیہ ہے، اسے نصابی کتابوں میں جگہ تو کیا ملتی مگر بدقسمتی سے وہ غیرنصابی کتابیں بھی پابندی سے نہ بچ پائیں جن میں اس کی ادھوری،نامکمل یا محدود سی کوئی شکل بھی موجود تھی۔ایسے میں میرے جیسے “آزاد جموں کشمیر‘‘ کی تاریخ کے ایک طالب علم کے لیے یہ ایک بڑی خوش خبری تھی کہ اس موضوع پر دانش ارشاد کی تحقیقی تصنیف “آزادی کے بعد‘‘ منظرِ عام پر آئی۔دانش ارشاد نے برطانیہ سے جناب افتخار کلوال کے ذریعے یہ کتاب میرے لیے بلجیئم ارسال کروائی تھی مگر نہ جانے کیوں ایک ماہ کے طویل انتظار کے بعد مجھ تک پہنچی۔آج کل کتاب کی سافٹ کاپی کا چلن ہے مگر میرے جیسے قاری پرانے دور کی وہ آخری نشانیاں ہیں جو کتاب کی ہارڈ کاپی ہاتھ میں تھام کر پڑھنے کا لُطف لیتے ہیں۔لگ بھگ تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب میں نے ہاتھ لگتے ہی ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی۔

میرے جیسے مزدور کو وطن مالوف کی یاترا کا موقع کم ہی ملتا ہے، میری تو بقولِ میر طاہر علی رضوی یہ کیفیت رہتی ہے کہ:

مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا

اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے

اس بات کو ایک دہائی سے زائد عرصہ ہونے کو ہے، وطن مالوف یاترا کے ایک موقع پر راولاکوٹ کچہری میں ایک نوجوان آکر مجھ سے ملا،اپنا نام دانش ارشاد بتایا، یہ بھی معلوم پڑا کہ اُس کا تعلق راولاکوٹ کے نواحی علاقے دریک سے ہے۔ اُس نے بتایا کہ وہ ‘‘طفلِ چنار‘‘ کے نام سے بچوں کا ایک ماہنامہ میگزین شائع کرتا ہے۔ غالباََ اُس نے مجھے اُس میگزین کے ایک یا اس سے زائد شماروں کی کاپیاں بھی دی تھیں۔ پھر دانش ارشاد نے صحافت کو ہی بطور پیشہ چُنا اور راولپنڈی اسلام آباد جا ڈیرے جمائے۔ اس دوران چند مرتبہ اُس سے فون پر رابطہ ہوا،البتہ اخبارات میں شائع ہونے والی اُس کی تحریریں اور آرٹیکلز میں بصد شوق پڑھتا اور آُس کے کیے گئے انٹرویوزجو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوئے، سُنتا دیکھتا رہا ہوں۔ اُس کی تحریریں نہ کوئی ہوائی باتیں ہوتی ہیں نہ چربہ یا محض پروپیگنڈہ۔ مطالعہ، تحقیق، چھان پھٹک اور پرکھ اُس کی تحریروں میں واضح دِکھتی ہے۔

“آزادی کے بعد“ خطہ “آزاد جموں کشمیر‘‘ کی تاریخ کے اُن واقعات کا احاطہ کرتی ہے جنھیں دانِستہ ہم سے اوجھل رکھا گیا۔ یہ کتاب اس خطے میں حکمران اشرافیہ کے خلاف چلنے والی اُن تحریکوں پر روشنی ڈالتی ہے جنھیں جبر اور ظلم و تشدد سے دبا دیا گیا یا کچھ جزوی طور پر کامیاب ہوئیں۔ “آزادی کے بعد‘‘ چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب تقسیمِ جموں کشمیر کے بعد کے دس سالوں پر محیط ہے، دوسرے باب میں اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں چلائی گئی جعلی لبریشن موومنٹ کی حقیقت واضح کی گئی ہے، تیسرے باب میں ‘‘آزادکشمیر‘‘ کے عوام کو ووٹ کا حق ملنے کی روداد ہے( تقسیم جموں کشمیر سے قبل ریاستی عوام کو ووٹ کا حق حاصل تھا اور قانوں ساز اسمبلی کے تین مرتبہ انتخابات ہوچکے تھے، غدر کے موقع پر یہ حق سلب ہوا اور پھر عوام دو دہائیوں سے زائد عرصہ تک اس حق کی بحالی کے لیے جدوجہد کرتے رہے)۔ چوتھا باب سندھ تاس معاہدے(انڈس واٹر ٹرِیٹی) میں پانی کی تقسیم پر پاکستان اور بھارت کے اتفاق رائے کے حوالے سے ہے۔ پانچواں باب منگلا ڈیم کی تعمیر اور بعد ازاں توسیع کے خلاف عوام کے احتجاج پر مشتمل ہے اور آخری چھٹا باب عوامی حقوق کی حالیہ تحریک کا احاطہ کرتا ہے۔

تاریخ “آزاد جموں کشمیر‘‘ کے ایک طالب علم کی حثیت سے میرے کسی نہاں خانہ دل میں یہ بات موجود تھی کہ میں نے اس خطے کی تاریخ کے حوالے سے کچھ نہ کچھ پڑھ رکھا ہے مگر ‘‘آزادی کے بعد‘‘ کے مطالعہ کے بعد میری یہ غلط فہمی دُور ہوئی اور مجھے معلوم پڑا کہ میں اس حوالے سے کورا ہی تھا۔ تاریخِ ‘‘آزد جموں کشمیر‘‘ کے موضوع پر اس سے بہتر کتاب آج تک میری نظروں سے نہیں گزری ہے۔ اس کتاب میں کوئی بات بغیر حوالے کے نہیں لکھی گئی ہے۔ کتاب میں کسی قسم کی لگی لِپٹی رکھے بغیر تمام حقائق کو جرات اور بے باکی سے ضبطِ تحریر میں لایا گیا ہے۔ یہ کتاب عقیدت و تقلید کے شِیرے میں لتھڑے اور ‘مطالعہ پاکستان‘ کے مارے لوگوں کے چودہ طبق روشن کرنے والی ہے اور قیادت کے جعلی بتوں کو ذمیں بوس کرنیوالے حقائق و حکایات لیے ہوئے ہے۔ یہ کتاب محض کتاب نہیں بلکہ ‘‘آزاد جموں کشمیر‘‘ کے عوام کے زندہ دکھوں کی کتھا ہے، یہ ہمارا مقدمہ ہے، بلکہ مجھے کہنے دیجیئے کہ ہماری چارج شِیٹ ہے۔ یہ کتاب ہمارے ہاں لکھی گئی کتابوں کے یکسر برعکس ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں پی ایچ ڈی اسکالر سے لیکر ایک عام لکھاری تک کوئی بھی تحقیق اور مطالعہ کی ذحمت نہیں کرتا، ایسے میں یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ‘‘آزادی کے بعد‘‘ کی صورت میں کتاب کے معیار پر پورا اُترنے والی ایک تخلیق سامنے آئی ہے۔ یہ کتاب اس خطے کے عوام کے مغالطے دُور کرنے اور اُن کے لیے سیکھنے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ میری رائے میں ہر پِیر و جواں کو اس تصنیف کا مطالعہ بہرصورت کرنا چاہیے۔ یہ محض روایتی کتاب نہیں ہے، اس کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ صاحبِ کتاب نے لکھنے کا حق ادا کرنے کی بھرپور سعی کی ہے۔ عوام کو اُن کی تاریخ سے ناآشنا رکھ کر اُن کا استحصال کرنے والی قوتوں اور اُن کے سہولت کاروں کے چہروں سے اس تخلیق نے خوب نقاب اُتارے ہیں۔ یہ کتاب کیا ہے، بس اُس ظلم و جبر جو ہمارے خطے کے عوام پر بِیتا،جو کچھ ہم نے سہا اور اُس کے خلاف ہماری دلیرانہ جدوجہد کی مدلل اور بحوالہ عکس بندی ہے۔ دانش ارشاد اس کاوش پر بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ خدا دانش ارشاد کو سلامت رکھے، کامیابیوں، کامرانیوں اور خوشیوں سے نوازے۔دانش ارشاد کی یہ خوش بختی ہے کہ اُسے پاکستان کے ساکھ رکھنے والے نامور صحافیوں کی صحبت اور رہنمائی میسر ہے جس سے وہ خوب سیکھ رہے ہیں۔ مجھے اُمید ہے ہمیں مسقبل میں اُن سے ‘‘آزادی کے بعد‘‘ سے بھی بہتر تصانیف ملیں گی۔ کتاب کے آغاز میں زبان و بیان پر دسترس رکھنے والے ہمارے خطے کے صحافی فرحان احمد خان اور حارث قدیر کی کتاب کے حوالے سے رائے بھی شامل کی گئی ہے۔ (دونوں احباب اس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کے حوالے سے الگ آرٹیکلز لکھے جائیں ، اِسے میں کسی اور نشست کے لیے اُٹھا رکھتا ہوں)۔ میرا گمان ہے کہ کتاب کے حوالے سے تحقیق، اس کی تدوین اور اشاعت کے سلسلے میں ان دونوں نے دانش ارشاد کی رینمائی و مدد کی ہوگی۔ بہرحال میرے جیسے قاری کو ‘‘آزادی کے بعد‘‘ جیسا بہترین تحفہ دینے پر دانش ارشاد کا شکریہ اور اُن اہلِ علم کا بھی جنھوں نے کتاب کی تیاری اور اشاعت کے سلسلے میں دانش کی طرف دستِ تعاون بڑھایا۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content