شمائل ابھی گریجویشن کے آخری سال کے امتحانات کی تیاری کر رہی تھی کہ اس کے گھر والوں کو نبیل کا رشتہ پسند آ گیا تھا۔ نبیل کی والدہ نے شمائل کی کزن کی شادی میں اسے دیکھا تھا اور پہلی ہی نظر میں انہیں سادہ سی، سر پر دوپٹہ اوڑھے، دیگر لڑکیوں سے الگ تھلگ سی وہ بہت پسند آئی اور اسی ہفتہ اپنے اکلوتے بیٹے نبیل کے رشتے کا پیغام لے کر آن پہنچی۔ نبیل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھا۔ گھر، گاڑی اچھی تنخواہ، خوش شکل و خوش، لباس، گھر میں صرف اس کی والدہ تھیں جو انتہائی سلجھی ہوئی اور معقول تھیں۔ سو چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا اور وہ نبیل کی دلہن بن کر اس کے گھر آ گئی۔اس کی ساس واقعی ایک مثالی ساس ثابت ہوئیں۔ انہوں نے بیٹے کی تربیت اتنے اچھے طریقے سے کی تھی کہ وہ ہر عورت کی عزت کرنے کا قائل تھا۔ نبیل کو کبھی اس نے اپنی کسی کزن کے سامنے بھی بے باکی سے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور وہ خود بھی اسی مزاج کی تھی۔ دونوں کی جوڑی کی سارے خاندان میں دھوم مچی ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ وہ ذمہ داریوں میں گھرتی گئی۔ اوپر تلے تین بچوں کی آمد، پھر گھر اور اماں۔ وہ پردیس جو جاتیں تو چھ آٹھ ماہ بعد آتیں، ان کا تو پورا میکہ ہی امریکہ میں تھا۔ پہلے نبیل کی تنہائی انہیں روکے رکھتی تھی مگر اب وہ بے فکری سے وہاں رہتیں تھیں۔ زندگی کی گاڑی بہت تیزی سے رواں دواں تھی۔ اسے اپنے لیے وقت ہی نہیں ملتا، مشینی زندگی ہوگئی تھی۔ وہ کچھ عرصہ سے نبیل کے رویے میں تبدیلی محسوس کررہی تھی، ایک آدھ بار پوچھنے پر نبیل نے آفس کا مسئلہ بتا کر اسے مطمئن کردیا اور اسے بھی بچوں و گھر کے مسائل اتنا تھکا دیتے کہ وہ کچھ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی لیکن کب تک آخر اسے نبیل کے رویے کی تبدیلی کا انکشاف ہو ہی گیا۔کل رات کے پچھلے پہر اس کی آنکھ کھلی، نبیل کو بستر پہ نہ پاکر اس نے اسے تلاش کیا تو پتا چلا کہ وہ باہر ٹیرس پر کھڑے کسی سے موباٸل پر کر رہے ہیں۔ اس نے سوچا کہ کوئی دوست ہوگا لیکن نبیل کے الفاظ کیا تھے، ایسا گہرا گھاٶ تھے جو اس کا دل چیر گئے ”یار کیا بتاٶں وہ میری ہر ضرورت کو پورا کرتی ہے لیکن بس اس میں اب پہلے جیسی کشش و حسن نہیں رہا، ہر وقت تھکی ہوئی بےزار رہتی ہے۔بس دل اب اس کی طرف راغب ہی نہیں ہوتا۔ تم سے بات کرکے ذرا تازہ دم ہوجاتا ہوں۔ تمہاری ہنسی اور باتیں میری تھکن اتار دیتی ہیں۔“ اس سے آگے سننے کا حوصلہ اس میں نہیں تھا وہ اپنے ریزہ ریزہ وجود کو سمیٹتے بستر پر گر گئی۔ اسے آج اماں کی کمی شدت سے محسوس ہورہی تھی،: ”اماں دیکھیں آپ کا نبیل بھٹک رہا ہے، آپ کا سایہ دور ہے نا۔ وہ نبیل جو اپنی کزن تک سے نظریں ملا کر بات نہیں کرتے تھے، آج کسی سے اتنی بے باکی سے بات کررہے تھے۔“
وہ تصور میں اماں سے یہ کہتے ہوئے رو رہی تھی۔
” افف اللہ میں کیا کروں، اشک تکیے کو نم کررہے تھے اور کنپٹیاں سلگ رہی تھیں۔ پچھلے پہر کی یہ رات خاصی طویل ہوگئی تھی۔ رات کی تاریکی کو چیرتی اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ وہ بھی کھڑی ہوگئی۔ اپنا من ہلکا کرنا ہو تو سب ہی اپنے رب کے دربار میں سر جھکاتے ہیں اور ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ صبح نبیل اس کی کیفیت سے لاعلم اسی طرح تیار ہوکر ناشتہ کرکے آفس چلے گئے اور وہ تھی تو عورت ہی ہے نا، اپنا ہر دکھ بھول کر زندگی کے دھندوں میں مصروف رہنے کا ہنر اسے خوب آتا تھا۔
”ہر رشتہ اور تعلق کی بنیاد بھروسے اور اعتماد پر ہوتی ہے۔ یہ نہ ہوتو انسان کا وجود بے معنی اور تعلق صرف سمجھوتا ہے۔“ اس کی بچپن سے عادت تھی جو بات اسے اچھی لگتی وہ اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیتی تھی اور آج اسے اپنی ڈائری میں لکھے یہ الفاظ نہ صرف یاد آرہے تھے بلکہ اسے اشک بہانے پر بھی مجبور کر رہے تھے۔ وہ اس وقت تنہا رہنا چاہتی تھی لیکن کتنی مجبوری تھی کہ وہ چاہ کر بھی بظاہر تنہا نہیں ہوسکتی تھی جبکہ اس کے وجود کے اندر تک تنہائی اور گہرا سناٹا تھا۔
”امی! امی! آئیں ناں دیکھیں یہ کیا ہوگیا؟ “ ابھی وہ سوچوں میں گم تھی کہ بڑی بیٹی پینٹ اور برش لیے سامنے آ گئی۔ ”افف ایک تو یہ بچے سکون نہیں لینے دیتے۔“
اس کی ساری جھنجھلاہٹ اپنی پانچ سالہ معصوم بچی پر اتری۔”ہٹو تم! میں صاف کرتی ہوں، تمہیں اور کام ہی کیا ہے۔“
ابھی وہ یہ صاف کرہی چکی تھی کہ چھ سالہ بیٹا روتے ہوئے آ گیا۔
”اماں دیکھیں میری گاڑی کا ٹاٸراڈ ٹوٹ گیا۔“
”اوہو چلو کوئی بات نہیں، دوسری آ جائے گی۔“
اس نے یہ کہہ کر بہلانا چاہا۔
” کتنا معصوم بچپن ہوتا ہے ایک گاڑی کا ٹائی راڈ ٹوٹنے پر رو رہا ہے۔ یہاں لوگ روز رشتوں کو توڑتے اور ارمانوں کا خون کرتے ہیں، انہیں اندازہ بھی نہیں ہوتا۔“ ایک بار پھر اسے سب کچھ یاد آ گیا۔ ابھی وہ پھر انہی خیالات میں ڈوبی تھی کہ چھوٹی والی کی رونے کی آواز نے اسے اپنی الجھنوں اور سوچوں کے وسیع سمندر سے نکال کر کار زندگی میں مصروف کردیا۔ آنسو پیتے خود سے الجھتے دن تو گزر گیا مگر رات رات کو تو دکھ جاگتے ہیں، درد ٹیسیں دیتے ہیں اور نہ ختم ہونے والی سوچیں تھکے ہویے بدن کو مزید تھکاتی ہیں۔بات شاید اتنی بڑی بھی نہیں تھی لیکن اتنی معمولی بھی نہیں۔ ”شمائل تم شروع سے ہی ایسی ہو ہر بات کو بڑھا چڑھا کر خود پر سوار کرکے نہ خوش رہتی ہو، نہ رہنے دیتی ہو۔“
۔۔”کیا تم اسے معمولی بات سمجھتی ہو ماہا ؟ ایک مرد جس سے ہم وفا نبھاتے ہیں، جس کے بچوں کی تربیت میں خود کو بھلا دیتے ہیں، جس کے گھر کی دیکھ بھال میں اپنا سکھ چین بھول جاتے ہیں، اسے یہ زیب دیتا ہے؟“
”اوہو تو کون سا کمال کرتی ہو سب عورتیں کرتی ہیں۔“
”ہاں تو سب مرد کیا یہی کرتے ہیں؟“
شمائل نے تڑخ کر کہا۔
”ہاں کم و بیش ہر مرد یہی کرتا ہے۔ یہ دنیا ہے یہاں ذرا آنکھیں کھول کر رہو اور دیکھو۔ ارد گرد کیا کیا ہو رہا ہے۔ مرد کہاں کہاں سے خود کو بچائے؟“
”تم ماہا کیسی باتیں کررہی ہو ؟“
”جو حقیقت ہے وہی سمجھا رہی ہوں۔ قدم قدم پر باہر مردوں کے لیے آزمائشیں کھڑی ہیں، عورتیں بازار حسن سجائے ہوئے ہیں، شکر کرو نبیل بھائی صرف بات چیت تک ہی محدود ہیں، عملاً کچھ غلط نہیں کرتے، ورنہ یہاں تو سب تیار ہیں۔ تم سے رویہ بدلا، تمہیں کچھ برا بھلا کہا؟ نہیں نا دیکھو! اپنے آپ کو بدلو، اپنا حلیہ دیکھو!۔ نبیل بھائی کے آنے سے پہلے کوشش کیا کرو سب کاموں سے فارغ ہو کر اطمینان سے انہیں وقت دو۔“ ماہا رسانیت سے سمجھا رہی تھی۔” باہر مرد نا جانے کتنے محاذوں سے لڑ کر گھر آرہا ہوتا ہے۔ اسے گھر میں بھی سکون و اطمینان نہ ملے تو وہ اسے ادھر ادھر تلاش کرے گا نا۔“ ”میں کون سا انہیں تنگ کرتی ہوں۔“
اس نے نم آنکھوں کےساتھ سوال کیا۔“
”ہممم تم یقینا تنگ نہیں کرتی ہوگی لیکن شاید تم ان کی توقعات پر پورا نہ اتر رہی ہو۔ تم انہیں بس جتنا وقت دو، وہ خالص ان کے لیے دو۔ تیار ہو کر، مسکرا کر ملو، اپنی اور ان کی باتیں کرو۔ دیکھو! یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے، جب بچے ہوتے ہیں تو باتیں بھی بس بچوں کی ضروریات تک محدود ہو جاتی ہیں۔ اسے کچھ مرد خوشی سے قبول کرتے ہیں اور کچھ اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تو شمائل بدلنا تو تمہیں خود کو پڑے گا نا“ ماہا نے تسلی و پیار سے شمائل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے سمجھایا۔
”اور اب تم یہی دیکھ لو، یہ اتنی بڑی بات بھی نہیں کہ رو رو کر خود کو ہلکان کررہی ہو۔ تمہیں اس مسئلے سے نکلنے کا حل سوچنا چاہیے۔ تم نے خود ہی بتایا نا کہ نبیل بھائی نے تمہارے موڈ کا نوٹس لیا کئی بار تم سے پوچھا تو اس کا تو یہی مطلب ہے نا کہ انہیں تمہارا احساس ہے، محبت ہے۔ بس تم سے مطلوبہ وقت و توجہ نہ ملنے کے سبب شاید کسی سے دوستی ہو گئی ہے۔ دیکھو! شمائل! مجھے لگتا ہے غلطی اگر ان کی ہے تو تمہاری بھی ہے۔“
”یہ غلطی نہیں گناہ ہے ماہا!، جنہیں چھوٹا سمجھا جاۓ یا جواز تراشے جائیں تو ایسے گناہوں کا وبال نسلیں دیکھتی ہیں۔“ اس نے حلق میں اٹکے گولے کو نگلتے ہوۓ کہا۔ ”ہاں صحیح کہہ رہی ہو لیکن اس کا احساس نبیل بھائی کو دلانا بھی اب تمہاری ذمہ داری ہے۔ دیکھو! بس تہیہ کرو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر خود کو افسردہ نہیں کرو گی۔خوش رہو گی تو خوش رکھو گی نا۔ اب اٹھ کر نہا دھو کر تیار ہو جائو، میں بھی اپنے گھر کی راہ لوں کہیں میرے میاں صاحب بھی میری غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر ٹیلی فونک دوستی نہ شروع کردیں۔“
ماہا نے ہنستے ہوۓ آنکھ ماری اور چلتے چلتے رک کر بولی اور ہاں سنو طعنے دینے سے ہمیشہ گریز کرنا۔ انہیں محبت و حکمت سے آہستہ آہستہ یہ احساس دلانا کہ اگر آپ کو کوٸی شکوہ شکایت ہو۔ تو باہم گفتگو سے معاملے سلجھائے جاسکتے ہیں لیکن اس کے لیے فرار کی راہیں اختیار کرکے کہیں اور سکون تلاش کرنے سے انسان ایسی گھاٹی میں جا گرتا ہے، جہاں سے واپسی مشکل ہوجاتی ہے۔ آئی سمجھ؟“ اس نے نم آنکھوں اور مسکراتے لبوں کے ساتھ ہاں میں گردن ہلا دی۔
” چلو اب میں چلتی ہوں، وہ اپنا بیگ سنبھال کر، اس سے گلے مل کر، گھر کی دہلیز پار کر گئی۔
” اچھا دوست بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔“
اس نے اسے گاڑی میں بیٹھتے دیکھتے ہوئے سوچا۔
” تھینک یو ماہا!، تم نے مجھے میری کمزوری سے آگاہ کیا۔ تم صحیح ہو، عورت میں وہ مقناطیسی کشش ہے جو مرد کو جامد کر دیتی ہے۔ اب یہ مجھ پر منحصر ہے، مجھے اماں کی تربیت اور اپنی محبت پر بھروسہ ہے اور اللہ پر یقین۔ وہ میرے نبیل کو بھٹکنے نہیں دے گا۔“
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.