کتاب: بین کرتی آوازیں
مصنفہ: نسترن احسن فتیحی
تبصرہ نگار: اقراء یونس
……
مجھے لگتا ہے کتاب لکھنا ہنر ہے تو پڑھنا بھی ہنر ہے جیسے ساحل سمندر سے سیپ چننا. پرسکون اور خوش ہو کر تا کہ وقت کی ریت پر چند لمحوں کے لیے ہی سہی قدموں کے نشان ضرور بننے چاہیے. کتاب کو بھی پتا چلنا چاہیے کہ اسے کسی نے پڑھا تھا تا کہ وقت جب ایک فریم میں تین تصویریں رکھے تو تینوں کو فخر ہو
لکھنے والے کو، کتاب کو، پڑھنے والے کو
اور وہ کہہ سکیں کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم ایک فریم میں ہیں۔
مجموعے کا نام بہت ہی پراسرار سا لگتا ہے اور ایسا ہی پراسرار سا اس کا سرورق جس کو دیکھ کے جسم میں سرد لہر دوڑ جاتی ہے یوں لگتا ہے آنیہ ایس خان صاحبہ نے رنگوں کی زبان میں ایک مکمل افسانہ بیان کیا ہو. تخلیق قلم کی ہو یا رنگوں کی ہنر کی مہارت شاہکار بناتی ہے۔
انتساب اپنے پیاروں کے نام کرنے کے بعد صفحہ پلٹتے ہی جو الفاظ لکھے گئے ہیں ان کو پڑھتے ہی بے ساختہ داد دینے کو دل چاہا خاص طور پر یہ الفاظ:
“زندگی کی گزرگاہ پر اپنے اپنے حصوں کی کرچیاں سمیٹ کر ہم اپنا وجود زخمی اور روح روشن کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے.”
ایسی مکمل بات کہ دل خوش ہوا پڑھ کے.
فہرست میں 19 افسانے اور گیارہ افسانچے دیکھ کر لگا لمبی مسافت طے کرنا ہو گی۔
کیوں کہ میرے خیال سے دکھ جیسے تحریر ہوتے ہیں ویسے ہی پڑھنے والے پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں آپ انہیں کسی میٹھے مشروب کی طرح غٹاغٹ اپنے اندر نہیں انڈیل سکتے یہ آپ کو کافی کی طرح گھونٹ گھونٹ پینے پڑتے ہیں اور میرے سامنے اب یہ انیس افسانے نہیں کافی کے انیس کپ ہیں جو مجھے محسوس کرنے ہیں ان کی کڑواہٹ کو زندگی کے ذائقے سے ملا کر تخیل کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کرانا ہے۔ اس کی شروعات میں نے پہلے افسانے “بین کرتی آوازیں” سے کی. افسانہ میں پہلے بھی پڑھ چکی تھی اور تبصرہ لکھ چکی تھی اور یوں ہوتا ہے کہ ایک بار لکھ کر طبیعت دوسری بار پر مائل نہیں ہوتی کردار محو ہو جاتے ہیں لیکن جانے یہ افسانے کے نام کا اثر ہے یا اس کے کردار کا دکھ جو مجھے بھولا اور نہ اس سے میرا دل تنگ ہوا۔
اسی افسانے سے مجھے کتاب سے انسیت ہوئی اور سوچا جیسے اس کو لکھنے کا حق ادا کیا گیا ویسے ہی پڑھنے کا حق ادا ہونا چاہیے۔
“جب اس کے اندر یہ تصادم بڑھتا ہے تو اس کے پیٹ میں کپکپی شروع ہو جاتی ہے اور وہ اٹھ کر ٹہلنے لگتی ہے، چہرہ ست جاتا ہے اور اسے ابکائی محسوس ہونے لگتی ہے.”
حساسیت کے باعث پیدا ہونے والے تناؤ کے نتیجے میں بننے والا منظر یوں بیان کیا گیا کہ وضاحتوں اور تمہید کی ضرورت ہی نہیں رہی. افسانے کا کردار سارا یوں محسوس ہوا وہ کرداروں سے دکھی کم اور خوف زدہ زیادہ ہے ایک حساس دل کا خوف جو ہمیشہ خود کو دوسرے کردار کی جگہ سوچتا ہے خوف کہ اگر ان بین کرتی آوازوں میں اس کی آواز بھی شامل ہوئی تو کون سا دل تڑپ کر آگے بڑھے گا، کون سا ہاتھ اتنا نڈر ہو گا کہ ظلم کے خلاف قلم اٹھائے گا یا کون سی آغوش ایسی ہو گی جو مصلحتوں کے بوجھ سے آزاد ہو کر اسے راحت پہنچائے گی۔
افسانے میں سارا کی ماں کا کردار سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ماں اور وطن قبول کرنے سے انکار کریں تو انسان کیسے دربدر ہو جاتا ہے اسے کہیں خوف سے پناہ ملتی ہے نہ ہی زندگی آسیب زدہ آوازوں سے بھرے گودام سے باہر نکل پاتی ہے. اس بہترین افسانے پر ڈھیروں داد۔
…… انگلی کی پور پر گھومتا چاند:
افسانے کا نام بھرپور افسانوی رنگوں سے مزین
افسانے کی کہانی ایک نئے لیکن جانے پہچانے کردار کا دکھ. زندگی کی آخری سرحد پہ اکیلے کھڑے کردار کی بے بسی.
“دریچے اس لیے تو نہیں کھلے رکھے جاتے کہ ان سے تاریکی در آئے مگر جب باہر اندھیرا ہو تو اجالا کہاں سے اندر آئے گا.”
افسانے نے پہلے اندھیروں کی وضاحت کی ان سے بننے والے ہیولوں کی اشکال واضح کیں اور پھر خوشی اس بات پہ ہوئی کہ سوال کا جواب بھی افسانے میں ہی بیان کیا گیا.
“اجالا کہاں سے اندر آئے گا؟”
ایسے تاریک اندھیرے میں اجالا جگنو کرتے ہیں افسانے کا کردار”اماں” انہی جگنوؤں کو جلتے بجھتے دیکھتے زندگی کی رات کاٹنے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہیں یادوں کے جگنو جو اندھیرے میں ایسے روشن ہوتے ہیں کہ انسان نادان بچے کی طرح ان کے تعاقب میں بھاگتے کبھی تھک جاتا ہے کبھی مایوس ہو جاتا ہے کبھی تنہا، کبھی ان کو دوبارہ جینے کی چاہ لیے اپنے اردگرد سناٹے محسوس کرتا ہے. افسانہ سوال اٹھاتا ہے کیا سکرین روشن ہونے سے اجالا پھیل سکتا ہے؟
یا ندی کے چاند کو چھونے سے دل ٹھہر سکتا ہے؟
ان کا جواب دینے سے پہلے ہی افسانہ خاموشی اوڑھ لیتا ہے ایسی خاموشی جس میں بولنے کی چاہ رہتی ہے نہ سکت جیسے وسیع سمندر کے آخری کنارے پہ پہنچنے والا تنہا انسان اپنے پیاروں کو خود سے دور اس کی لہروں سے نبردآزما ہوتے دیکھتا رہتا ہے
خوبصورت افسانے کے لیے بہت داد
…….
یہ عجیب عورتیں:
عنوان پڑھ کے بے ساختہ مسکرانے کو دل چاہا اور پھر افسانہ پڑھا تو سوچنے لگی واقعی عورت بھی عجیب مخلوق ہے کاکروچ، چوہے کو دیکھ کر آسمان سر پر اٹھانے والی لیکن جب اسی آسمان کا حصہ اس کے سر پر رکھ دیا جاتا ہے تو خوشی خوشی برداشت کر لیتی ہے اور اس کی حفاظت کی خاطر سانپوں سے لڑ جاتی ہے
افسانے کی شروعات خواب سے ہوئی جو اتنا ہی خوابناک ہے جتنا اسے ہونا چاہیے ایک مکمل تخیل جو عجب ہی دنیا بناتا ہے ایسی دنیا جہاں رنگوں میں سیاہ رنگ واضح ہے اور اسی رنگ سے لکھا “عجیب” شروعات میں یہ لفظ بے شک خوفناک لگتا ہے لیکن پھر یہ کبھی رات کی سیاہی میں بدلتا ہے کبھی کعبہ کا غلاف تو کبھی حجر اسود ایسا مقدس کہ جو ہر سیاہی چوس لے جنت کی نشانی
افسانہ واضح کرتا ہے کہ جنت کی نشانیوں میں فقط حجر اسود ہی نہیں ماں بھی انہی نشانیوں میں سے ہے جو اتنی ہی مقدس اور قدرت کا ایسا تحفہ ہے جس کی آغوش نرم اور ڈھال سخت ہے جو اپنے بچوں کے لیے اتنے روپ بدلتی ہے کہ “عجیب” ہو جاتی ہے عجیب کہلائی جاتی ہے.
افسانے کی ایسی شاندار بنت پہ دل بہت شاد ہوا بہترین انداز عمدہ افسانہ
……
ہٹلر
افسانہ پڑھ کے مجھے لگا مجھے کچھ دیر خاموش رہنا چاہیے جانے یہ لکھنے والے قلم کے احترام میں ہے یا افسانے کے سحر کا اثر ہے. ایسی آسان فہم زبان اور ایسی روانی سے چلتے مناظر کہ کہیں رک کر سانس بحال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی. افسانے کا کردار “این فرینک” ماضی کو حال سے ملانے کا ذریعہ اور اس کو ایسی مہارت سے جوڑا کیا کہ ماضی اور حال کا فرق مٹتا ہوا محسوس ہوا. ایک ہی دکھ نے جیسے دونوں کو ایک کر دیا. جب وہ کہتی ہے
“میں سوچ رہی تھی کہ انسان اچھے دور میں کتنی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کو ناقابل برداشت سمجھتا ہے.”
انسانی سوچ کے جمود کو توڑنے والے الفاظ جو نہایت عمدگی سے ادا کیے گئے.
اگلے منظر میں بس کے مختلف افراد کی مختلف فکروں کو بیان کرتے یوں محسوس ہوتا ہے وہ توجہ دلانا چاہ رہی ہیں کہ سنو تم اپنے ان چھوٹے چھوٹے مسائل سے نکلو تو دیکھو کہیں انسانیت ایسے حالات کا شکار ہے کہ ان کا سانس لینا بھی دوبھر ہے.
“شاید وہ مجھ سے بھی خوفزدہ تھا یا شاید میری ساڑھی دیکھ کر میرے مذہب کا اندازہ لگا رہا تھا.”
شیطان نے جب سے لباس پہنا اسے بھی خوف کا نشان بنا دیا ورنہ یہ تو محض پہچان ہے قوم کی انسان کی.
افسانے میں کئی جگہ انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اتنی ترقی کے باوجود اگر انسان ظلم ختم نہ کر سکا تو اس ترقی کا مقصد کیا ہے؟
ترقی ہوئی تو بس اتنی کہ پہلے دور میں قیدی تہہ خانے میں قید سانس کی تنگی کا شکار ہوتے لیکن آج کھلے آسمان تلے وہ ایسی قید میں ہیں کہ ان کا دم گھٹتا ہے ویسے تو سارا افسانہ ہی لاجواب ہے لیکن آخری جملے نے تو مزہ دوبالا کر دیا.
“اس کی راوی کے چہرے کا پیلاپن صدیوں کا سفر کر کے اب میرے پاس کھڑے اس معصوم لڑکے کے چہرے پر نمودار ہو چکا تھا اور ہٹلر کا چہرہ جابجا پوسٹروں میں ہر سو مسکراتا ہوا نظر آ رہا تھا.”
ایک شاندار افسانہ بہت خوب
…..
کشمکش
افسانہ ایک لمحے کا…. ایک لمحہ جو فیصلے کا ہوتا ہے ہماری زندگی میں کئی ایسے لمحے آتے ہیں جو فیصلہ کن ہوتے ہیں اور ہمیں ہمارا اصل دکھا جاتے ہیں. نسترن احسن صاحبہ کی تحاریر کی سب سے خوبصورت بات مجھے یہ لگی کہ غیر ضروری تمہید ہے نہ پیچیدہ الفاظ. پورا فریم واضح اور ہر کردار اپنی کہانی میں یوں مکمل ہے کہ کہیں بھی ادھورا پن یا اضافی منظر نظر نہیں آتا. افسانے کی بنت میں دکھ افسوس رکشے والے کے پسینے کی طرح رچے بسے ہیں. چند رپوں کی خاطر ضمیر پہ ڈالا گیا بوجھ اکثر لاکھوں خرچ کرنے کے بعد بھی نہیں ہٹتا
اگر سوچا جائے تو چند رپوں کی خاطر کسی کا انسانیت سے اعتبار اٹھ جانا کوئی چھوٹی بات نہیں….. لیکن اکثر اسے چھوٹی بات ہی سمجھا جاتا ہے.
اس افسانے کی دو باتیں مجھے بے حد پسند آئیں
پہلی کہ کہیں بھی رائیٹر کی مداخلت نہیں ہوئی آخر پہ بھی نہیں لعن طعن بھی قاری پہ چھوڑ دیا گیا
دوسرا اس کا موضوع بے حد پسند آیا
بہت اعلیٰ
……
پرچھائیں
عام چیزوں کو خاص انداز سے برتا جائے تو وہ برتنے والے کی مہارت کو ظاہر کرتی ہیں ایسے ہی یہ افسانہ پڑھ کے احساس ہوا کہ کس طرح پرچھائی جیسی عام سی شے کو اپنے تخیل سے نسترن صاحبہ نے خاص الخاص بنا دیا اس کے لیے ڈھیروں داد
نیا تخیل ہمیشہ خوشی کا باعث بنتا ہے اور میں یہ خوشی محسوس کر سکتی ہوں. افسانے کا کردار بے شک سادہ ہے لیکن اس کا افسانوی رنگ بہت پختہ ہے موضوع کو ایسے پرچھائی کے گرد بنا گیا کہ واہ واہ کرنے کو دل چاہا. کہانی وہی ہے لیکن اس کا نیا پن اسے بوجھل نہیں ہونے دیتا قاری کو متوجہ رکھنے کا ہنر خوب ہے شکوؤں سے بھرا افسانہ لیکن کردار کے منہ سے ایک جملہ شکوے کا ادا نہیں کیا گیا جس نے فضا کی تازگی کو برقرار رکھا.
….
ڈائل ٹون
ہم اکثر سنتے ہیں زمانہ خراب ہے حالاں کہ ہم ہی زمانہ ہیں ڈائل ٹون بھی اسی زمانے کی کہانی ہے جسے ہم خراب کہتے ہیں. ایک ہی راہ کی طرف چلتا ریوڑ جب کسی کو مختلف راہ کی طرف جاتا دیکھتا ہے تو اس کی راہ میں ایسی ایسی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے کہ اس کی سوچ پہلے زخمی ہوتی ہے پھر مردہ ہو جاتی ہے اور پھر وہ اپنی مردہ سوچ کا ماتم کرتے اسی ماتمی جلوس میں شامل ہو جاتا ہے جو لہو لہان بھی ہوتا رہتا ہے لیکن راہ بھی نہیں بدلتا.
ایسا ہی افسانے کے کردار کے ساتھ ہوتا ہے اس افسانے میں باقی افسانوں کی نسبت افسانوی رنگ ذرا سا کم لگا لیکن روانی پہلے جیسی ہی نظر آتی ہے ہیرو کو سرخرو ہوتے دیکھنے کی چاہ میں پورا افسانہ پڑھتے اختتام پہ کردار کا دکھ اپنے دل میں محسوس کیا اور یہی قلم کی کامیابی ہے کہ وہ ہمارے اندر پلنے والے جذبوں کو سامنے لا کھڑا کرے اور ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں دقت نہ ہو کہ ہم کس قبیلے سے ہیں
اس کامیاب افسانے پہ بہت داد
……
نسل
یہ افسانہ کسی نئی دنیا سے روشناس کراتا ہے ایسی دنیا جہاں انسان، جانور کو حسرت سے دیکھتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے کوئی بھوکا انسان کسی شیر یا کتے کو مزے سے تازہ اور صاف ستھرا گوشت کھاتے دیکھے اور اپنا اور اس کا موازنہ کرے.
آہ! یہ کیسا موازنہ ہے اور اس کی تکلیف صرف بھوک سے تڑپتا پیٹ ہی سمجھ سکتا ہے. افسانے کی کہانی جدنی نامی کردار کے گرد گھومتی ہے جس کی بیوی حاملہ ہے.
جنگل کے پاس بسنے والے یہ لوگ نئی دنیا تب دیکھتے ہیں جب ایک مرا ہوا شیر ملتا ہے اور اس کی نسل بچانے کے لیے آفیسرز کا کیمپ لگایا جاتا ہے. ڈاکٹرز کی ٹیم، اچھا کھانا اور حاملہ شیرنی کے آرام کے لیے فکرمند انسان.
افسانہ بہت سے سوال سامنے رکھ کر اختتام تک جاتا ہے اور پھر نئے دکھ سے روشناس کروا کے خاموش ہو جاتا ہے
لیکن اس کی یہ خاموشی سوچنے والے دماغ کو لامتناہی سوچوں میں مبتلا کر دیتا ہے
…..
خوشبو
خوشبو بھی عجب شے ہے ایک ایسی جادوئی شے جو یادیں زندہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور ان کو دوبارہ جینے کی چاہ میں اضافہ کرتی ہے افسانے کا کردار جمنی بھی اسی حصار کی قید میں مقید نظر آتی ہے. ایک حساس ماں جس کا دل اپنی بیٹی کے بچپن اور جوانی کو اپنے سامنے ایک وقت کی روٹی کے لیے ختم ہوتے دیکھ کر کٹتا رہتا ہے. اس کی شام کے وقت تازہ روٹی کی خوشبو کی چاہ ایک انوکھی چاہ لگتی ہے لیکن اگر اسے باریک بینی سے دیکھا جائے تو لگتا ہے یہ چاہ تو عورت کی مٹی میں گوندھی جاتی ہے اسی لیے وہ ساری زندگی اپنے خاندان کے لیے پکاتے کھلاتے نہیں تھکتی. یہ نکتہ تب واضح ہوتا ہے جب جمنی کی بیٹی لڑنے جھگڑنے کے بعد بھی اس کے لیے شام کو تازہ روٹی بنانے کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے.
اس کو اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ گھر آباد رہنے کی چاہ بھی ہے جس گھر میں روز چولہا جلتا ہو اسی کو آباد کہا جاتا ہے وہی برکت اور خوشحالی کی علامت ہوتا ہے اس افسانے میں عورت کی نفسیات کو واضح کرنے کے لیے بہترین علامات کا استعمال کیا گیا ہے
احساس کی خوشبو سے جڑا بہترین افسانہ جس کی خوشبو چاروں جانب یوں پھیلتی ہے کہ اپنا حصار بنا لیتی ہے
بہت داد
……
ادراک
یہ افسانہ بھرپور افسانوی رنگوں سے مزین شروعات بہترین انداز سے ہوئی
زندگی کے دائروں سے عجب دھن بناتے آگے بڑھتا ہے اور کئی موسموں میں ڈھلنے لگتا ہے. اچانک بدلنے والے موسموں کے اثرات کیا ہوتے ہیں یہ اس افسانے کے کردار ملیحہ سے ہم نے جانا. ایک ایسی عورت جس نے ایک ستون کے سہارے اپنی ہستی مٹا ڈالی لیکن جب اچانک وہ آسمان کو چھوتا نظر آنے والا ستون دھواں بن کر اوجھل ہوا تو وہ ٹھٹھک کر منجمد ہو کر رہ گئی. ہجر میں راکھ ہوئی تو اس میں چنگاری ممتا کی آنکھ نے لگائی اور پھر وہ نئے سرے سے یوں تخلیق ہوئی کہ اسے کسی ستون کسی سہارے کی ضرورت ہی نہ رہی.
افسانہ لکھنے کا انداز بالکل سردیوں کی دھوپ میں ہونے والی بارش جیسا ہے جو مختلف رنگ بکھیرتا سردی کا احساس جگاتا ہے لیکن ایسے مناظر بناتا ہے کہ دیکھتے رہنے کو جی چاہے.
خاص طور پر اختتام سے کچھ پہلے خونی رشتوں کی کی گئی وضاحت میں نے اسے کئی بار پڑھا بار بار پڑھا.
“ہم نے ان سے بالکل یہی کہا کہ اب آپ ہمارے لیے صرف ہمارے شجروں میں زندہ ہی اور یہ آپ کی ہی چوائس تھی.”
ایسا بہترین اور مکمل جواب جس میں ادب کا دائرہ ہے جس میں بھرپور افسانوی رنگ ہے بہت لطف دیا اس جواب نے
بہت خوب
…..
الیکٹروڈائنامک آلہ پر رکھے خواب
کہتے ہیں خواب تو خواب ہوتے ہیں ان کی اڑان بہت وسیع ہوتی ہے لیکن یہ افسانچہ ایک نئی سوچ سامنے رکھتا ہے یہ سوچ کہ خوابوں کی وسعت بھی زمین کی وسعت سے جڑی ہے سوچ کی وسعت سے جڑی ہے
ایک وقت کی روٹی کی قید میں جکڑا ذہن کبھی چاند ستاروں کے خواب نہیں دیکھتا
کمال افسانچہ بہت داد
….
پوت کے پاؤں
سیاستدان بننے کے سارے گر بتاتا ہوا ہوا افسانچہ جسے پڑھ کے بے ساختہ مسکراہٹ آ جاتی ہے
اختتام طنز و مزاح کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے
بہت خوب
…..
خودکلامی
آہا کیا ہی خوب اور جاندار خودکلامی ہے مختصر جامع اور مکمل
شروعات سے اختتام تک مکمل لیکن مزید پڑھنے کی چاہ کو بڑھاتی ہوئی
مجھے اس سے اپنی ہی لکھی بات یاد آ گئی جو کسی کی بھی مرنے کی خبر سن کر میرے ذہن میں آتی ہے کہ:
“خدا کرے میرے مرنے کے چند دن بعد تک کوئی نیا واقعہ رونما نہ ہو کیوں کہ نیا واقعہ مرنے کی خبر کو یوں مٹا دیتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو.”
مجھے لگا اسی خوف اسی دکھ کو افسانچے میں ڈھال دیا گیا ہے
بہت اعلیٰ شاندار
……
تیزاب
سوچ کی بھول بھلیوں میں لیے گھومتا ہوا افسانچہ
جو تکلیف کے دوہرے پرتوں میں چھپائے گئے ایک ایسے فقرے کی تکرار کرتا اختتام کو پہنچتا ہے جسے زندگی کے تجربات کو جھیلنے والے شعوری و لاشعوری طور پر انسان کے دماغ میں بٹھا جاتے ہیں
بہت ہی کمال افسانچہ
……
مجموعی طور پر اگر کتاب کی بات کی جائے تو اس کو پڑھ کے میں نے وہی لطف حاصل کیا جس کے لیے میں نے اتنا لمبا انتظار کیا اور میرا انتظار رائیگاں نہیں گیا.
ایک بہترین کتاب جو سوچ کے کئی نئی در وا کرتی ہے اور اس کو ایک مختلف زاویہ دیتی ہے. دعا ہے اللہ پاک قلم کو وسعتوں سے نوازے اور مزید عطا فرمائے آمین ثم آمین
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.