تبصرہ : پھولوں کی زباں، قانتہ رابعہ

پھولوں کی زباں، احمد حاطب صدیقی
پھولوں کی زباں، احمد حاطب صدیقی
پھولوں کی زباں، احمد حاطب صدیقی

تبصرہ : پھولوں کی زباں، قانتہ رابعہ

بسمہ تعالی

کتاب ۔۔پھولوں کی زباں
کالم نگار ۔۔احمد حاطب صدیقی(ابو نثر)
ناشر۔۔۔پریس فار پیس پبلیکیشنز
قیمت۔۔۔ 1600
شاعر نے کہا تھا
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے
اس لئے نہیں کہ اردو زبان مشکل ہے بلکہ اردو دنیا کی خوبصورت ترین زبان ہے اور کہنے والے کہہ گئے اقبال  ہی ہمیشہ دیر سے نہیں آتا ہو حسن اور خوبصورتی بھی دیر سے ملتی ہے۔
اس کتاب کو جسے ” پرمزاح کالموں کا مجموعہ ” کہہ کر شائع کیا گیا ہے آنے والے وقت میں محقق اس پر مقالہ لکھ سکتے ہیں کہ یہ وہ کالم ہیں جن میں اردو زبان سے محبت کا حق باتوں ہی باتوں میں، تہہ تک پہنچ کر ؛ گرامر کی رو سے ، اس لفظ کی اصلی نسلی تاریخ تک پہنچ کر ادا کیا گیا ہے تو آیا اس کے لئے کالموں کی اس کتاب کو جس میں اردو ادب کی تمام اصناف،( انشائیہ، کالم ، مضمون، خاکہ ، کہانی وغیرہ وغیرہ )جمع ہے  کے لئے کون سا لفظ استعمال ہونا چاہئیے ؟ایک ٹکٹ میں دو مزے کی اصطلاح پرانی ہوئی اب تو ایک کالم میں دھنک کے ساتوں رنگ موجود ہیں۔
یہ وہ کتاب ہے جسے کوئی مائی کا لعل ہاتھ میں لے کر ایک ہی نشست میں ختم کرنے کا دعوٰی نہیں کرسکتا بلکہ یہ کتاب
زبان دانی اور زبان فہمی کے بارے میں علم وادب کا نادر خزانہ ہے ۔
کبھی کہتے تھے خبر لیجئیے دہن بگڑا اور لامحالہ کسی بھی شخصیت کی پہچان اس کی زبان دانی یعنی گفتگو سے ہوتی تھی۔  گھروں میں کام کرنے والے ملازمین تک کی زبان شستہ اور کوثروتسنیم سے دھلی ہوا کرتی تھی لیکن آہستہ آہستہ روبہ زوال ہونے والی چیزوں میں سرفہرست اردو زبان  بن گئی اور بول چال میں اردو کے فقرے میں ایک لفظ اردو کا اور باقی سب دیگر زبان کے شامل ہونے لگے بلکہ وہ وقت بھی آگیا کہ اردو بولنے میں نکمے پن کو ماڈرن ازم یعنی جدیدیت سمجھا جانے لگا ۔
جناب اطہر ہاشمی مرحوم نے اپنی زندگی میں اردو زبان اور بولنے والوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے رکھا ۔جسارت میں ان کے ہفتہ وار کالم ” خبر لیجئیے زبان بگڑی” کئی سال شائع ہوتا رہا ،زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ان کے کالم سے اپنی زبان کی اصلاح کرتے تھے ۔اظہر ہاشمی صاحب کی وفات کے بعد یہ کمی سب کو محسوس ہوئی بالآخر قدرت نے جناب احمد حاطب صدیقی المعروف  ابو نثر کو بگڑی زبان اور دہن کی اصلاح کا بھاری فریضہ سونپا۔
کہنے کو یہ فکاہیہ کالم ہیں لیکن صحیح معنوں میں اردو سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ہر ہفتے انمول تحفہ ہے جن کے ذریعے
ہر معروف اور غیر معروف محاورے ، ضرب الامثال، اشعار ، روزمرہ اور کبھی کبھار بولے جانے والے الفاظ کا تیا پانچہ کیا جاتا ہے۔ آپ چاہیں تو روزمرہ زبان میں بنئیے ادھیڑنا  بھی کہہ سکتے ہیں۔
ابو نثر صاحب کے پاس گفتگو کرتے ہوئے ہر لفظ کو حلق سے برآمد کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں یہ گرفت میں آکر اگلے کالم کی زینت نہ بن جائے ۔
قارئین یہی نہیں ہماری عام بول چال میں بہت سے الفاظ غلط العام ہوتے ہیں ان کی تصحیح، کچھ کے بارے میں یہی فیصلہ نہیں ہوپاتا کہ ان کی درست ادائیگی ہے کیا ؟ مثال کے طور پر کان کن میں کن  لفظ کاف پر پیش کے ساتھ ہے یا زبر کے ساتھ اور یہ سب ہر کالم میں وہ گرامر کی رو سے اور فارسی عربی اردو ادب پر نظر رکھتے ہوئے تینوں زبانوں کی لغات کھنگال کر کرتے ہیں ۔
قارئین ! اس کتاب کو پڑھ کر
قاری کو اردو زبان کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے بہانے بہانے سے کالم نویس جس لفظ کو موضوع سخن بناتے ہیں اس کا پورا احاطہ کر کے پڑھنے والے کو شانت کردیتے ہیں۔
یہ صرف اردو زبان اور اردو بولنے والوں کی اصلاح کے لئے نہیں لکھی گئی بلکہ اس میں اس زبان کے بگڑنے کی وجوہات اسباب اور نتائج پر  بھی لب کشائی(بذریعہ قلم) کی گئی ہے ۔
رومن رسم الخط ہو یا سوشل میڈیا پر تلفظ کی خرابی ،اردو اصطلاحات کا بدیسی زبان میں عام ہونا، مثال کے طور پر ٹی وی پر خبرنامہ کو نیوز بلیٹن، شہ سرخیوں کو ہیڈ لائن ،باورچی خانے کو کچن میں بولنا ۔۔۔کتاب میں اس کا بھی گاہے بگاہے جائزہ شامل ہے ۔
بہت سے کالموں میں چلبلا انداز ؛ ترنگ جواب دینا بات سے بات نکالنا اور متعلقہ لفظ کے بارے میں مصدر تک رسائی کے لئے اس حد تک عربی اردو فارسی لغات میں غوطہ زن ہونا اور محاورے اشعار منتخب کرکے قاری کو پیش کرنا کہ بلا مبالغہ ایک مرتبہ اسے پڑھنے والا بھی محقق کہلانے کے قابل ہو سکتا ہے ۔
مثال کے طور پر سال کو برس کہتے ہیں۔۔۔لیکن برس۔۔برسی ۔۔برسات اب ہر وہ لفظ جس میں ب ر س موجود ہے وہ قاری کی معلومات میں اضافہ کے لئے موجود ہے ۔
ان کالموں کی اضافی خوبی یہ بھی ہے کہ ان کا آغاز چونکانے والے جملوں سے ہوتا ہے  ۔
کتاب میں بہت سے فقرے کاٹ دار ہیں ۔عوام کو کوئی مونث سمجھتا ہے تو کوئی بولنے میں عوام کو مذکر گردانتا ہے کالم کا عنوان ہے
عوام مخنث ہوگئے۔۔۔۔
بلا تبصرہ
قصہ مختصر جنہیں اردو سے پیار ہے ، جنہیں اب بھی تلفظ کی درست ادائیگی کی خواہش ہے ، جو اب بھی زبان فہمی کی چاہت رکھتے ہیں، جنہیں اب بھی اردو کی تاریخ سے دلچسپی ہے ان کے لئے یہ کتاب پرائمری سے پی ایچ ڈی تک کا سفر ہے ۔
ایسے ہی تو پیش لفظ میں ڈاکٹر عزیر ابن الحسن نے نہیں لکھ دیا۔
اس زمانے میں اگر آپ کو نرمی محبت اور مٹھاس کی چاہ ہو تو احمد حاطب صدیقی کو دیکھنے سننے اور ملنے سے آپ کی چاہ کو چاہت میں بدلتے دیر نہیں لگے گی۔
ہر کالم شاہکار ہے ۔
ہر موضوع بے مثال ہے ۔
اہل علم و دانش کے لئے تحفہ نایاب ہے کتاب کا نام اگر دلکش ہے تو کتاب کا نفس مضمون مسحور کن ۔
دو چار کالم پڑھ کر ہی قاری کو اپنی علمی اوقات کا پتہ چل جاتا ہے ۔اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے اوران کی  اصلاح کے لئے یہ کتاب پھولوں کی زبان ہی نہیں شفاف آئینہ ہے ۔ہم ہمیشہ جسے ہمشیرہ پڑھتے رہے کتاب نے بتایا کہ ہمشیرہ کوئی لفظ نہیں ہم شیر کافی ہے ۔
یہ اور بات ہے کہ اس شیر کا شیر ، شیروشکر ؛ شیرینی میں ڈبکی لگا کر نتیجے تک پہنچایا جاتا ہے خواہ ، درد بھی کوئی خاتون ہے میں درد شقیقہ ہو یا وزیر اعظم کے دربار میں توتی کی آواز۔
میں اس کتاب کو بجا طور پر بہت بڑا سرمایہ قرار دیتی ہوں۔ شکر ہے کہ  جناب احمد حاطب صدیقی کا دم غنیمت ہے کہ  ہماری اردو دانی کے سارے کس بل نکلتے ہی رہتے ہیں ۔
میں فاضل مصنف، پی ایف پی کی ٹیم اور پروفیسر ظفر اقبال صاحب کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔یہ وہ کتاب ہے جسے ” اجتماعی مطالعہ ” میں پڑھنا زیادہ مفید ہوسکتا ہے اور اس کے لئے اسے تمام سرکاری تعلیمی اور غیر تعلیمی اداروں میں لازمی قرار دیا جائے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.