تبصرہ نگار: ممتاز عارف، ریڈیو پاکستان’ سرگودھا
اردو شاعری میں جب کسی نئی صنف کو متعارف کروایا گیا تو اس کی قبولیت، مقبولیت اور بقاء کےلیے انتھک اور طویل جدوجہد کرنا پڑی اور اسے پروان چڑھانے کیلئے صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا۔ آزاد نظم کو ہی لے لیجیے۔
جب اس کا آغاز ہوا تو اسے بھی ناقدین فن کی طرف سے تنبیہ کا سامنا ہوا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آزاد نظم نا صرف معتبر ہوتی چلی گئی بلکہ شائقین ادب کی ضرورت بھی بن گئی۔ اردو شاعری میں آزاد غزل کا بھی تجربہ کیا گیا تھا لیکن وہ اپنی جگہ نہ بنا سکی۔ نثری نظم کو بھی شروع شروع میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ادب کے نقادوں نے اسے صنفِ شاعری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر نظیر آغا بھی جو کہ ادب کے دو بڑے متحارب گروپوں کے سربراہ تھے ان کی معاصرانہ چشمک کی وجہ سے ادبی فضا اکثر مکدر رہتی تھی۔ نثری نظم کو صنف شاعری تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا تو اسے نثر لطیف کا نام دے کر کسی حد تک ادبی حیثیت دینے پر تیار ہو ہی گئے تھے لیکن احمد ندیم قاسمی آخری دم تک نثری نظم کو صنف شاعری تسلیم کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا نثری نظم کے لکھاری ثابت قدمی سے آگے بڑھتے رہے۔ یوں نثری نظم فکری اور فنی اعتبار سے کامیابی کی طرف گامزن رہی جب کچھ معتبر اور نامور ادبی لکھاریوں نے نثری نظم کو چھونا شروع کر دیا تو یہ معتبر ہوتی چلی گئی۔
گزشتہ چند دہائیوں میں نثری نظم نے سنگِ ہائے میل عبور کر کے اور کئیں حجتیں بھر کے نہ صرف اپنی حیثیت و اہمیت کو تسلیم کروایا ہے بلکہ قبولیت کے اس مقام تک پہنچ چکی ہے جہاں اس کے وجود کو نہ تو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی اسے کوئی چیلنج کر سکتا ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد نثری نظم کہنے والوں کی ایک ایسی کہکشاں وجود میں آ چکی ہے جسے ناقدین ادب نظر انداز نہیں کر سکتے۔
شاعری جذبہ و خیال کی تصویر کشی اور ان کو عطر کشید کرنے کا نام ہے۔ اگر اس میں فکری و گہرائی کی مہک شامل ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ، نثری نظم اپنے لکھاریوں کی فنی ریاضت کی بدولت جذبہ و خیال کی فراوانی، فکری گہرائی اور احساس کی تپش سمیت معمور ہو چکی ہے۔ نثری نظم اب صرف بڑے بڑے شہروں تک ہی محدود نہیں بلکہ مضافات تک بھی پھیل چکی ہے نئے اور پرانے شاعروں اور شاعرات میں نثری نظم کہنے کا رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔
نثری نظم کی اس کہکشاں میں ایک اور ستارا ابھر کر ہمارے سامنے آیا ہے۔ جس کا نام منظم حیات ہے۔
منظم حیات کا تعلق بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی نگری پاک پتن شریف سے ہے۔ منظم حیات کالم نگار بھی ہیں اور کہانی کار بھی۔ ادب سے لگاؤ انہیں بچپن ہی سے تھا۔ میڑک سے لکھنا شروع کیا۔ تخلیق کا چشمہ پھوٹا تو الفاظ نثر اور نظم کی صورت میں کاغذوں کو سیراب کرنے لگے۔ ایم اے اردو کیا تو تحریر وتخلیق کی شمع کی لو اور تیز ہو گئی۔ اخبارات وجرائد میں باقاعدہ لکھنا شروع کیا۔ اردو زبان و ادب کا شوق معلمی کے پیشے تک لے گیا۔ اسلامیات سے روحانی لگاؤ نے درس نظامی کی تکمیل کے سفر پر گامزن کر دیا۔ قلم کی رفتار تیز ہوئی تو “خود سے رب تک” اور “دست دعا” کے نام سے دو کتابیں مرتب کروا دیں۔ شاعری کے جہاں میں قدم رکھا تو نثری نظم کے سحر نے انہیں جکڑ لیا۔ نثری نظم کی دیوی ان پر اس قدر مہربان ہوئی کہ نظمیں ان پر قطار در قطار اترنے لگیں۔
میں نے جب منظم حیات کی چند نظموں کا مطالعہ کیا تو مجھے تازگی کا احساس ہوا۔ ایک نئے ذائقے اور نئی لذت سے ہمکنار ہوا۔ کوئی بھی اچھا نظم نگار لفظوں سے مناظر پینٹ کرتا ہے اور کاغذ پر تصویریں ابھارتا ہے لیکن ان مناظر اور تصویروں کے عقب میں ایک خیال جھلملا رہا ہوتا ہے۔
بعض قارئین محض مناظر اور تصویروں سے لفظ کشید کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک ذہین قاری جب اس خیال کی جھلملاہٹ کے لمس کو محسوس کرتا ہے تو لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ منظم حیات کی نظمیں دونوں سطحوں پر حظ فراہم کرتی ہیں۔ نظم کی رومانی فضا قاری کو فوری طور پر اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ “محبت” ان کی نظموں کا بنیادی حوالہ ہے۔ نظموں میں استعارات و تشبیہات اور علامتوں کا اِستعمال بڑی خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ منظم حیات کے ہاں ماضی کی تلخ و شیریں واقعات و مناظر کی تصویر کشی کا عمل اور بہتے دنوں کو دہرانے کا رجحان پایا جاتا ہے پیکر تراشی اور تصویر کشی کا یہ عمل جہاں منظم حیات کی نظموں کو مصورانہ رنگ عطا کرتا ہے وہاں معانی کی ترسیل میں معاون بھی ثابت ہوتا ہے۔
کسی بھی خیال کو شعری پیکر عطا کرنے کیلئے لفظوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ لفظوں کا انتخاب ہی خیال کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ منظم حیات نے لفظوں کے چناؤ میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔ ان کی نظمیں جذبہ و خیال کا عملی نمونہ ہیں۔ جب الفاظ نظم کا روپ دھار کر اور ایک خوبصورت خیال کی خوشبو سے معمور ہو کر کاغذ پر بکھرتے ہیں تو ایک مترنم آبشار کی طرح خود بخود دل و دماغ میں اترنے لگتے ہیں اور پھر خیال کی خوشبو آہستہ آہستہ رگ وپے میں سرائیت کرنے لگتی ہے۔
منظم حیات کی زندگی میں ان کی نظموں میں ان کی ذاتی زندگی کے دکھوں کا عکس نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ انہیں اپنی امنگوں ، خوابوں، حسرتوں، اور ارمانوں کے بکھر جانے کا دُکھ ہر وقت اداس اور مضمحل رکھتا ہے۔ وہ زندگی سے نالاں ضرور ہیں۔ بیزار نہیں، ایک آس اور امید کا دیا اب بھی ان کے دل کے تہہ خانے میں روشن ہے۔
نظم کیلئے تھوڑا سا ابہام ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن غیر ضروری اور زیادہ ابہام نظم کی تاثیر کو کم ہی نہیں ختم کر دیتا ہے۔ منظم حیات نے بھی اپنی نظموں میں ابہام کی چھوٹی چھوٹی گرہیں رکھی ہیں جو ادب کے ذہین قاری پر با آسانی کھل جاتی ہیں۔ جونہی یہ گرہیں کھلنا شروع ہوتی ہیں تو معانی کے در وا ہونے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے معانی کی مہکار قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ پہلی قرأت ہی میں قاری پر ابلاغ واضح ہو جاتا ہے اور وہ دیر تک اس کے سحر میں کھویا رہتا ہے۔ منظم حیات کے ہاں ماضی کے یادگار لمحوں میں کھوئے رہنے کا رجحان کثرت سے ملتا ہے۔ ان کا اسلوب بڑا دلکش ہے۔ وہ تلخ سے تلخ یاد کو بھی نظم میں سموتے وقت شائستگی کا دامن نہیں چھوڑتیں۔ ان کی نظموں میں ایک سبھاؤ بھی ہے اور بہاؤ بھی انہیں زمانے سے شکوے شکایات تو ہیں لیکن ان پر احتجاج کرنا وہ اپنی انا کی توہین سمجھتی ہیں۔
کسی کو کھو دینے کا غم اگرچہ انہیں ملول رکھتا ہے لیکن وہ گلاب کی طرح کانٹوں میں بھی مسکرانا جانتی ہیں۔ ان کی نظموں میں کرب و درد بھی ہے اور سوز وگداز بھی۔ محبت کے کومل جذبوں کا اظہار بہت عمدگی سے کیا گیا ہے۔ ان کی ذاتی زندگی کے المیے ان کی نظموں کا عنوان بن گئے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ منظم حیات دوسروں کے دکھوں سے بالکل بےخبر ہیں۔ اصل میں وہ ہر حساس شاعر کی طرح اپنے اردگرد کے ماحول پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جب ان کی نظر دوسروں کے دکھوں پر پڑتی ہے تو انہیں اپنا دکھ بھول جاتا ہے اور وہ دوسروں کے غم کو اپنے اندر جذب کرتیں ہیں تو پھر ان کا اور دوسروں کا دکھ باہم مل کر ایک نئے غم کو جنم دیتا ہے۔ یوں دوسروں کا غم بھی منظم حیات کا اپنا غم بن جاتا ہے۔
منظم حیات نے زندگی کی ناپائیداری اور بے مقصدیت پر آنسو بہائے ہیں تو منفی انسانی و معاشرتی رویوں اور ناہمواریوں کا رونا بھی رویا ہے۔ زندگی کی بے مقصدیت اور منفی رویوں نے ان کی زندگی میں جو زہر گھولا ہے۔ اس سے وہ زیادہ تر اضمحلال کی کیفیت سے دوچار رہتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اچھے دنوں کی آس پر زندگی کے سفر میں رواں دواں ہیں۔ تاہم ان کے اندر کا دکھ اور غم حزن و ملال کی صورت میں ان کی نظموں سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ ہر انسان کی طرح چھوٹی چھوٹی خوشیاں جگنوؤں کی طرح ان کی زندگی میں جھلملا رہی ہیں۔ لیکن ناکام حسرت کی نوحہ خوانی اس قدر محو ہے کہ انہیں ان جگنوؤں کی موجودگی کا بالکل احساس نہیں ہوتا۔ وہ موم بتی کی طرح ہر وقت سلگتی رہتی ہیں۔ اگرچہ ان کی حسرتوں کا محل جل کر خاکستر ہو چکا ہے۔ لیکن راکھ کے اس ڈھیر میں آس اور امید کی چنگاریاں اب بھی باقی ہیں۔ بے بسی کا دکھ اور تنہائی کا احساس ان کی نظموں میں بھر پور انداز میں جھلملا رہا ہے۔ دوسروں کے تلخ رویوں نے ان کی زندگی میں جو تلخیاں بھر دی ہیں۔ ان کا عکس ان کی نظموں میں جھلکتا ہے۔ مجھے امید ہے منظم حیات کی نظموں کو نثری نظم کی دنیا میں ایک خوبصورت اضافہ تصور کیا جائے گا۔
میں منظم حیات کو دنیائے ادب کی نثری نظم کی شمع روشن کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.