بسمہ تعالٰی
نام کتاب۔۔کھلی آنکھوں کا خواب
( سفرنامہ عراق)
مصنفہ ۔۔۔نصرت نسیم
پبلشرز۔۔شعیب سنز۔۔جی ٹی روڈ مینگورہ سوات
ڈسٹری بیوٹرز۔۔۔پریس فار پیس پبلیکیشنز
قیمت۔۔700 روپے
صفحات۔۔136
شاعر نے شکوہ کیا تھا۔
نگری نگری پھرا مسافر
گھر کا رستہ بھول گیا
ایک راسخ العقیدہ مسلمان کا دائمی ٹھکانہ صرف آخرت کا گھر ہے اور مسافر ساری دنیا بھی دس مرتبہ گھوم لے اسے یہ مسافرت آخرت والے گھر کی یاد دلاتی ہے۔
محترمہ نصرت نسیم قلم اور ادب کے حوالے سے اب بہت معروف اور مستند نام ہے۔ سوشل میڈیا کے اکثر گروپس میں ان کی ادبی کاوشیں اور تقریبات کاچرچا رہتا ہے۔
اس سے پہلے وہ ادب کی مختلف اقسام پر اپنی قیمتی تخلیقات کتب کی صورت میں قارئین کو ہدیہ کرچکی ہیں۔
ان کے سفرنامے سے قبل ان کی آپ بیتی “بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں اور ” کہکشاں ہے میرے خوابوں کی، “بہت پسند کی جاچکی ہیں۔زیر نظر کتاب عراق کے مقدس مقامات کی زیارت کی روداد ہے جس کا سرورق بہت جاذب نظر ہے۔
کتاب کے پیش لفظ کے طور پر اس میں محترم شجاعت علی راہی ، محترم نسیم سحر، محترم جبار مرزا محترم ڈاکٹر نثار ترابی کے علاوہ فضل ربی راہی کی گراں قدر آراء شامل ہیں۔
سب نے ہی اس دلچسپ روداد کا عرق ریزی سے مطالعہ کرکے قیمتی الفاظ سپرد قلم کیے ہیں۔
کتاب میں ان تمام مقدس مقامات کی خوبصورت تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں جن میں در کاظمین یعنی امام موسی کاظم اور امام نقی کا مزار ،امام ابو حنیفہ ، شیخ عبدالقادر جیلانی، حسن بصری ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جائے شہادت کوفہ کی مساجد وغیرہ شامل ہیں۔
اہل بیت سے محبت ہر مسلمان کے لئے جزو ایمان ہے اور بطور خاص جب امام عالی مقام ان کے حالات زندگی اور ان کی شہادت کا تزکرہ ہو تو کون سا مسلمان ہے جس کی آنکھ نم نہ ہو۔
جناب نسیم سحر نے اسے روزنامچہ قرار دیا ہے ۔میں سمجھتی ہوں سفرنامہ روزنامچہ ہی ہوتا ہے۔ مسافر کے مشاہدے اور تجربات کا۔
اگر ساتھ کے ساتھ نہ لکھا جائے تو لکھتے ہوئے جذبات اور احساسات فرق ہوجاتے ہیں ۔کچھ چیزیں پیچھے چلی جاتی ہیں کچھ کا سیاق و سباق بھول جاتا ہے ۔اس لئے بہترین سفرنامہ وہی ہےجو ” فریش مشاہدے” کی بنیاد پر لکھا جائے۔
محترمہ نصرت نسیم مجھے ہمیشہ دھیمے اور میٹھے لہجے کی مصنفہ محسوس ہوتی تھیں ۔س سفر نامے میں حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ وہ میٹھا بہت کھاتی ہیں۔ پردیس میں سوائے میٹھے کے کم چیزوں پر ان کی نگاہ انتخاب ٹہری۔
اسی لئے ان کے لفظوں میں شیرینی ٹپکتی ہے۔
سفرنامہ بہت ہلکا پھلکا اور دلچسپ انداز میں متعلقہ شخصیات اور مقامات کے بارے میں معلومات کا ذخیرہ لیےہوئے ہے۔
اللہ انہیں اور نسیم بھائی کو سلامت رکھے وگرنہ جب گئے گوڈے جواب دے جائیں۔ دل میں تین سٹنٹ ڈالے گئے ہوں تو سفر کا سوچ کر ہی خون خشک ہوتا ہے ۔میں ان دونوں میاں بیوی کو اصلی اور نسلی سیاح قرار دوں گی جو بزرگی اور بیماری کو خاطر میں نہیں لائے اور کوفہ بصرہ بغداد سمیت ڈھیر سارے شہروں میں گئے۔
اس کا مطلب ہے انہیں ان ہستیوں سے اتنی زیادہ محبت ہے کہ وہ کھلی آنکھوں سے وہاں کی زیارت کے خواب کی تعبیر کے لئے روانہ ہوئیں۔ جبار مرزا صاحب نے صحیح نشاندہی کی کہ یہ ایک فرقے اور مسلکوں سے بالا سچی مسلمان معلمہ کا سفرنامہ ہے۔
( اس میں کوئی شک نہیں)
فلائی بغداد کی پرواز سے عراق جاتے ہوئے وہ لکھتی ہیں۔
۔””ائرپورٹ اور ریلوے سٹیشن ہمیشہ سے مجھے زندگی اور موت کا استعارہ لگتے ہیں
یہ ایک پکی مومنہ ہی لکھ سکتی ہے۔
کتاب کا آغاز وہ اپنے بچپن میں اہل بیت کی محبت اور محرم کی مجالس اوربانٹی جانے والی نذر نیاز سے کرتی ہیں۔ ان کا عراق میں پہلا پڑاو نجف اشرف ہے۔
نجف اشرف اور وہاں کے مقامی لوگوں کا ذکر وہ بہت احترام سے کرتی ہیں ۔کیوں نہ کریں ان کے بقول وہاں کے لوگ ڈر اور دل آنے والوں کے لئے کھلے رکھتے ہیں۔ حسب استطاعت اشیائے خوردونوش فراہم کرتے ہیں۔
کتاب کا اہم باب کربلائے معلی کی زیارت کرتے ہوئے ان کے جذبات کا اظہار ہے۔
صدیوں سال پہلے کی تاریخی مسافرت بھی جاری ہے یعنی ماضی اور حال کا یک بیک وقت سفر اوربار بار منقبت کے اشعار قاری کے دل کو گداز کرتے ہین بالخصوص حضرت عباس علمدار کے روضہ اقدس ، امام عالی مقام کے روضہ پر حاضری کا احوال بہت دلچسپ ہے۔ ان دونوں کے روضہ میں فاصلہ بس صفا مروہ کی سعی کے ایک چکر کا ہے
سفر نامے کی دلچسپ بات جہاں پر وہ جاتی ہیں بنیادی معلومات ضرور دیتی ہیں۔ اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا مجھے بھی سفرنامہ سے ہی پتہ چلا۔
مثال کے طور پر مذبح حسین کے نام سے کربلا کا وہ حصہ جہاں حضرت حسین کو حالت سجدہ میں شہید کیا گیا ،سرخ رنگ کی روشنی سے خون کا تاثر دیتا ہے۔
اس کے بعد وادی سلام کا ذکر جس کا رقبہ چھ کلو میٹر پر محیط ہے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔ یہ قبرستان ایک ہزار چار سو پچاسی ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہے۔
یونیسکو نے اسے ورلڈ ہیری ٹیج سائٹس میں شامل کیا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے روضہ کی وجہ سے نجف اشرف کو اہمیت حاصل ہے۔
مجھے قطعی معلوم نہیں تھا کہ اس علاقے کی فضیلت حضرت نوح سے متعلقہ اس پہاڑ کی وجہ سے بھی ہےجس پر ان کے بیٹے نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے چڑھنے کو ترجیح دی تھی۔
نجف کربلا سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
جف عربی میں خشک کو کہتے ہیں طوفان نوح کیسے جو سمندر سا پانی تھا اس کے خشک ہونے پر اسے نے جف یعنی خشک سمندر کہا جانے لگا۔ مصنفہ جہاں بھی گئی تاریخ سے بھر پور فیض اٹھاتے ہوئے گئیں خوہ کربلا ہو یا بغداد۔ کوفہ کے متعلق لکھتی ہیں یہ عربوں کا سراللہ کا نیزہ اور ایمان کا خزانہ ہے۔ باب العلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے روضہ پر حاضری بھی ان کی عقیدت اور محبت کی لازوال داستان ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ شہر بغداد کا تعارف بھی بہت دلچسپ ہے۔
کربلا سے بغداد ایک ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر ہے علم و فضل کا گہوارہ، عباسی خلفاء کا مسکن ابو حنیفہ اور امام حنبل بہلول دانا سمیت ڈھیروں نام۔
داستان در داستان۔
الف لیلی کی داستان ہے تو ہلاکو اور چنگیز خاں بھی یہیں ظلم کی داستان چھوڑ گئے۔
عبدالقادر جیلانی، جنید بغدادی سب اسی خطے سے تعلق رکھتے تھے۔
دجلہ و فرات کا عراق۔
اور فرات کا تو مطلب ہی بہتا ہوا پانی ہے۔
لکھتی ہیں یہ بہشتی دریا ہے۔
نصرت نے صرف مقدس مقامات پر ہی نہیں لکھا بلکہ وہاں کی شادی میں شرکت م،غربی تہذیب کے اثرات اورعراقی تمدن خوردونوش ہر چیز کا مخصوص انداز میں تزکرہ کرتی ہیں ۔جہاں جاتی ہیں کھجوروں ٹافیوں اور چاکلیٹس سے تواضع ہوتی ہے۔
اصل میں یہ سفرنامہ ہے ہی محبتوں سے گندھی تحریر پر مشتمل۔
جو انہیں اپنے اللہ سے ہے۔
اپنے نبی سے ہے۔
ان کی آل اولاد اور اہل بیت سے ہے۔
اولیاء سے ہے۔
یہ پڑھے جانے اور پڑھائے جانے کے قابل ہے ۔یں انہیں اس کی اشاعت پر تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔خدا کرے ان کا قلم ہمیشہ اسی طرح شیرینی لئے رواں دواں رہے۔
قانتہ رابعہ
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.