ثناء ادریس
” چل شاداں ! آج بڑا دل کر رہا فلم دیکھنے کو ۔ ” غفور نے لاڈ سے بیوی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا جو اس نے ایک جھٹکے سے چھڑا لیا ۔
” یہ سب باتیں بھرے پیٹ سے اچھی لگتی ہیں ۔ خالی پیٹ دوزخ ہوتا ہے ۔ جہاں نہ محبت کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ عیاشیوں کی ۔ ” شاداں بھی کسی اور ہی موڈ میں تھی ۔
پر غفور نے سوچ لیا تھا ۔ آج کچھ بھی ہو جائے وہ شاداں کے ساتھ فلم دیکھنے ضرور جائے گا ۔ شادی کے شروع دنوں میں دونوں نے خوب موج مستی کی ۔ گردشِ وقت نے ان سے زندگی کی رعنائیاں تو چھینی مگر ساتھ ساتھ آپسی محبت کا بھی فقدان ہو گیا ۔
” او کج نئی ہوتا شاداں ۔ میرا ایک دوست ہے بلیک میں ٹکٹ دیتا ہے پہلے شو کی ۔ نکڑ والے سنیما میں نئی فلم لگی ہے ۔ قسمیں بڑا دل تیرے ساتھ دیکھنے کو ۔” غفور نے اسے منانے کی کوشش کی ۔
” دیکھ غفور ! مہینے کی آخری تاریخیں چل رہیں ۔ چولہا چوکھا مشکل ہوا پڑا ۔ ایک وقت کھا لو تو دوجے وقت کھانا ملے گا بھی کہ نہیں ۔ اور اس پہ اماں !!! ” بستر کی چادر سیدھی کرتی شاداں نے تیز تیز ہاتھ چلاتے کہا ۔
” اماں کو میں دیکھ لوں گا ۔ بس تو تیار رہنا ۔ باقی مجھ پہ چھوڑ دے ۔ اپنا دوست ہے ادھار چلتا ہے ۔ ” یہ کہہ کر غفور کمرے سے باہر نکل گیا ۔ اور شاداں منہ بسورے باورچی خانے کی جانب چل دی ۔ جہاں آلو ابل رہے تھے ۔
شاداں اور غفور کی شادی کو سات سال ہونے کو تھے ۔ دونوں کے ہاں اولاد تو نہ ہوئی ۔ مگر غفور کے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال اور پھر ان کی شادیوں کی ساری ذمہ داری شاداں کے کاندھوں پر آن پڑی ۔ مرتی کیا نہ کرتی ۔ اپنا جی مار کر فرض نبھاتی رہی ۔ کبھی دوسرے کان بات نہ پڑی کہ گھر میں کیا چل رہا ۔ غفور کی ماں ذرا تیز مزاج کی عورت تھی جو رشتے میں شاداں کی تائی لگتی ۔ چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر بھی وہ شاداں کو سخت سزا دیتی ۔ دن بھر شاداں کے ساتھ جو بھی ہوتا ۔ رات کمرے میں غفور اس کی اس انداز سے دلجوئی کرتا کہ اسے سارے دکھڑے بھول جاتے ۔ یونہی دونوں کی زندگی کا پہیہ چلتا رہا ۔ بارہا غفور کی ماں نے دوسری شادی کا رولا ڈالا کہ اسے اپنے بیٹے کی نسل چاہئے ۔ پر غفور کی سوئی نہ پر اٹکی رہتی ۔ اسے شاداں سے محبت جو تھی ۔ لیکن ایک بات اسے ہمیشہ کھٹکتی ۔
شاداں اس کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھی ۔ مگر محبت کا جواب محبت سے نہ دیتی ۔ یہ کمی غفور کو ہمیشہ ہی محسوس ہوتی ۔ اس کا دل کرتا کہ جیسے اس کے دوستوں کی بیویاں بناؤ سنگھار کر کے ان کا دل بہلاتی ہیں ۔ نخرے دکھاتی اور روٹھتی مناتی ہیں ۔ شاداں بھی ویسے ہی کرے ۔ پر اس کی طرف سے کبھی پہل نہ ہوئی ۔ جب بھی بات بڑھی غفور کی جانب سے ۔ نہ ہی کبھی شاداں نے نخرے دکھائے ۔ نہ غفور کی حسرت پوری ہوئی۔ ہمیشہ اس کی ایک آواز پر لبیک کہا ۔
ویسے تو یہ بات ایک وفادار بیوی کی خاصیت تھی ۔ پر غفور کو جانے یہ بات اچھی کیوں نہ لگتی ۔ ایک دو بار اس نے شاداں سے اظہار کرنے کی کوشش بھی کی مگر اس کا سرد رویہ دیکھ کر چپ ہو گیا ۔ کیا ہوا اگر محبت کا جواب محبت سے نہیں دیتی ۔ اس کا اور گھر والوں کا خیال تو رکھتی ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر محبت ہے اس کی ۔
شام ہوتے ہی غفور گھر میں داخل ہوا تو صحن میں پڑی چارپائی پر اماں سر باندھے ہائے ہائے کر رہی تھی ۔ اور شاداں ان کے سرہانے بیٹھی سر دباتی غیر مرئی نقطے پر نظر جمائے ہوئے تھی ۔ آہٹ پا کر اماں نے گردن ذرا سی اونچی کر کے دیکھا ۔ غفور کو دیکھتے ہی اس کی ہائے ہائے تیز ہوگئی۔ اور ساتھ ہی ساتھ شاداں کو گالیاں نکالنے لگی کہ کام چورنی کے ہاتھ ٹوٹتے اس کا سر دباتے ۔ شاداں سخت ہاتھوں سے سر دبانے لگی تو اماں چیخ پڑی ۔
” نی مرن جوگی ۔ مار دیں لگیں مینوں ۔ ہائے میں مر گئی غفورے ۔۔ تیری بیوی مجھے مارنا چاہتی ہے ۔” غفور ماں کے پاس بیٹھا اس کے ہاتھ بازو دبانے لگا۔
کن اکھیوں سے شاداں کو دیکھا ۔ جو برے حالوں سے بیٹھی اماں کا سر دبا رہی تھی ۔ اس نے ایک بار بھی غفور کی جانب نہ دیکھا ۔ غفور کا دل کٹ کر رہ گیا ۔ کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا ۔ آج تو اسے شاداں کے ساتھ فلم دیکھنے ہر حال میں جانا تھا ۔ دو تین منٹ اماں کا بازو دبا کر غفور اٹھ کھڑا ہوا ۔ شاداں نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر سر جھکا لیا ۔
” اماں ! میں اور شاداں ذرا کام سے جا رہے رہیں ۔ واپسی پر تیرے لیے سر درد کی دوائی لیتے آئیں گے ۔ ” غفور نے اماں پر بم پھوڑا ۔
” کیا کہا ؟؟ اس وقت تم لوگ باہر جاؤ گے ۔ ماں کے لیے پیسے نہیں اور بیوی کی عیاشیوں کے لیے بہت پیسہ ہے ۔” اماں سر پر بندھی پٹی اتار کر اٹھ بیٹھی ۔
” اماں وہ ۔۔ میرا ایک دوست ہے ۔ اس کی بیوی بہت بیمار ہے ۔ اسپتال میں ہے ۔ اسی کا پتہ لینے جانا ہے ۔ کوئی موج مستی کرنے تھوڑی جا رہے ۔ ” غفور نے دھڑکتے دل سے بات بنائی ۔ اماں نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا اور پھر شاداں کو جو دونوں سے لاتعلق وہاں بیٹھی تھی ۔ کچھ سوچ کر پاس بیٹھی شاداں کو لات ماری ۔ بیچاری اپنا توازن نہ رکھ سکی اور چارپائی سے نیچے جا گری ۔ غفور تیزی سے اس کی جانب لپکا اور اسے اٹھایا ۔ دونوں پیر زمین پر لگنے کی وجہ سے شاداں سے کھڑا نہ ہوا گیا ۔ وہیں زمین پر بیٹھ کر پیر دبانے لگی ۔ غفور کا دل کیا ماں کو کھری کھری سنا دے ۔ مگر احترام آڑے آ گیا ۔ آج تک کبھی اونچی آواز میں بولا جو نہ تھا ۔ مگر شاداں کو اس طرح دیکھ کر اسے اپنی بے بسی پر غصہ آ رہا تھا ۔
” ہائے نی ۔۔ ڈرامے ویکھو ۔۔ شاداں بی بی ۔ اگر ڈرامے مک گئے نے تو جا غفور نوں روٹی پانی دے ۔” شاداں لنگڑاتی ہوئی باورچی خانے کی طرف چل دی اور غفور اپنے کمرے میں آ کر ادھر ادھر ٹہلنے لگا ۔ کسی خیال کے تحت تیزی سے باورچی خانے پہنچا ۔ شاداں ٹرے میں کھانا رکھ رہی تھی ۔
” شاداں ! ” غفور کی آوز پر شاداں نے اسے سرسری نظر اٹھا کر دیکھا ۔ اس کی آنکھوں میں کچھ تھا جس نے غفور کا دل مٹھی میں بھینچ لیا ۔
“کھانا اماں کے پاس کھاؤ گے یا اپنے کمرے میں ؟” شاداں نے سوال کیا۔
” نہیں کھانا !” غفور نے شاداں کے ہاتھ سے ٹرے لے کر سائڈ پر رکھا اور اسے ساتھ لیے کمرے میں آ گیا ۔
الماری سے بہترین سا جوڑا نکالا اور شاداں کو دیا پہننے کے لیے ۔ شاداں کسی مشین کی طرح اس کے اشاروں پر چل رہی تھی۔ جب تک شاداں تیار ہوئی غفور بے چینی سے اس کا انتظار کرتا رہا۔
شاداں تیار ہو کر غفور کے سامنے تھی ۔ بنا پلک جھپکے غفور اسے منہ کھولے دیکھ رہا تھا ۔ یہ وہی شاداں ہے جو ہر وقت میلے سے سوٹ میں سارا دن گھر کے کام میں لگی رہتی ہے ۔ اسے تو لگا تھا کہ وہ اپنا حسن کھو بیٹھی ہے ۔ پر وہ غلط تھا ۔ عورت کا حسن کبھی کم نہیں ہوتا ۔ ہاں ! گردشِ ایام کی سختی اس کی چمک کچھ ماند ضرور کر دیتی ہے ۔ لیکن زندگی کے ساتھی کی التفات بھری ایک نظر اس ماند ہوئی چمک کو پھر سے تازہ کر دیتی ہے ۔ جیسے ابھی غفور کے دل میں شاداں کے لیے محبت کے بھڑکتے ہوئے جذبات امڈ رہے تھے۔
” ایسے کیا دیکھ رہے ہو ؟” شاداں نے دوپٹہ سر پر ٹھیک سے جماتے ہوئے کہا ۔
” شاداں ! تو بہت خوبصورت ہے ۔” یہ کہہ کر اس نے کمرے کے کسی کونے میں چھپائے شاپر کو نکال کر شاداں کے سامنے کیا۔
” یہ کیا ہے ؟ ” شاداں حیران ہوئی۔
” کھول کر تو دیکھ ۔” غفور شاداں کے چہرے پر وہ چمک دیکھنا چاہتا تھا جو اس کا دیرینہ خواب تھی۔
شاداں نے شاپر کھولا تو اس میں گلاب اور موتیے کے دو گجرے تھے ۔ جن پر ہلکی ہلکی سنہری افشاں چمک رہی تھی ۔
شاداں کی آنکھوں میں حیرانی تھی ۔ اس نے سوالیہ نظروں سے غفور کو دیکھا۔ جیسے اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ ہو ۔
” ایسے کیا دیکھ رہی ہے ؟ اچھے نہیں لگے ؟” غفور اس کے بالکل قریب ہوتے بولا ۔ شاداں جھینپ کر کچھ پیچھے ہوئی مگر غفور نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا ۔
” اچھے ہیں۔ بہت پیارے ہیں۔ ” یہ کہتے اس کی آنکھیں خالی تھیں۔ غفور نے اس کے کان میں ایک بار پھر سرگوشی کی ۔
” کتنے اچھے ہیں ؟ ” شاداں کے کان کی لو گرما گئی ۔
” غفور ! کیا ہو گیا ہے ۔ اچھے ہیں کہا تو ہے ۔ ” شاداں خود کو چھڑانے کی پوری کوشش کر رہی تھی ۔
” یہی تو پوچھا کتنے اچھے !” غفور نے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا جو فطرت جذبات سے دھنک رنگ ہو رہا تھا ۔
“جتنا اچھا تو ہے ! ” یہ کہتے شاداں نے دونوں گجرے ہاتھوں میں پہن لیے ۔
اور غفور نے اس کے گجروں سے سجے ہاتھوں پر اپنے پیار کی مہر ثبت کر دی ۔
” فلم ؟؟؟ ” شاداں نے غفور کو یاد کروایا کہ انہوں نے فلم دیکھنے جانا تھا ۔
” ہممم ! فلم …. کل کی ٹکٹ ہے ۔ نو سے بارہ ۔ لیکن بلیک میں نہیں ۔ پہلا شو اور پہلی لائن کی سیٹیں۔ ” غفور نے شرارت سے اس کے سامنے دو ٹکٹیں لہرائیں ۔ شاداں نے ٹکٹ پکڑنی چاہی تو غفور نے ہاتھ اونچا کر لیا اور کھلکھلا کر ہنس دیا ۔
شاداں جھینپ گئی ۔
” روٹی لاؤں ؟ “
” نہیں میرا پیٹ بھر گیا ۔ “
” تو بھوکے سو گے کیا ؟ “
” نہیں ! میں صرف میٹھا کھاؤں گا ۔” شاداں نے غفور کے بازو پر زور سے چٹکی کاٹی ۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ غفور کو کون سا “میٹھا” پسند ہے ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.