نگہت فرمان
ہم بچپن سے  دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان کے دوران کی گئی جہدوجہد اور قربانیوں کی لازوال داستان پڑھتے اور سنتے آئےہیں لیکن وقت کے ساتھ اس کی اہمیت نہ صرف کم کی گئی بلکہ دانستہ ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ پاکستان کے وجود پر سوالات اٹھنے لگے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ آج  بعض لوگ تشکیل پاکستان  پر سوال اٹھاتے ہیں ۔  لوگ  دوسری اقوام کی کامیابی و مادی ترقی اور اپنے ملک کی بدحالی و تنزلی پر کڑھ رہے ہیں۔بعض کو پاکستان بننے کا فیصلہ جذباتی لگتا ہے تو کوئی طنز سے یہ بھی کہتا ہے “حاصل ہوگیا مقصد”؟ اسے کوئی  یہ  باور کرانے والا نہیں کہ ملک جب نظریاتی ہے تو ہماری ترقی کا راز بھی اسی نظریہ کی حفاظت اور اسی نظریہ کی تکمیل میں پنہاں ہے۔ اپنی بنیاد سے دوری ہمیں کمزور کررہی ہے ۔

ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین سے ہم نے یہ سوال کیا کہ   ہم بحیثیت شہری اپنے ملک کے اس نظریاتی تشخص کو برقرار رکھنے میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں ؟ ان کے جوابات قارئین کی نذر ہیں
(جامعہ کراچی) پروفیسر جہاں آراءلطفی

پروفیسر جہاں آرا لطفی
پروفیسر جہاں آرا لطفی

کوئی بھی ریاست دراصل اس کے شہریوں کا اصل تشخص ہوتی ہے۔ لہذا ریاست کے تشخص کی حفاظت ہی میں شہریوں کے تشخص کی بقا ہوتی ہے۔ اپنی ریاست کے تشخص کی بقا کے لیے ہمیں بحیثیت مجموعی اپنے فرائض کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ ہماری ثقافت ہماری شناخت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ثقافت و اقدار کو مضبوطی سے تھامے رکھیں تاکہ اپنے اصل سے دنیا میں پہچانے جائیں ناکہ کسی اور کے اقدار کی لبادہ اوڑھ کے اپنا آپ اور اپنی شناخت سب گنوا دیں۔

پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ تاج(سابق لیکچرار جامعہ کراچی)
پاکستان دو قومی نظریے کے تحت وجود میں آیا۔ ہمارے ملک کی بنیاد ہمارے مذہب پہ رکھی گئی، جھنڈا ہرے اور سفید رنگ اور چاند تارے سے سجایا گیا، قائد نے اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کا درس دیا، کام، کام اور کام محنت اور کوشش کی نصیحت کی، امن، انصاف، اقلیتوں کے حقوق، مساوات، بھائی چارہ، محبت اور اخوت کی راہ دکھائی،  بحیثیت شہری ہمیں اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے انہی زریں اصولوں کو تھامنا ہوگا،
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

فریدہ مسرور۔مصنفہ و افسانہ نگار
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے اور اس کا یہ تشخص قائم رکھنے کے لیے بطور ایک شہری ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم خود بھی دین سے جڑے رہیں۔ اور ووٹ کے ذریعے ہر بار حکومت سازی کے عمل میں شامل ہوں اور صرف ایسے لوگوں کو ووٹ دیں جو خوف خدا رکھتے ہوں، سچائی کا ساتھ دینے والے ہوں، رشوت خور اور ظالم نہ ہوں۔

عائشہ ذکی(معلمہ آرمی پبلک سکول

عائشہ ذکی
عائشہ ذکی

پاکستانی نظریاتی ریاست ہے، اس کے تشخص کو برقرار رکھنے میں بطور شہری اپنی اسلامی روایات کو اپنی اقدار کو اپنی ثقافت کو جو ہے وہ برقرار رکھنا ہوگا، اس کو دوبارہ سے روشناس کرانا ہوگا۔ اس کو عمل میں لے کر آنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ  ہمیں اجتماعی سوچ اپنانا ہو گی ۔ اسلام ہمیں اجتماعیت کا نظریہ دیتا ہے ہمیں  اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں  قومی وملی  سوچ کو اپنانا  ہوگا۔

رخسانہ ناز۔ ریٹائرڈ ایسوسی ایٹ پروفیسر

پروفیسر رخسانہ ناز
پروفیسر رخسانہ ناز

ایک اچھے شہری کی خصوصیات یہ ہوتی ہیں کہ وہ ریاست سے وفاداری کرتا ہے، قانون پر عمل کرتا ہے اور ایمان دار ہوتا ہے۔ اب اس کو پھر یہ تمام اصول ہمیں اسلام بھی بتاتا ہے تو ہم اب اپنی ریاست کے تشخص کو انفرادی طور پر اسی طرح اجاگر کر سکتے ہیں کہ ہم ان خصوصیات کو اپنی زندگی میں شامل کریں۔ جب ہم اپنی زندگی میں ان خصوصیات کو شامل کریں گے تو پوری ریاست وہ اپنے تشخص کو اجاگر کر سکے گی۔ اقوام عالم میں ہماری علاحدہ شناخت ، زبان ،رہن سہن اور  ثقافت ہے، وہ تمام اصول جو ہمیں اسلام نے دیے ہیں ان کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ہوگا تبھی لوگوں کو بتا سکیں گے کہ ہم ایک الگ قوم ہیں، ہمارا اپنا ایک نظریہ ہے اور اس نظریے پر ہم کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کر سکتے۔ یہی نظریہ ہمیں مساوات، اخوت، عورتوں کی تکریم  کا درس بھی دیتا ہے اور اسلامی ریاست کی خصوصیات کو اجاگر کرتا ہے ۔اسلام نہ تو ٹیکنالوجی کا مخالف ہے، نا سائنس کا مخالف بلکہ اسلام  کا وجود خود سائنس ہے ۔

ہم جتنے بھی جدید دنیا سے رابطے میں رہیں لیکن اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئےاورسائنس کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اپنے علاحدہ تشخص کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے۔ بعض خواتین خاتون ہونے کے ناتے کہ اس میں جو ہمیں حیا اور مساوات کا درس دیا ہے جو دیگر اسلام نے اپنے تمام ہی زندگی کے شعبوں سے متعلق راہ نمائی فرمائی ہے۔ ہم اس پر عمل کریں گے تو نظریہ خود بخود اجاگر ہوگا۔

رقیہ منذر/ ڈائریکٹر، ایچ آراینڈ ڈی۔عثمان پبلک اسکول

رقیہ منذر
رقیہ منذر

پاکستان کی نظریاتی حیثیت میں شہری ہی بہت اہم اکائی ہے جو اپنی ذات سے لے کر خاندان اور محلے سے لے کر اپنے نمائندے چنے تک ملکی ترقی میں  کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ عوامی نمائندے ایوانوں تک پہنچانے میں یہی وہ طبقہ ہے جس کا کردار اہم ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک وہ شہری اپنے اس نظریے اور نظریاتی تشخص سے ہی واقف نہ ہو تو وہ کردار کیسے ادا کرے گا۔ شہریوں کو یہ کردار ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اس نظریے اور نظریاتی تشخص سے واقف ہوں اور اس بات کو سمجھیں کہ اس آزاد اسلامی ریاست کو ہم نے کیوں بنایا تھا اور کیا وجہ تھی ہمیں اللہ نے یہ نعمت کیوں عطا کی ہے؟ تو جب تک شہریوں کو  اس بات کا ادراک نہیں ہو گا یہ کردار ادا نہیں ہو سکتا۔

 دوسری بات یہ کہ اس میں جو بنیادی کچھ چیزیں نظر آ رہی ہیں مجھے اس میں یہ کہ اپنی نسلوں میں  نظریات کی منتقلی جو ہے وہ بہت اہم بات ہے اور اس کے لیے نہ صرف گھروں کا ماحول اور تربیت اہم ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ اپنے بچوں کے لیے کہ تعلیم کے لیے کن اداروں کا انتخاب کر رہے ہیں۔ کیوں کہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اسی نظریاتی ریاست میں اب بڑی تعداد میں انہی اداروں کی ایک فہرست رکھتے ہیں جو ہماری نسلوں کے نظریات کو مسخ کر رہے ہیں، دھندلا رہے ہیں۔ لہٰذا یہ ایک بہت حساس موضوع بن چکا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے کون سا ادارہ منتخب کرتے ہیں اور کیا صحبت منتخب کرتے ہیں اور یہ بہت اہم بات ہے۔ پھر ایک پہلو یہ کہ آپ اپنی قابلیت اور آپ اپنے پروفیشن سے اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں ۔آپ کا جو بھی دائرہ اثر ہو آپ اس میں رہتے ہوئے اپنے اس نظریے کو منتقل اور اس نظریے کو قابل نفاذ بنا سکتے ہیں۔

ایک جو سب سے اہم اور سب سے بنیادی بات وہی جو میں دوہراؤں گی پہلے جو کہا کہ ہم شہری ہی ہیں ناں جو حکومتی ایوانوں میں لوگوں کو منتخب کر کے بھیجتے ہیں تو آیا کہ وہ افراد جنہیں کہ ہم منتخب کر کے بھیج رہے ہیں اس نظریے پر رہتے ہوئے ان ایوانوں میں بیٹھ کر قانون سازی کر رہے ہیں یا نہیں 1973 کے دستور کی نفاذ میں ان کا کیا کردار ہے تو یہ وہ بنیادی کردار ہے کہ جو شہری ادا کر سکتے ہیں کہ آپ کس کو سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی باگ دوڑ جو ہے وہ کس کے ہاتھ میں دی جائے تو یہ بہت اہم بات ہے اور اس کی ساری ذمہ داری اور فرض جو ہے وہ پاکستان کی عوام پر عائد ہوتا ہے۔
سیما رضا ردا۔ براڈ کاسٹر ادیبہ و کنسلٹنٹ اور جیو ٹی وی کی مینیجر کانٹینٹ رائٹر

سیما رضا
سیما رضا

آپ نے پوچھا ہے کہ ہم اس کے تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ ؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میں اور ہم کا جو صیغہ ہے ناں یہ گھروں سے شروع ہوتا ہے کہ آپ کی تربیت کیا ہے؟ آپ کے گھر میں آپ کے وطن کی مٹی کے حوالے سے کیا بات ہوتی ہے؟ آپ کی تربیت کس ماحول میں ہوئی ہے؟ کن خطوط پر ہوئی ہے؟ آپ کو کیا یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جس جگہ آپ رہتے ہیں جس زمین پر آپ بیٹھے ہیں یہ ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا اس کی خاطر ہمارے بزرگوں نے بہت دکھ اٹھائے ہیں، ہمارا تشخص جو ہے وقت کے ساتھ ساتھ کھوتا جا رہا ہے۔ کیوں کہ ہمیں مایوسی مل رہی ہے۔ ہمیں ڈپریشن مل رہا ہے۔ ہمیں وہ ہماری اپنی حیثیت نہیں مل رہی جس کے لیے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا ہماری آج یہاں تیسری چوتھی نسل ہے جو پروان چڑھ رہی ہے۔ وہ اپنے تشخص و پہچان کو کھو رہی ہے۔ آج جتنے بھی ادارے آپ جا کر دیکھ لیں آپ کو مسلمان بچے کم ملیں گے مسلمان تو ہوں گے لیکن جو اقبال نے کہا ہے ،
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
آج کی جنریشنز کو آپ جا کر دیکھیں، چاہے وہ یونی ورسٹیز ہوں یا دیگر ادارے وہاں پر آپ لڑکے اور لڑکیوں کا بے حجابانہ ملنا ملانا دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ جو یہ ہمارا تشخص ہے وہ کھو گیا ہے ؟ ہم بحیثیت مسلمان تو کچھ بھی نہیں، آج میں جو سیما رضا ہوں، میرا تشخص تو مجھے پتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور پاکستانی ہوں۔ مجھے گھر سے باہر نکلنا ہے میں حجاب کروں یا نہیں۔ لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ میری لیمیٹیشنز کیا ہیں، تو یہ جو لیمیٹیشنز ہیں ان کا ہمیں بہ خوبی علم ہونا چاہیے، اس کے لیے ہمیں بہت کام کرنا پڑے گا، ہمیں اسکولوں میں،  کالجز میں، ہمیں یونی ورسٹیز میں، ہمیں سیمینارز کے ذریعے، ہمیں ورکشاپس کے ذریعے، ہمیں گھر گھر جا کر اس پیغام کو عام کرنا ہو کہ خدا کے لیے اپنے تشخص کو برقرار رکھیے، ہمیں میڈیا کے ذریعے پر چار کرنا چاہیے اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دینا لازمی ہے ان کی حرکات پر نظر رکھنا ضروری ہے آج کی جنریشن کو قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا نہیں پتا، ان کو یہ نہیں پتا کہ کتنے اکابرین نے قربانیاں دی ہیں، نہیں پتا ان کو کچھ بھی، آپ ان سے بات کر لیجیے انڈین فلموں پہ، آپ ان سے بات کر لیجیے کہ شاہ رخ خان کو جو ہے گولڈن ویزا ملا ہے، آپ ان سے پوچھ لیجیے کہ وہاں کون سا گانا ان ہے، کون سا ڈانس جو ہے وہ مزے کا ہے، تو آج کے نوجوانوں کو اپنے ملک و مذہب کا کچھ بھی نہیں پتا، تو ہم تو اپنی پہچان کھوتے چلے جا رہے ہیں تو ہمیں اس کے لیے بہت طریقے سے کام کرنا ہوگا اور اس کے لیے ہمیں سہارا لینا پڑے گا میڈیا کا اور خاص طور پہ الیکٹرانک میڈیا کا جس کے ذریعہ ہم اپنی کھوئی ہوئی پہچان لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر شمائلہ نعیم 
پاکستان کے تناظر میں  ہمارا نظریہ لا الہ الا اللہ ہے اور جس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا خالص رشتہ ہے جو کہ اللہ اور اس کے بندوں کے مابین ہوتا ہے اور وہ اس رشتے کے نتیجے میں انسان کو خلیفة الارض بناتا ہے اور یہاں پر وہ چاہتا ہے کہ جس طرح اس کی آسمانی بادشاہت قائم ہے تو اپنے خلیفہ کے ذریعے زمین میں بھی اپنی بادشاہت نافذ کرے اور یہی کام کرنے کے لیے اس نے دنیا میں انسان کو بھیجا ہے یہ اس کلمے کی جڑ اور بنیاد ہے اور ظاہر ہے یہ کام انسان اپنی انفرادی حیثیت میں نہیں کرے گا بلکہ خود انسان جو ایک معاشرتی تشخص رکھتا ہے تو وہ اپنے ارد گرد تمام دیگر افراد کے ساتھ مل کر ایسا نظام تشکیل دے گا، جو اللہ تعالٰی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے میں مدد دے، یہ ہے دراصل وہ نظریاتی فکر جو جس کو ہم نظریہ پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں، تو اس میں اخلاص سب سے پہلی چیز ہے،

میں یہ سمجھتی ہوں کہ اس نظریاتی تشخص کے ساتھ، اس آئیڈیالوجی کے ساتھ، زندگی کے ہر دائرے میں ہر انسان بحیثیت پاکستانی اپنا حصہ ادا کر سکتا ہے۔ اپنا کردار ادا کر سکتا ہے اور اس میں بطورشہری ہماری جو ذمہ داری ہے پہلے ہم اس پر اگر بات کریں تو ہم جس شعبہ  سے تعلق رکھتے ہیں۔ سماجی رتبے سے سماجی حیثیت سے تو اس میں ہمارا کردار کیا ہو ؟  جیسے میں ڈاکٹر ہوں تو مجھے اپنی سطح پر ایک بہترین معالج کی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے۔ اس میں جو میرا میرے مریضوں سے رشتہ ہے وہ اہم نہیں ہے، بل کہ جس ادارے سے میں منسلک ہوں اس میں بھی مجھے اخلاص اور خلوص نیت کے ساتھ کام کرنا چاہیے، جو کہ میں کرتی بھی ہوں، الحمدللہ اس میں لوگوں کو اس رائے عامہ کی ہم واری کے ساتھ گفت گُو کرنا کہ جہاں جہاں ہمیں غلطی نظر آ رہی ہے، ہم لوگوں کو بتائیں کہ یہ وہ درست زاویہ نہیں ہے یا وہ درست بنیاد نہیں ہے۔ جو ہمیں اپنے نظریے سے جوڑتی ہے، صرف نماز کی ادائیگی یا ہم مریضوں کو فنڈ ریز فنڈ کے ساتھ اور چیرٹی بیسس پہ دیکھ لیں ان کی مالی اور ویسے دوسری طرح کی امداد کریں، یہ اللہ کی منشا نہیں ہے، اللہ کی منشا ہے ایک ایسا نظام قائم ہو، جس میں صحت کے ملنے کے مواقع سب کے لیے یک ساں ہوں، تو اس کی توجہ دلانا اور اس کے لیے ایک پھر منظم جدوجہد کرنا جو کہ یقینی طور پر کسی بھی فساد سے پاک ہو گی، لڑائی جھگڑے سے دور ہوگی، آئینی اور قانونی حدود کے ساتھ ہوگی اور جس میں اپنے اللہ سے وفاداری جو ہے، وہ بنیادی شرط ہو گی تو اس کے لیے پھر الحمدللہ میں نے پیما بھی جوائن کی ہوئی ہے، جو کہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ہے، یہ فکری تربیت بھی کرتے ہیں اور پیشہ ورانہ تربیت بھی کرتے ہیں، اس کے علاوہ میں اپنی اس حیثیت کو جو بہ حیثیت ڈاکٹر اللہ تعالٰی نے مجھے دی ہوئی ہے، میں لوگوں کو جہاں کہیں بھی مجھے موقع ملتا ہے اپنی حیثیت کو استعمال کر رہی ہوتی ہوں، دوسرا یہ ہوتا ہے کہ ہم جو بھی چیزیں استعمال کر رہے ہیں، جیسے ٹیکس ہے اور یہ جو اس کا نظام ہوتا ہے، صفائی ستھرائی کا ایک سکوپ ہوتا ہے، ایک شہری حقوق کے ساتھ جو ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جس طرح رہتے ہیں، اس طرح کی جتنی بھی چیزیں ہیں اس میں یہ کہ ہم اپنے فرائض کی طرف زیادہ توجہ دیں تو میری کوشش یہی ہوتی ہے، کیو ں کہ صرف یہی نہیں کہ یہ ایک اچھی بات ہے اور ایک سویلائزڈ ورلڈ جو ہے وہ اس کو ڈیمانڈ کرتی ہے بلکہ مجھے یہ لگتا ہے کہ ہمیں جس نظریاتی بنیاد پر ہم بات کر رہے ہوتے ہیں، اس میں ہمیں اللہ کو بھی جواب دینا ہے کہ ہم کس طرح سے ایک اس نظام کا کل پرزہ تھے جو کہ اللہ کے نام پر بنایا گیا تھا اور اس میں اگر یہ کہ کر بیٹھ جائیں کہ سب اسی طرح چل رہا ہے تو چلنے دو، نہیں اپنی حیثیت کے مطابق جو کوشش ہوتی ہے نظام کو بہتر کرنے کی وہ  ضرور کرتے رہنا چاہیے ۔

۔پروفیسر کشور سلطانہ۔ پرنسپل گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج سرجانی ٹاؤن

 میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ نظریاتی ریاست جو نام ہے سویلین اس کا نام بھی عملی ریاست ہونا چاہیے یعنی ہمارے جو بھی نظریہ پاکستان ہے ظاہر ہے اسلام ہی ہے اس کا نظریہ تو ہر ادارے، گھر ہو معاشرتی طور پہ یعنی سیاسی ،معاشی اور معاشرتی طوراور دیگر  ادارے ہیں یا ہمارے اقدامات ہیں ظاہر ہے وہ اسی نظریے میں ڈھلے ہونے چاہیں ۔اسلام کے مطابق ہونے چاہیے بس یہی ایک تصور تھا جس کے لیے یہ حاصل کیا گیا ۔پاکستان تو ہم لوگ کو  انفرادی طور پہ بھی اس کے لیے  کوشش کرنی چاہیے اور اجتماعی زندگی میں بھی یہی عنصر نظر آنا چاہیے اور اس کے لیے ہمیں  قومی مزاج  پورا کا پورا بدلنے کی ضرورت ہے ۔اس میں ہمارے تعلیمی ادارے بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں اور اسی طرح ہمارے گھر ہیں ہمیں وہاں بھی اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔بچوں کو ابتداء ہی سے اپنے نظریہ و تشخص کے متعلق آگاہی دی جائے اور ان کے دلوں میں راسخ کیا جائے ۔

حاصل کلام

قارئین کرام۔
یہ تھے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے  خیالات جنہوں نے اپنے شعبے میں پاکستان کے حالات بدلنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔
افسوس !ہمارا طرز عمل سوائے نوجوان نسل کو کوسنے کے کچھ نہیں رہا۔ ہم نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ پاکستان بنانے کا فیصلہ جذباتی نہیں گہرے شعور کا نتیجہ تھا، اس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھی، اور وہ دو قومی نظریہ تھا کیا ؟ صد معذرت! ہمارے آج کے بزرگ بھی درست اور سہل الفاظ میں اسے آج بھی بیان نہیں کر پاتے۔ سیدھی سادی سی بات تھی کہ ہم نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ ہم اس میں اسلامی قوانین کا نفاذ کریں گے، اسے ایک اسلامی فلاحی مملکت بنائیں گے اور اسے پورے عالم میں ایک بہترین، آسودہ، مضبوط معیشت پر استوار کریں گے اور اسے باقی عالم میں ایک روشن مینار بنائیں گے۔
لیکن افسوس۔ ہم نے اس وطن عزیز کی نظریاتی بنیادوں پر تعمیر و ترقی کے لیے کیا کاوش کی ہے، اس کا جواب تو ہم سب خود ہی دے سکتے ہیں اور بس سوچیے! کہ سوچ سے تعمیر و ترقی کے در وا ہوتے ہیں۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact