کہانی کار: شفق عثمان
یہ کسی راجا کا نام نہیں بلکہ ایک جگہ ہے۔
جسے جادوئی شہر بھی کہا جاتا ہے۔
یہ دنیا کا وہ علاقہ ہے جہاں آج بھی لوگ پتھر کے دور کی طرح رہتے ہیں۔ جہالت کا دور دورہ ہے۔
یہ انڈونیشیا میں ایک جگہ ہے۔
یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں کی خوبصورتی اور یہاں مناۓ جانے والے رسم و رواج پوری دنیا سی الگ ہیں۔
اس جگہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں لوگ مردہ کو درختوں میں قبر بنا کر دفناتے ہیں
یہ لوگ تمام مردہ کو زندہ ہی مانتے ہیں۔یہاں کے لوگ جنازہ کی تقریب ہر تین سال بعد مناتے ہیں۔مردہ لوگوں کو قبروں سے نکال کر انکو نئے لباس پہناتے ہیں اور یہ لوگ ویڈیو کال پر اپنے رشتہ داروں سے بات بھی کرواتے ہیں۔
جب کوئی مر جاتا ہے تو یہ لوگ دکھ کا اظہار نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ انکو مردہ ہی نہیں مانتے۔
اگر کوئی بیرون ملک سے جنازہ پر نہ آ سکے تو اگلی جنازہ تقریب پر مردہ سے مل سکتا ہے۔ اکثر لوگ مردے کو دفناتے نہیں ہیں بلکہ گھر میں ایک کمرے میں رکھتے ہیں۔اسکی صفائی ستھرائی روز کرتے ہیں۔کھانا اور پانی روز مردے کے کمرے میں رکھا جاتا ہے۔
مردے کی توہین کا یہ عالم ہے کہ یہ لوگ مردہ کو قبر نماں کمرے سے جب تین سال بعد باہر نکالتے ہیں تو اسکی صفائی ستھرائی کر کے سب لوگ تصاویر بناتے ہیں۔ اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اکثر لوگ ان سے باتیں بھی کرتے ہیں۔مختصر یہ کہ یہ لوگ مردوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔
ان میں زندہ اور مردہ کا کوئی فرق نہیں ہے۔
یہاں پر راجا کا محل بھی ہے۔ جو ایک پہاڑ نما دکھتا ہے۔ جس میں وہ نوکر اور سپاہی بھی اسی طرح مجسمہ حالت میں منجمد ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کھڑکی سے مردے نیچے جھانک رہے ہوں۔ انکے راجا کی قبر کے علاوہ یہاں ایک مسلمان کی قبر بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جو ایک راجدھانی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو کر ادھر آیا تھا۔ اسکو بھی پورے رسم و رواج سے یہاں دفنایا گیا ہے۔
اور جب مردوں کا جسم اس قدر خراب ہو جائے کہ مزید رکھنے کے قابل نہ رہے تو ایک قبرستان میں انکے سکیلیٹن یا کھوپڑیاں رکھی جاتی ہیں۔ اور لکڑی کے مجسمے بھی بناۓ جاتے ہیں۔
کچھ دور آگے جانے پر یہاں کے ناؤ نما توراجاََ مکان دکھے۔ لیکن کچھ مکانوں کی سجاوٹ باقیوں سے مختلف تھی۔
غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں بھینسوں کی سریاں اور سینگھ لگے ہوئے ہیں۔ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ امیر خاندان اپنے عزیزوں کے مرنے پر 26 بھینسوں کی بلی دیتے ہیں اور کبھی کبھار یہ رسم 100 بھینسوں تک چلی جاتی ہے۔ سوچ اور سمجھ سے بالاتر بات یہ تھی کہ جو لوگ بچوں کے مردہ کو درختوں میں گھر بنا کر رکھتےہیں کچھ عرصہ بعد وہ شکل اس درخت کی لکڑی میں ابھر آتی ہے۔ یہ بہت حیران کن بات تھی جو ہمیں گائیڈ سے اس جگہ کے وزٹ کے دوران پتا چلی۔
اس جگہ کے بادل اور نظارہ دنیا بھر کے نظاروں سے الگ تھا۔
لیکن حیران کن حقیقتوں سے بھرا ہوا یہ شہر اپنی دنیا آپ تھا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.