کہانی : بزم۔ کہانی کار : : عنیزہ عزیر

You are currently viewing کہانی : بزم۔ کہانی کار : : عنیزہ عزیر

کہانی : بزم۔ کہانی کار : : عنیزہ عزیر

تحریر : عنیزہ عزیر
دن بھر برسنے والی موسلا دھار بارش کا زور ٹوٹ چکا تھا لیکن کِن مِن ابھی بھی جاری تھی۔ دسمبر کی سرد ہوا، بارش کے قطروں کو چھو کر جسم سے ٹکراتی تو کپکپکی طاری ہو جاتی۔ بیگ منزل کے لاؤنج میں موجود نئی نسل، ایک دوسرے سے لا تعلق اپنے اپنے موبائل پر مصروف تھی۔ جہاں موبائل فون نے فاصلے سمیٹ دئیے تھے، وہیں قریب والوں کو دور کر دیا تھا۔ کچن میں خواتین کھانا پکانے کے علاوہ وقتاً فوقتاً چائے بنا کر بیٹھک میں مرد حضرات تک پہنچا رہی تھیں۔
بیگ منزل کے سربراہ، سمیع بیگ اپنے کمرے میں بستر پر دراز سوچوں میں گم تھے کہ حماد دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا دبے قدم اندر داخل ہو کر ماحول میں اپنا تاثر چھوڑ گیا۔
“بابا جان! آپ آج سب کے ساتھ نہیں بیٹھے؟ ”  حماد نے پوچھا۔
“سب موبائل پر مصروف ہوتے ہیں میں وہاں بیٹھ کر کیا کروں؟”
” ٹھنڈ کے باعث بچے باہر نہیں جا سکتے اسی لئے موبائل پر مصروف ہیں ۔” حماد بتا رہا تھا کہ سمیع بیگ نے اس کو ٹوکا
” بچوں کو مصروف کرنے کے موبائل کے علاوہ اور بھی طریقے ہیں لیکن تم لوگ سمجھو تب نا۔”
” بابا جان! آپ ہمیں سمجھائیں گے تو ہم ضرور سمجھیں گے۔”
حمید کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ  کہنے لگا۔
“آج کل  ہم بڈھوں کی باتیں کون سنتا اور مانتا ہے۔” وہ افسردگی سے بولے۔
” بابا جان! آپ ہماری راہنمائی کریں گے تو ہم آپ کی بات کیوں نہیں سنیں اور مانیں گے بھلا؟” حمید نے کہا تو وہ دھیمے لہجے میں بولتے کھو گئے۔
“کیا وقت تھا! بزرگوں کا خوب احترام کیا جاتا تھا۔ ہر وقت ان سے کچھ نیا سیکھ لینے اور ان کے ساتھ زیادہ سے وقت گزارنے کی خواہش رہتی تھی۔
شام میں یادگار بزم سجا کرتی تھی۔ آتش دان جلا کر سب اس کے گرد بیٹھ جاتے۔ پہلے ابی جان دن بھر کی روداد سنتے اور پھر طویل گفتگو کا دور چلتا۔”
”  آپ کے ابی کس طرح کی گفتگو کرتے تھے؟”
” ابی جان، ہر طرح کی گفتگو کرتے تھے۔ بچے اور بڑے سب ان کی بزم میں شامل ہوتے تھے۔ انبیاء کرام کے قصے، صحابہ کرام کے ایمان افروز واقعات، مجاہدین کی جہدِ مسلسل کی داستان اور  روزمرہ کی اخلاقی کہانیاں۔ سب کی دلچسپی قائم  رکھنے کے لئے درمیان میں سوالات بھی کرتے رہتے۔ لیکن آج کل تو بچوں کی واحد دلچسپی موبائل فون رہ گئی ہے۔”
وہ جوش سے بتاتے بتاتے ایک دم افسردہ ہو گئے۔
” ارے! آپ بچوں کو کیا کہانیاں سنانے بیٹھ گئے ہیں۔ ہر دور کے الگ تقاضے ہوتے ہیں۔”
نغمانہ بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا۔
” بس بیگم! جب تم بھی مجھے نہیں سمجھو گی تو اور کون سمجھے گا۔” وہ دلگرفتی سے بولے۔
” صاحب میں آپ کو خوب سمجھتی ہوں، لیکن نہیں چاہتی کہ لا یعنی سوچوں میں پڑ کر آپ اپنی صحت خراب کر لیں۔”
“لو بھلا میری صحت کو کیا ہوا۔”
ان دونوں کی نوک جھونک شروع ہو چکی تھی۔ حماد اور حمید کچھ سوچتے ہوۓ کمرے سے باہر نکل آئے۔
               _*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_
تیز ہوا کے باعث، گزشتہ دن کی نسبت ماحول میں خُنکی کچھ زیادہ تھی۔ سب لوگ اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے لیکن بیگ منزل میں معمول سے ہٹ کر چہل پہل جاری تھی۔ باورچی خانے سے اٹھتی اشتہا انگیز مہک بتا رہی تھی کہ سردیوں کے مخصوص پکوان، پکنے کے قریب ہیں۔
 سمیع بیگ آج بھی اپنے کمرے میں اداس بیٹھے تھے اچانک ہلکی سی آہٹ سے دروازہ کھلا اور چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک لئے، ان کے تینوں سپوت حامد، حمید اور احمد اندر داخل ہوۓ۔
“بابا جان! آج تو آپ کو سب کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔”
احمد نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا تو حمید اور حامد بھی آگے بڑھے اور ان کی کسی بھی بات کو سنے بغیر ان کو تھام کر باہر لے آئے۔
لاؤنج میں قدم رکھتے ہی بیگ صاحب حیران رہ گئے۔
دھیمی زرد روشنی میں فرشی نشست پر بچے اور کرسیوں پر باقی افراد ان کے منتظر تھے۔  تمام افراد کے موبائل ایک ٹوکری میں جمع کر کے سائیڈ پر رکھ دئیے گئے تھے۔
وہ نم آنکھیں لئے وہ اپنی نشست تک پہنچے تو  حمید کی زوجہ ثمرہ گرم گرم سوپ ان کو پیش کرتی کہنے لگی:
“بابا جان! ہم سب آپ سے بہت کچھ سیکھنے کے خواہاں ہیں۔”
“بالکل! آج کی یہ بزم اسی لئے سجائی گئی ہے کہ ہم چاہتے ہیں، صرف ہم ہی نہیں ہماری نسلیں بھی آپ سے بہت کچھ سیکھیں۔”
احمد نے کہا تو بیگ صاحب سوچ رہے تھے کہ
“بعض دفعہ کوتاہی بڑوں کی بھی ہوتی ہے کہ اولاد کو سمجھانے کی بجائے خود کڑھتے رہتے ہیں۔ا گر بچوں کو عمدہ طریقے سے سمجھایا جاۓ تو یقیناً یہ بہت کچھ سیکھنے اور کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔”
آج کی بزم میں وہ سب سے یہی عہد لینے والے تھے کہ ایسی بزم مستقل سجی رہے گی اور سب ایک دوسرے سے سیکھنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.