ام محمد عبداللہ

آج اطہر بہت خوش تھا۔ اسکول سے بھی جلدی چھٹی ہو گئی تھی۔ وہ تیز تیز چلتا گھر کی جانب آ رہا تھا۔ خوشی سے سر اٹھا کر کبھی وہ   نیلے آسمان پر نگاہ کرتا تو  سفید سفید بادلوں کی بکھری ٹکڑیاں اسے ایسے محسوس ہوتیں جیسے آسمان پر سفید پروں والے گھوڑے اڑ رہے ہوں۔ 

راستے میں پھولوں کا ایک باغ بھی آتا تھا۔ جس میں ہر رنگ کے پھول کھلے ہوتے تھے۔ نیلے پیلے ہرے گلابی سرخ سفید اور کالے بھی… اطہر جب باغ کے قریب سے گزرا تو پھولوں کی خوشبو سے جھوم اٹھا۔ اس نے مالی بابا سے پوچھ کر سفید موتیے کے بہت سے پھول توڑ کر اپنے رومال میں حفاظت سے رکھے۔

گھر پہنچتے ہی وہ سارے پھول اس نے نور آپی کو دے دئیے تھے۔”نور آپی! امی جان کے لیے ان کا گجرا بھی بنانا اور کانوں کی بالیاں بھی۔“ اس نے چپکے سے نور آپی کو کہا

سب سے بڑھ کر آج گھر پہنچتے ہی اسے دن کے کھانے کی بالکل فکر نہیں تھی اسے تو آج بہت پیارا صاف ستھرا تیار ہونا تھا۔ اس نے کپڑوں کی الماری سے اپنے سفید کپڑے نکالے جو اسے بہت پسند تھے۔ نہا دھو کر شیشے میں اس نے اپنے دانتوں کا جائزہ لیا جو مسواک کرنے کی وجہ سے سفید موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔

” اطہر بیٹے! آ جائیں جمعے کی نماز کے لیے جاتے ہیں۔“ دادا جان نے اسے آواز دی تو اس نے اپنی کروشیے سے بنی سفید ٹوپی سر پر رکھی جو امی جان نے خصوصاً اس کے لیے بہت پیار سے بنائی تھی۔ الماری سے اپنی پسندیدہ خوشبو نکال کر لگاتے ہوئے وہ مطمئن تھا کہ ہاتھوں پاؤں کے ناخن تو اس نے صبح ہی کاٹ لیے تھے۔ ہنستا مسکراتا وہ باہر آیا تو دادا جان کے ساتھ ساتھ ابو جی بھی اپنے سفید لباس میں ملبوس اسے بہت بارعب اور خوبصورت دکھائی دئیے۔

اسے جمعے کی نماز جامع مسجد میں پڑھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ اسے نماَز پڑھتے ہوئے امام صاحب کا بار بار اللہ اکبر کہنا، سب کا مل کر رکوع اور سجدے میں جانا بہت بھاتا تھا۔

نماز کے بعد وہ تینوں وہیں بیٹھے درود شریف پڑھتے رہے۔ اطہر کو ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کے  آس پاس سنہرے  پروں والے فرشتے موجود ہیں وہ جیسے ہی درود شریف پڑھتا وہ درود شریف رنگ برنگے چمکتے دمکتے موتیوں میں بدل جاتے اور فرشتوں کے ہاتھوں میں موجود چاندی رنگ کے تھال ان درود شریف کے موتیوں سے بھر جاتے۔ جیسے ہی کسی فرشتے کا تھال موتیوں سے بھر جاتا وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ جاتا اور ادب سے بتاتا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کے لیے یہ تحفہ آپ کےچھوٹے سے امتی محمد اطہر نے بھیجا ہے۔ نبی رحمت درود پاک کا ہدیہ دیکھتے اور مسکرا دیتے۔ اطہر کا دل اس سوچ سے خوشی سے بھر جاتا اور وہ چاہتا کہ مسجد سے اٹھ کر کبھی باہر نہ جائے درود شریف پڑھتا رہے پڑھتا رہے پڑھتا رہے لیکن جب دادا جان اور ابو جی گھر جانے کے لیے اٹھے تو وہ بھی ان کے ساتھ گھر آ گیا۔

” دجال اس کا ئنات کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ قرب قیامت اس کا خروج ایران کے شہر اصفہان کی بستی یہودہ سے ہو گا۔“ 

اطہر قلیولہ کر کے اٹھا تو دادی جان، امی جی اور نور آپی کو دجال سے متعلق باتیں کرتے ہوئے پایا۔

” دجال کے پاس روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کا دریا ہو گا۔“ نور آپی نے کہا

” ہاں بیٹی! یہ ایک بہت بڑی آزمائش ہو گی اس کے پاس نعمتیں دیکھ کر بہت سے لوگ اس کی پیروی کریں گے اور اس کے فتنے کا شکار ہو جائیں گے لیکن جن کا ایمان مضبوط ہو گا وہ بھوک پیاس کو دجال کے مزے مزے کے کھانوں پر ترجیح دیں گے اور اپنے ایمان کی دولت کی حفاظت کریں گے۔“

یہ سننا تھا کہ اطہر نے اونچا اونچا رونا شروع کر دیا۔

” مجھ سے تو بھوک پیاس برداشت نہیں ہوتی میرا کیا بنے گا؟ دجال کا فتنہ اتنا بڑا ہو گا اور میں تو اتنا کمزور سا بچہ ہوں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔“

” ارے بھئی ہمارے پیارے آقا محمد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں دجال سے بچنے کا طریقہ بتایا ہے ناں آپ اس پر عمل کیا کریں نہ اطہر۔“ دادای جان نے شفقت سے اطہر کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ چپ ہو کر سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔

” دیکھیں جمعے والے دن سورہ کہف کی تلاوت کی بہت فضیلت ہے جو جمعے کے دن سورہ کہف کی تلاوت کرتا ہے اس کے لیے دو جمعوں کے درمیان نور روشن ہو جاتا ہے اور جو سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات حفظ کر لے اس کی فتنہ دجال سے حفاظت ہو جاتی ہے۔

پیارے اطہر آپ ہر جمعے کو سورہ کہف کی تلاوت ضرور کیا کریں اس سے آپ کے لیے نور بھی روشن ہو گا اور ابتدائی دس آیات حفظ کرنے میں آسانی بھی ہو گی۔“

اطہر نے دادی جان کی بات سنی تو بھولی بھالی معصوم سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی اور روشن ذہین آنکھیں کچھ اور بھی جگمگانے لگیں۔”” کہاں چلے اطہر!“ وہ اٹھ کر کھڑا ہوا تو دادی جان نے پوچھا۔

” وضو کر کے سورہ کہف کہ تلاوت کرنے کیونکہ یہ تلاوت مجھے اپنے سب سے بڑے دشمن شیطان اور عظیم فتنے دجال کے مقابلے کے لیے بہادر، طاقتور اور مضبوط بنائے گی ان شاء اللہ۔“

”اطہر ہم مل کر  اس سورہ کا ترجمہ اور تفسیر بھی پڑھیں گے تاکہ اس سورہ میں موجود اللہ پاک کی باتوں کو سمجھ کر ان پر عمل کر سکیں۔“ نور آپی نے کہا تو 

اطہر خوشی سے ہنس دیا جمعے کا دن تو اسے پہلے بھی بہت اچھا لگتا تھا۔ سورہ کہف کے ذریعے   مضبوط اور بہادر بننے کے احساس نے اس  کے لیے اس دن کو اور بھی زیادہ پرکشش بنا دیا تھا۔ ====

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact