چوراہے کی عورت/تحریر: ساجدہ امیر

You are currently viewing چوراہے کی عورت/تحریر: ساجدہ امیر

چوراہے کی عورت/تحریر: ساجدہ امیر

ساجدہ امیر ( کوٹ مٹھن ضلع راجن پور)


سلطان شاہ ایک رحم دل انسان تھے۔ ان کے دل میں اپنی قوم کے لیے محبت اور ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سلطان شاہ نہ صرف یمن کے لوگوں کے لیے بلکہ آس پاس کے علاقہ جات کے لیے بھی قابلِ محبت تھے۔ دور دراز سے کوئی مسافر یا بادشاہ یمن کی سیر کے لیے آتا تو بادشاہ سلامت ان کا استقبال نہایت دھوم دھام سے کرتے۔ بادشاہ سلامت کی صرف ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام تھا شہزادی یمنہ تھا۔ سلطان شاہ کو یمن سے اتنی محبت تھی کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نام بھی یمنہ رکھ دیا۔ سلطان شاہ کا کوئی بیٹا نہ تھا اور یہی فکر سلطان کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی کہ میرے بعد میری قوم کی خدمت پتا نہیں کون اور کیسے کرے گا۔
شہزادی یمنہ ایک خوبصورت اور ہنس مکھ لڑکی تھی۔ یمنہ کے خوبصورت لمبے بالوں نے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے تھے۔ یمنہ کی خوبصورتی کے چرچے آس پاس کی تمام سلطنتوں میں تھی۔ ہر شہزادہ دل میں یمنہ کے خواب سجائے بیٹھا تھا۔ وہ اکثر سلطان شاہ کو اداس دیکھتی تو کہتی:
“ابا حضور آپ کی اگلی گدی نشین میں بنوں گی۔۔”
اور سلطان اس بات پر ہنس دیتے اور دل ہی دل میں کہتے:
” “یمنہ بیٹیاں باپ کی گدی نشین بنتیں تو بیٹوں کی تخلیق ہی نہ ہوتی، بیٹیاں تو آنگن کا پھول ہوتی ہیں جنھیں ایک نا ایک دن زمین سے اکھاڑ کر گملے (رخصت کرنا پڑتا ہے)میں رکھنا پڑتا ہے تاکہ کوئی راہگیر ان کو کچل نہ دے”۔
خوش حال یمن پر اچانک ہی غم کے بادل منڈلانے لگے، ہر ذی روح خوف اور ڈر میں مبتلا تھا کہ اب کیا ہوگا۔ یمن کی واسی سلطان شاہ سے اتنی محبت کرتے تھے کہ ان کو کھونے کا ڈر بھی ان کی راتوں کی نیند حرام کر دیتا۔ اچانک ہی سلطان شاہ کو جذام کی بیماری نے آ گھیرا۔ شاہی محل میں مکمل خاموشی کا راج تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ موت تاک لگائے بیٹھی ہو۔
یمن کے بادشاہ سلامت کی طبیعت میں کوئی سدھار نہ آ رہا تھا۔سلطان شاہ کی طبیعت دن بدن تشویش ناک ہوتی جا رہی تھی۔ آس پاس کے علاقوں سے مختلف طبیبوں اور حکیموں کو بلوایا گیا، سب نے اپنی بھرپور کوشش کی، لیکن سب بے سود۔ پورا یمن غم کے سائے میں ڈوبا ہوا تھا۔
” بادشاہ سلامت عراق کے شہر میں ایک جانا مانا طبیب رہتا ہے۔ جذام کی بیماری کے بہت سے مریض اس کے علاج سے آج خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔”
شاہی محل کا وزیر سر جھکائے بادشاہ سلامت کے بستر کے پاس کھڑا ان کو طبیب کا بتا رہا تھا۔
” وزیر آپ جلد از جلد اس طبیب کو میرے سامنے لے کر آئیں اگر کل تک وہ یہاں نہ ہوئے تو آپ کا سر دھڑ سے الگ کر دیا جائے گا۔”
ملکہ عالیہ نے سلطان شاہ کے جواب سے پہلے اپنا حکم سنا دیا۔
وزیر اثبات میں سر جھکائے عراق کی طرف روانہ ہو گیا۔
یمن کی رعایا اپنے بادشاہ کے لیے ہر لمحہ دعا کرتی۔ جب سے بادشاہ سلامت بیمار ہوئے تب سے خوشحالی بھی روٹھ گئی تھی۔
” کوئی ایسی عورت جس نے اپنے محرم کے علاوہ کسی کو ہاتھ نہ لگایا ہو نہ ہی خود کو لگانے دیے ہوں اور جی بھر کے کسی غیر مرد کو دیکھا بھی نہ ہو، اگر وہ عورت بادشاہ سلامت کے  کندھے پر ہاتھ رکھ دے تو ان کی بیماری کم ہو جائے گی تب ہم ادوایات کے ذریعے اسے ختم بھی کر سکتے ہیں۔”
عراق کے طبیب نے سلطان شاہ کی حالت دیکھنے کے بعد اس بیماری کا علاج آخر ڈھونڈ ہی لیا۔

 “کوئی ایسی عورت جس نے اپنے محرم کے علاوہ نہ جی بھر کے کسی کو دیکھا ہو، نہ ہی ہاتھ لگایا ہو وہ بادشاہ سلامت کے کندھے پر ہاتھ رکھ دے  تو اس کام کے عوض اسے سو دینار اور سونا چاندی جیسے زیورات سے نوازا جائے گا’۔
پورے یمن میں  بادشاہ کے سپاہی اعلان کرتے پھر رہے تھے، لیکن دو دن تک کوئی بھی نتیجہ سامنے نہ آیا۔
اچانک ہی بادشاہ سلامت نے شہزادی یمنہ کو اپنی آرام گاہ میں آنے کا سندیسہ بھیجا۔ یمنہ ننگے پاؤں دوڑتی ہوئی آئی۔

” ابا حضور مجھے معاف کر دیں میں اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کی بیماری کا علاج کروں۔”
یمنہ بادشاہ سلامت کے پاؤں میں گر کر رو رہی تھی۔
شہزادی یمنہ ، یمن کے ایک شہزادے سے محبت کرتی تھی اور روز ہی سیر کے بہانے اس سے ملنے جاتی تھی۔ یہ سن کر بادشاہ سلامت افسردہ ہوگئے کہ ان کی بیٹی ہی ان کے کام نہ آئی۔
وقت گزرتا گیا چار دن تک پورے یمن میں اعلان ہوتا رہا، لیکن کہیں سے کوئی خوشخبری نہ ملی۔
ایک دن ایسا آیا کہ ایک عورت اپنے شوہر سے بادشاہ سلامت کے متعلق بات کر رہی تھی تب ہی اس کے شوہر نے کہا، ” اگر تمہیں لگتا ہے ساکو کہ تم نے آج تک ایسا کوئی کام نہیں کیا نہ کسی کو دیکھا نہ ہی ہاتھ لگایا تو میں تمہیں بادشاہ سلامت کے علاج کے لیے نہیں روکوں گا۔”
یمن میں موجود ایک عورت جو در در پھرتی تھی لوگ اسے”چوراہے کی عورت” کے نام سے بلاتے تھے۔ جب اسے اعلان کا پتا چلا تو اس نے اپنے شوہر سے اجازت لی کہ وہ بادشاہ سلامت کے علاج کے لیے جانا چاہتی ہے۔
یمن میں یہ بات پھیل گئی تو سب لوگ ہنسنے لگ گئے کہ جس عورت کو سارا دن در در پھرنے سے فرصت نہیں ملتی وہی بادشاہ سلامت کا علاج کرے گی۔
اگلے دن ساکو شاہی محل پہنچ گئی۔ اور اپنے متعلق سب کچھ بتایا سب نے حیرانی سے اسے دیکھا، لیکن بادشاہ کا حکم تھا اسے اجازت ہے کہ وہ بادشاہ علاج کرے۔
سلطان شاہ کا دل ٹوٹ چکا تھا جب اس نے یمنہ کی داستاں اس کے منہ زبانی سنی۔ ساکو نے طبیب کے بتائے طریقے کے مطابق اپنے ہاتھ پر کچھ لگایا اور وہی ہاتھ سلطان شاہ کے کندھے پر رکھ دیا۔ کچھ دیر رکھنے کے بعد طبیب نے اسے ہاتھ اٹھانے کا کہہ دیا۔ ایسے ہی یہ عمل دو تین روز تک ہوتا رہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بادشاہ سلامت کی صحت یابی کی خبریں پورے یمن میں پھیل گئیں۔
کچھ ہفتوں بعد بادشاہ سلامت اپنے تخت پر بیٹھے اپنی پرجا سے بات کر رہے تھے۔ بادشاہ سلامت نے سب کے سامنے ساکو کو وعدے کے مطابق انعامات سے نوازا اور کہا، ”یہ لازم نہیں کہ چوراہے پر چلنے والی ہر عورت بدچلن ہو، کبھی کبھی مجبوریاں بھی انسان سے ایسے کام کروا جاتی ہیں جو وہ نہیں کرنا چاہتا۔ اسلام نے عورت کا رتبہ بلند رکھا ہے اور میں چاہتا ہوں میری سلطنت میں بھی عورت کو وہی مقام ملے۔”
یہ سن کر سب نے اثبات میں سر ہلایا۔
جب بادشاہ سلامت مکمل صحت یاب ہوگئے تب محل کو دلہن کی طرح سجایا گیا اور شہزادی یمنہ کی شادی یمن کے شہزادے سکندر سے کرا کر اسے خوشی خوشی سلطان شاہ نے رخصت کیا۔
               ***********
ختم شد


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.