انعم طاہر
اسکی ماہانہ آمدنی چالیس ہزار تھی، اور شوہر بھی معقول تنخواہ لیتا تھا۔ مل ملا کے اتنے پیسے تو ہو جاتے تھے کہ اسکی چھوٹی سی فیملی مناسب ذندگی گزار سکے۔ لیکن شاید مہنگائی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ ہر مہینے کے بیس دن ہی مشکل سے کٹتے تھے۔ باقی کے دن اگلی تنخواہ کے انتظار میں گزرتے تھے۔ ہر ماہ کے آخر میں وہ حساب کتاب کے لیے بیٹھتی تھی، سوچتی تھی کہ اس دفعہ کسی قسم کی فضول خرچی نہیں کرے گی تاکہ کم از کم پورا مہینہ تنخوا پہ ہی گزارا ہوسکے اور ادھار نہ لینا پڑے۔
مہینے کی چھبیس تاریخ تھی، نئی تنخواہ آنے میں چار دن باقی تھے۔ آج پھر وہ حساب کتاب کرنے بیٹھی تھی۔
پندرہ ہزار گھر کا کرایہ، چار ہزار بجلی بل، بارہ ہزار تینوں بچیوں کی فیس، بیس ہزار بینک سے لی گئی گاڑی کی قسط، بیس ہزار گھر کی گروسری، دس ہزار کے لگ بھگ پیٹرول، پندرہ ہزار روزمرہ کا خرچ، دس ہزار کمیٹی جو کچھ مہینے پہلے ہی اس نے اپنی چچاذاد کی شادی کے خرچ نکالنے کے لیے ڈالی تھی۔ ‘منحوس پتہ نہیں کب جان چھوٹے کی اس کمیٹی سے’ ، وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔ ان سب چیزوں کی ادائیگی کے بعد تو ان کے پاس بامشکل پندرہ ہزار بچتے تھے۔ اس میں بھی کبھی بچوں کی کوئی ضرورت سامنے آجاتی تو کبھی کوئی اور مسئلہ۔
وہ سر پکڑ کے بیٹھ گئی تھی۔ کہاں سے وہ پیسے بچاتی کہ۔۔۔۔
‘ہوگیا حساب بیگم صاحبہ ؟ ‘ اسکے شوہر نے شوخ لہجے میں اسے چھیڑنے کی غرض سے کہا۔
‘حساب کے لیے ہے ہی کیا اظہر صاحب، مجال ہے جو کہیں سے کوئی گنجائش نکلے’ وہ زچ ہوکے بولی.
‘اب کیا ہوگیا کس کے لیے گنجائش نکال رہی ہیں؟’ اسکا شوہر انجان بنتے ہوئے بولا جیسے کچھ جانتا نہ ہو۔
‘کیا بتاؤں آپکو ، اس قدر پریشان ہوں میں۔ آفس میں کولیگ کی شادی کے لیے پیسے جمع کروانے ہیں۔ دو ہزار چوکیدار کے لیے بھی دینے ہیں اسکے بیٹے کا ایڈمیشن ہونا ہے میڈیکل میں’ وہ واقعی پریشان تھی۔
‘لیکن آپکی کولیگ کی شادی تو پچھلے مہینے ہو نہیں گئی تھی، اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ آپ نے پیسے بھی جمع کروادیے تھے۔’ اسکے شوہر نے ذہن پہ زور ڈالنے کی گویا اداکاری کی تھی، ورنہ وہ اپنے جیب سے نکلے نوٹ یاد رکھے ہوئے تھا۔
‘وہ تو زریاب کی شادی ہوئی تھی، اس مہینے کے آخر میں ردا کی شادی ہے۔ یقین کریں میں تو تنگ آگئی ہوں روز روز کے ان جھمیلوں سے۔’ وہ جھنجلائی ہوئی تھی، اور کچھ اس نے شوہر کو متاثر کرنے کے لیے اداکاری بھی دکھائی تھی۔
‘چلیں تحفہ دینا تو ٹھیک ہے، کوئی برائی نہیں اس میں۔ لیکن خود پہ اتنا بوجھ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے، اچھا تحفہ مناسب پیسوں میں بھی آسکتا ہے۔’ وہ کچھ سوچتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
‘ارے کہاں اظہر، صرف پچاس ہزار تو سلامی میں لکھوانے ہیں، باقی تحفے الگ سے ہوں گے۔ میری کولیگ بینش قسم سے خون کے آنسو روتی ہے۔ شوہر تو اسکا ہے نہیں، سارا نظام اسے خود سے ہی چلانا ہوتا ہے۔ کل کہہ رہی تھی کہ لین دین نے میری کمر توڑ کے رکھ دی ہے، مجھ سے ادھار مانگ رہی تھی۔ کیا بتاتی اسکو میرا اپنا ہاتھ کتنا تنگ ہے۔’ وہ مایوسی سے بتانے لگی۔
‘اللہ بہتر کرے گا، پریشان نہ ہوں۔ ایک کپ چائے تو پلا دیں۔’ اسکے شوہر نے خوشگواری سے کہا، وہ ماحول پہ چھائی سنجیدگی ختم کرنا چاہتا تھا۔
حساب کتاب والی کاپی وہ وہیں صوفے پہ چھوڑ کر اٹھ گئی تھی۔ وہ کچن میں آکے چائے بنانے لگی۔ اسکا ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا۔ ایک لمبی فہرست تھی جو اسکے دماغ میں گردش کر رہی تھی۔ اپنے شوہر کے سامنے وہ بہت کچھ چاہتے ہوئے بھی نہیں کہہ سکی تھی۔ اگلے مہینے اسے اپنی نند کو ہر حال میں گھر کھانے پہ بلانا تھا، اتنے عرصے بعد وہ دبئی سے آئی تھی تو کچھ نہ کچھ اسے اور اسکے بچوں کو دے کر ہی بھیجنا تھا۔ کتنی بار اسکی ساس اسے باتوں ہی باتوں میں باور کرواچکی تھیں۔ بہت زیادہ نہ بھی کرتی تب بھی اسے دس ہزار دعوت اور دس پندرہ ہزار انکے معمولی سے تحفوں کے لیے چاہیے تھے۔ وہ ابھی اسی پریشانی میں تھی کہ کل رات اسکی امی کی کال نے رہی سہی کسر بھی نکال دی تھی۔ فاروق ماموں کی بیٹی کا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ہونے پر ماموں نے خاندان بھر کی دعوت رکھ دی تھی۔ امی اپنی طرف سے پچیس ہزار دینے والی تھیں، اور امی ہی کے کہنے پر اسکی بہنیں سونے کی انگھوٹھی اور بالیاں خرید بھی لائی تھیں۔ امی اسکی ہاتھ کی تنگی سے واقف تھیں شاید اسی لیے اسے کوئی مشورہ دینے سے باز رہیں تھیں۔ لیکن وہ کوئی بچی تو تھی نہیں___ خاندان میں ہونے والی ایسی دعوتوں کی روایت سے خوب واقف تھی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی دل ہی دل میں اپنا موازنہ اپنی بہنوں بھابھیوں سے کرنے لگتی تھی۔ چھوٹا موٹا تحفہ دیتے ہوئے اسے احساس کمتری گھیر لیتی تھی یا پھر کوئی لالچی رشتےدار ہی طعنہ مار دیتا تھا۔ یہ سب اسکے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ کتنی راتیں اسکی اسی پریشانی کی نظر ہو جاتیں تھیں اور کتنی جوڑ توڑ کرنے میں گزر جاتی تھیں۔
ابلتی چائے ! نہ جانے کیسے کپ میں ڈالتے اسکے ہاتھ پر بھی گر گئی تھی۔ اس نے جلن کم کرنے کو پانی ہاتھ پہ گرایا اور اظہر کو چائے دینے لاؤنج میں آگئی۔ اس نے اظہر کو چائے دیتے ہوئے سوچا کہ وہ اظہر سے کم از کم اپنی نند کی دعوت اور تحفوں کے پیسے مانگ لے آخر معاملہ اظہر کی اپنی بہن کا تھا۔ لیکن وہ کچھ نہ کہہ سکی تھی۔۔۔۔ اظہر کی اپنی جیب آدھے مہینے میں ہی خالی ہو جاتی تھی۔ اپنے پاس تو وہ جیب خرچ اور پیٹرول کے چند ہزار ہی رکھتا تھا۔ باقی کے سارے پیسے خود اسی کے پاس ہوتے تھے۔ اکثر اوقات وہ تنخواہ ختم کرکے خالی ہاتھ ہوجاتی تو اظہر کو اِدھر اُدھر سے قرض لینا پڑتا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ بنیادی ضروریات کے علاوہ اظہر کسی بھی چیز کو اہم نہیں سمجھتا تھا۔ دعوتوں اور تحفے تحائف کے بےجا لین دین کو وہ دکھاوا سمجھتا تھا۔ خاندان کی آخری شادی پہ جب اس نے کمیٹی کے ایک لاکھ صرف سلامی تحفوں اور بچوں کے کپڑوں پر لگا دیے تھے تو اظہر نے اسے اچھا خاصا لیکچر دے ڈالا تھا، ‘حد ہوگئی بیگم صاحبہ، اتنی فضعول خرچی کریں گی تو جینا محال ہو جائے گا۔ نہیں مقابلہ کر سکیں گی ان رسومات کا، یہ ادا کرنے والوں کو قبر تک پہنچا کے بھی خود ذندہ رہتیں ہیں۔’
اب وہ اظہر کو کیا بتاتی کہ وہ چاہتے ہوئے بھی ان چیزوں سے منہ نہیں پھیر سکتی تھی۔ کچھ شوق بھی تھا اور کچھ ناک اونچی رکھنے کی مجبوری بھی۔ تب سے اسکی کوشش ہوتی تھی کہ اظہر کو بتائے بغیر ہی یہ معاملات چپکے چپکے نمٹا لیا کرے۔ پیسے چاہیے ہوتے تو کہیں نہ کہیں سے قرض پکڑ لیتی تھی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اسکے اوپر پہلے ہی بےتحاشہ قرض چڑھ چکا تھا۔ جس جس سے وہ ادھار لے سکتی تھی لے چکی تھی، اور اب دور دور تک اسے کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا جس سے وہ ادھار لے سکتی۔ حتیٰ کہ اس چکر میں وہ اپنا چھوٹا موٹا زیور بھی بیچ چکی تھی۔ وہ کیا کرسکتی تھی اب اسے یہ سوچنا تھا۔
شام کو جب بچیاں ٹیوشن پڑھنے پڑوس میں گئیں تو وہ خود انکے کمرے کی طرف آگئی۔ آئی تو وہ اس نیت سے تھی کہ انکے کمرے کی صفائی اور جھاڑ پونچھ کردے، لیکن انسان کی نیت بدلنے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے۔۔۔۔ وہ جو کام کرنے کا سوچ کے بھی نہیں آئی تھی، وہ بھی کرکے ہی نکلی تھی۔
یہ کچھ دن بعد کی بات ہے، اس کی سب سےبڑی بیٹی ایمان نے باپ سے انعام میں سو روپیہ پایا تو خوشی خوشی اسے منی باکس میں ڈالنے چلی گئی۔ یہ تینوں بہنوں کا مشترکہ منی باکس تھا جس میں وہ دو سالوں سےاپنی سائیکل خریدنے کے لیے پیسے جمع کر رہی تھیں۔ تینوں ہی اگرچہ عمر میں گھر کے بڑوں سے کافی چھوٹی تھیں لیکن بےحد سمجھدار اور احساس کرنے والی بچیاں تھیں۔ جانتی تھیں کہ ماں باپ کے لیے پیسے بچانا آسان نہیں تھا، اسی لیے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کی قربانی دے کر وہ اپنی سائیکل کے لیے خود ہی پیسے بچا رہی تھیں۔ ایمان نے پیسے ڈالے اور پیار سے منی باکس اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا، پھر جیسے ہی اس نے ہمیشہ کی طرح اپنی جمع پونجی کو محسوس کرنے کے لیے منی باکس اوپر نیچے ہلایا، اسکا دل بھی ہل گیا۔
یہ پہلی دفعہ تھی جب اسکا دل یوں کھٹکا تھا، اس نے تیزی سے اپنی کتابوں والی الماری کھولی تاکہ منی باکس کی چابی نکال سکے۔۔۔۔ یہیں تو رکھی تھی چابی کہاں چلی گئی؟ اس نے پوری الماری الٹ پلٹ دی۔۔۔۔ چابی سرے سے غائب تھی۔ ایمان کی چیخوں نے پورا گھر سر پر اٹھا دیا تھا، ‘
فاطمہ ، مریم ‘ ، ‘فاطمہ ، مریم !!’
دونوں چھوٹی بہنیں بھاگتی ہوئی کمرے میں پہنچیں، تو ایمان ان دونوں پہ برس پڑی ‘کہاں رکھی ہے چابی، میں تم دونوں کے ہاتھ توڑ دوں گی۔’ وہ بیچاری پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں، پھر ایمان کے سامنے قسمیں کھا کر یقین دلانا پڑا کے انہوں نے چابی کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ تینوں بہنوں نے مل کر پورا کمرہ چھان مارا، چابی نہیں ملنی تھی، سو نہ ملی۔ تینوں نے باری باری منی باکس ہاتھ میں لیا اور اور اسے ہلا ہلا کے اپنی جمع پونجی محسوس کرنے کی کوشش کی۔ تینوں کو ہی شاید کچھ محسوس نہیں ہوا، تبھی تینوں بیٹھ کے زاروقطار رونے لگیں۔
باہر اظہر اور حمیرا تک آواز پہنچی تو وہ بھاگتے ہوئے کمرے میں آئے، کمرے میں گویا قیامت برپا تھی۔۔۔ ہر چیز بکھری ہوئی اپنے مکینوں کے دل کی ترجمانی کررہی تھی۔ تینوں کے چہرے دکھ اور صدمے کے زیرِ اثر بھیگے ہوئے تھے۔
‘یہ سب کیا ہے ، کیا ہوگیا ہے تم لوگوں کو ؟ ‘ حمیرا پریشانی سے بولی۔
‘کیا ہوگیا ہے میرے بچو ! ‘ اظہر تیزی سے تینوں کے قریب گیا تھا۔
‘ماما آپ نے منی باکس کی چابی تو نہیں دیکھی؟’ ایمان نے امید سے پوچھا۔
‘نہیں تو میں نے کہاں دیکھی۔’ حمیرا کے قدموں تلے سے زمیں نکل گئی تھی۔ وہ بوکھلائی ہوئی بولی۔
‘کہاں جانی ہے یہی کہیں ہوگی، تم لوگوں نے تو ایسے قیامت برپا کر رکھی ہے جیسے پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے۔’
‘ماما چابی کہیں نہیں ہے ، اور یہ دیکھیں منی باکس خالی لگ رہا ہے’ ایمان نے ایک بار پھر ہلا کر دیکھا۔
‘مجھے دکھاؤ۔۔۔۔ ‘ اظہر نے ایمان کے ہاتھ سے لیکر خود بھی ہلا کر دیکھا تو بےساختہ کہہ اٹھا، ‘یہ تو واقعی خالی لگ رہا ہے۔’ اسکے لہجے میں بھی تشویش تھی۔
باپ کے منہ سے یہ سننا تھا کہ تینوں کو یقین آگیا کہ انکی جمع پونجی لٹ چکی ہے۔ وہ تینوں باپ کے گلے لگ کے رونے لگیں۔ انکا معصوم سا خواب ٹوٹ چکا تھا۔ دو سالوں سے وہ اس میں پائی پائی جمع کر رہی تھیں۔ انکے اندازے کے مطابق اب تک وہ اس میں تقریباً اٹھارہ ہزار ڈال چکی تھیں، اور اظہر کے کہنے پر انہوں نے صرف پچیس ہزار تک جمع کرنے تھے۔ تینوں باپ کے ساتھ بیٹھی بچوں کی طرح رورہی تھیں۔۔۔۔ حمیرا کے کانوں میں مسلسل انکی آوازیں گونج رہی تھیں۔
کون لے سکتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ کس نے چوری کی؟ ۔۔۔۔۔ کہیں کام والی آنٹی نے تو نہیں ایسا کیا؟ ۔۔۔۔۔ پر کام والی آنٹی کو کیا پتہ چابی کہاں رکھی تھی۔۔۔۔۔ ڈھونڈ لی ہوگی۔۔۔۔۔ اب ہم سائیکل نہیں لے سکیں گے۔۔۔۔ کب سے جمع کر رہے تھے …. اس سے اچھا تھا نہ ہی جمع کرتے۔
حمیرا نے کمرے میں سے چپ چاپ نکلتے ہوئے اظہر کو کہتے سنا تھا، ‘میں لے دوں گا سائیکل اپنی بیٹیوں کو ، آئی پرومس ۔۔۔۔ اب رونا بند کرو’
حمیرا اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ وہ اپنی حالت کسی سے بیان نہیں کر سکتی تھی۔ پتہ نہیں بیٹیوں کے دکھ پر دکھ تھا یا۔۔۔۔۔
اس نے الماری کھولی….. سامنے تحفے پڑے تھے جو وہ کچھ دن پہلے ہی لیکر آئی تھی….. یہ تحفے اسے اپنے ماموں کے گھر دعوت والے دن لیکر جانے تھے….. لگ بھگ اٹھارہ ہزار کے تحفے…. پتہ نہیں وہ مطمئن کیوں نہیں تھی….. عجیب سی گھٹن تھی جو اسے سانس لینا بھی دشوار لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ تحفے جو کچھ دن پہلے تک اسے فخر میں مبتلا کررہے تھے۔۔۔۔۔ آج گلے میں پھندے کی طرح چب رہے تھے۔
اس نے ایسا کب چاہا تھا….. وہ تو اس دن صرف صفائی کے لیے گئی تھی…. منی باکس پہ نظر پڑی تو اسے لگا کہ وہ وقتی طور پہ اپنی پریشانی کا حل نکال سکتی تھی۔۔۔۔ اس نے پیسے نکال کے خالی منی باکس کو اس لیے لاک کر دیا تھا کہ ایک دو ماہ میں اس کو دوبارہ سے بھر دے گی اور یوں بچیوں کو کچھ پتہ بھی نہیں چلے گا۔ چابی اس نے اپنی ذاتی چیزوں کی الماری میں چھپا دی تھی۔ اسے کیا پتہ تھا کہ ایمان کو چابی کے نہ ہونے کا یوں پتہ چلے گا۔
اس نے چوری کی ہوئی چابی نکالی اور کچن میں چلی گئی۔۔۔۔ یہ چابی اب کسی کام کی نہیں تھی۔۔۔۔۔ وہ جانتی تھی۔۔۔۔ وہ نہ سچ بول سکتی تھی…. نہ کوئی کہانی بنا سکتی تھی۔۔۔۔۔ اس نے تین چار ٹشو لیکر چابی کو لپیٹا ….. اور چابی کو ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔۔۔۔ پھر وہ بھاری قدموں کے ساتھ کچن سے باہر نکل آئی….. بینش نے کہا تھا کہ لین دین نے اسکی کمر توڑ رکھی ہے…. وہ اسے کیا بتاتی لین دین کے چکر میں اس کا کیا کچھ ٹوٹ گیا تھا۔۔۔۔۔۔ دل میں درد سا اٹھا تو حمیرا دو آنسوؤں کو گرنے سے نہ روک پائی۔۔۔۔۔ اندر ابھی تک ماتم کا سا سماں تھا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.