تحریر انعم طاہر
گوشتابے یخنی ، حلیم، نرگسی کوفتے، , پالک پنیر، مٹن کورما، اچار چکن ، مچھلی روسٹ، نمکین گوشت ، الفریڈو پاسٹا، سیخ کباب، چپل کباب، چکن ملائی بوٹی، تندوری باقر خانی ، روغنی نان، ابلے چاول، بیف پلاؤ ، چکن فرائڈ رائس، تین قسم کا سلاد ایک بڑے سے دسترخوان پہ سجا کتنی نظروں کو لبھا رہا تھا۔ کھانا سجنے کی دیر تھی کہ کمرے میں موجود سب لوگ کھانے پہ گویا ٹوٹ پڑے تھے۔ وہ بھی وہیں بیٹھی تھی اور اپنی جگہ پہ جمی ہوئی تھی۔ اسکا کھانا کھانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا حالانکہ اسکی ماں نظروں ہی نظروں میں اسے مہمانوں کے ساتھ دسترخوان پہ بیھٹنے کا کہی بار اشارہ کرچکی تھی۔ اسے بیٹھنے پہ کوئی اعتراض نہیں تھا ، وہ بیٹھ جاتی لیکن وہ جانتی تھی اسکی ماں پھر اسے کھانا کھانے پہ بھی مجبور کرنے والی تھی۔ وہ اپنی ماں کو یہ بات سمجھانے سے قاصر تھی کہ وہ ایک لقمہ تک حلق سے نیچے نہیں اتار سکتی تھی۔ وہ اگر ماں کے کہنے پر مجبوراً کھانا کھا بھی لیتی تب بھی اسے الٹیاں کرنے واشروم بھاگنا پڑتا جو مہمانوں کے سامنے ایک انتہائی ناگوار عمل تھا۔
پتہ نہیں اسے کیسی بیماری لاحق ہوگئی تھی؟ جیسے ہی وہ کسی دعوت پر سجا دسترخوان دیکھتی اسکی طبعیت خراب ہونے لگتی، پچھلی کئی دعوتوں پر جب اسکی ماں نے اسے زبردستی کھانا کھلانے کی کوشش کی تو وہ خود کو الٹیاں کرنے سے نہیں روک پائی تھی۔ ماں بھی لوگوں کی باتوں کی وجہ سے مجبور تھی، جب کہیں وہ بیچاری الٹیوں سے بچنے کے لیے اپنے کمرے میں قید ہوجاتی تو رشتےدار ایک ہزار مرتبہ ماں کو یہ باور کروا دیتے تھے کہ رفعت کی بیٹی کی تربیت میں کمی رہ گئی ہے، وہ کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتی۔
خیر اب خاندان بھر میں موضوع گفتگو اسکی الٹیاں تھیں۔ کوئی پریشانی کا اظہار کرتا، کوئی ہمدردی تو کوئی عادتاً تذکرہ چھیڑ دیتا۔ سب کے اپنے اپنے مشورے تھے۔۔۔۔ کسی کو لگتا کہ اسلام آباد کے بڑے ہسپتال میں جاکر اسکا علاج کروانا چاہیے ، کوئی ہومیوپیھتک کے فائدے گنوانے لگتا، کوئی جادو ٹونے کے توڑ کے لیے پیر فقیر کے پاس بھیجنا چاہتا ، تو کوئی سادگی سے پانچ وقت کی نماز نہ پڑھنے کو قصوروار ٹھہرا دیتا۔
رفعت اور شفیق دونوں ہی اسکی اس حالت پہ پریشان ہوجایا کرتے تھے۔ وہ گھر کی اکلوتی اولاد تھی اور ماں باپ دونوں کی انکھوں کا تارا تھی____ اسی لیے تو اسکا نام بھی تارا رکھا گیا تھا۔ وہ تارا کو شہر کے ہر اچھے ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے لے جاچکے تھے۔ کون سا ٹیسٹ تھا جو نہیں ہوا تھا۔ ٹیسٹ رپورٹس سے کم ازکم یہ بات سامنے آگئی تھی کہ تارا کو کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں تھا۔ روزمرہ کی کچھ دوائیاں لکھ کر ڈاکٹرز نسخہ اسکے باپ کے ہاتھ میں تھما دیا کرتے تھے۔ تارا کو دوائیاں کھاتے دیکھ کے ماں باپ مطمعن ہوجایا کرتے تھے۔ ساتھ ہی اسکی ماں کو لگتا تھا کہ پیر صاحب سے لایا ہوا تعویز اور دم کیا ہوا پانی انتہائی کام کی چیز تھی تبھی تو اتنی الٹیوں کے بعد بھی تارا بھلی چنگی ہو جاتی تھی۔ اسکا یوں بھلا چنگا ہو جانا اسکی ماں کو کنفیوز ہی رکھتا تھا۔ وہ اسے بظاہر ٹھیک دیکھ کر اور روٹین میں کھاتا پیتا دیکھ کر یہی گمان کرتی تھی کہ اگلی بار ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اسی امید کے ساتھ وہ ہر دعوت پہ اسے لوگوں کا منہ بند رکھنے کے لیے لازمی گھسیٹتی اور کھانا کھانے پہ مجبور بھی کر دیتی تھی۔ نتیجہ الٹیوں کی صورت میں سامنے آتا، اور اگلے کہی دن تک موضوعِ گفتگو اسکی الٹیاں رہتیں۔۔۔۔
خیر اس بار بھی یہی ہوا ، کچھ دن پہلے ہی وہ شہر کے مشہور ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کے آئے تھے جو بڑا سا نسخہ دے کر اور بھاری فیس لیکر بہت حد تک اسکے ماں باپ کو مطمعن کر گیا تھا۔۔۔۔۔ سو آج پھر اسکے گھر خاص دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اسکی ماں کی بچپن کی سہیلی نائلہ اپنے شوہر ، شادی شدہ بیٹے و بہو اور ایک عدد کنوارے بیٹے کے ساتھ مدعو تھے۔ اسکی ماں کا بس چلتا تو کھانے کی ہر چیز دسترخوان پہ سجا دیتی، وہ تو بھلا ہو دسترخوان کا جس کے حجم نے اس بات کی اجازت ہی نہیں دی تھی۔ ماں کی تو ویسے ہی خاندان اور آس پڑوس میں دھوم تھی “دعوت کرنا تو کوئی رفعت سے پوچھے”۔ کوئی تارا سے پوچھتا تو وہ بھی اچھی طرح سب کچھ بتا سکتی تھی۔ بچپن سے لیکر اب تک اس نے اپنے گھر اور خاندان میں کھانے کی پرتکلف دعوتیں ہی دیکھی تھیں۔ اسکے اپنے گھر میں ہر دو چار دن بعد کوئی نہ کوئی مدعو ہوتا تھا لیکن کمال مہمان نواز تھی اسکی ماں___ ہر بار وہ اتنا ہی پرتکلف اہتمام کرتی تھی۔ مجال ہے جو اس کے ماتھے پہ کوئی بل آتا، بس یہ تھا کہ کمر درد کا اکثر ذکر کرکے تارا اور شوہر کو احساس نہ ہونے کا طعنہ مار دیا کرتی تھی۔ شوہر تو جواب میں وہی صورت بنا لیتا تھا جو اکثر بڑھاپے کا شکار شوہر بناتے ہیں لیکن تارا کبھی کبھی منہ پھٹ ہوکے ماں کو کہہ دیتی تھی ” آپ کا اپنا شوق ہے ، کس نے کہا ہر وقت اسی چکر میں پڑی رہا کریں۔ مجھ سے نہیں ہوتا یہ کچھ۔ “
ویسے بھی تارا کو تو وہ کب کا کہنا چھوڑ چکی تھی، جانتی تھی دعوت کے نام پہ تارا کا نہ مزاج درست رہتا تھا نہ طبعیت۔ یہی کافی تھا کہ تارا مہمانوں کے ساتھ بیٹھ جاتی۔ بالخصوص آج تو وہ تارا کے لیے بہت کچھ سوچ رہی تھی۔ نائلہ کا بیٹا جرمنی سے پڑھ کر آیا تھا اور انتہائی لائق فائق ماہر نفسیات تھا۔ لوگ بتاتے تھے کہ وہ سکینڈوں میں مریض کو جانچ لیتا تھا۔ رفعت ایسے خوبصورت اور ہونہار لڑکے کو ہاتھ سے نکلنے دینا نہیں چاہتی تھی۔ اسکی دوست باتوں ہی باتوں میں رشتے کی بات بھی کرچکی تھی۔ اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ لیتے اور بات چیت کرکے ایک دوسرے کو جان لیتے۔
دیکھنے کی حد تک تو تارا کو وہ لڑکا بہت اچھا لگا تھا، جاننے کا مرحلہ آنے سے پہلے ہی ماں نے ملازمہ کو کھانا لگانے کا حکم جاری کردیا۔ اُدھر ملازمہ طرح طرح کے کھانے لیکر آتی رہی اور اِدھر تارا کی حالت غیر ہوتی رہی۔ اسے کھانے کی خوشبو انتہائی ناگوار محسوس ہوئی حتیٰ کہ اسے متلی محسوس ہونے لگی۔ اوپر سے رفعت اسے میز پہ آنے کے اشارے مسلسل کررہی تھی۔ تارا اپنی متوقع سسرال کا سوچ کر صوفے سے اُٹھ کر دسترخوان کے قریب آگئی تھی۔ اسکو ٹھنڈے پسینے آنے لگے جو شاید اسکے سوا کسی کو محسوس نہیں ہورہے تھے۔ پتہ نہیں کس نے اور کیسے اسے بٹھایا۔۔۔۔۔ اسے کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا۔ وہ جن کی خاطر اس دسترخوان تک آئی تھی انھیں بھی فراموش کر چکی تھی….. اسکا سر چکرانے لگا….. پورا کمرہ گھومنے لگا…. اس گول گول چکر میں بس دکھائی دیا تو ۔۔۔۔ گوشتابہ، پنیر، مچھلی ، پالک، قورمہ اور پتہ نہیں کیا کیا۔۔۔۔۔ اسے ابکائی آئی اور یہ کیا۔۔۔۔ دسترخوان تارا کی الٹیوں سے بھر چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر تک سب بت بنے رہے، اتنے لزیذ کھانے کا یہ انجام شاید ہی کسی کے گمان میں تھا۔ تارا الٹیاں کرتی گرتی پڑتی اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی۔ ماں باپ ملازمہ کو صفائی کی ہدایت دے کر جلدی سے تارا کے پیچھے گئے____ تارا واش روم سے باہر آئی تو بلکل ہشاش بشاش تھی جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ماں باپ ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے۔ اگرچہ وہ ٹھیک تھی لیکن اسے آرام کرنے کا کہہ کر وہ خود باہر آگئے تھے___ وہ جانتے تھے کہ انھیں ایک بار پھر اسکی طبعیت کی خرابی کا بہانہ کرنا تھا۔ باہر آئے تو مہمانوں نے سلیقے سے پریشانی کا اظہار کیا۔ لڑکے کو جانے کیا سوجی کہ تارا کے ماں باپ سے اجازت لیکر تارا کو دیکھنے اسکے کمرے میں چلا آیا۔
تارا آرام سے بیٹھی میگزین دیکھ رہی تھی، لڑکے کو دیکھ کر کچھ گڑبڑا سی گئی۔ وہ کیا بتاتی اسے کیا ہوا ہے۔
“آپ ! آئیے پلیز بیٹھیں” تارا نے سامنے پڑھے کاؤچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
لڑکا شکریہ ادا کرتا ہوا بیٹھ گیا، وہ اسے بغور دیکھ رہا تھا جیسے کچھ سمجھنے کی کوشش کررہا ہو۔
“آپکی ماما بتا رہی تھیں کہ آپ کو معدے کی تکلیف رہتی ہے ” وہ پوچھنے لگا۔
“جج جی اکثر ” تارا جلدی سے بولی۔
“چیک کروایا آپ نے ؟ ” لڑکے کے لہجے میں فکر تھی۔
“جی کروایا ہے ، ٹیسٹس بھی ہوئے ہیں۔۔۔ ڈاکٹر نےبس روٹین کی دوائیاں دے رکھی ہیں۔ ویسے ڈاکٹرز تو یہی کہتے ہیں کہ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے” وہ سچائی سے بولی۔
“آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے ، کیا آپکو خود کو تندرست محسوس کرتی ہیں ؟ وہ پوچھنے لگا۔
“ایسا ہی ہے ۔۔۔ میں نے کبھی خود کو بیمار محسوس نہیں کیا، بس کبھی کبھی اس طرح سے معدے کا مسئلہ ہوجاتا ہے۔۔۔ “
“تو کیا آپکو کسی طرح کی کوئی پریشانی ہے۔۔۔ ؟” اس نے قدرے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
“میں سمجھی نہیں، آپ کیا پوچھنا چاہ رہے ہیں؟ ” وہ محتاط ہوکے بولی۔
“معاف کیجییے گا لیکن میں ایک سائیکاٹرسٹ ہوں۔ آپکی کچھ دیر پہلے کی کیفیت میں نے اچھی طرح دیکھی ہے، آپکا رنگ نیلا پڑھ چکا تھا ،سردی میں بھی ٹھنڈے پسینے أرہے تھے آپکو۔۔۔۔ پھر اتنی الٹیاں۔۔۔۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اسوقت آپ بلکل ٹھیک ہیں، لگتا ہی نہیں کہ کچھ دیر پہلے آپ پہ وہ سب گزری ہے ” اس کے لہجے میں تشویش تھی۔
“میں یہ سوال ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔آپ مجھ پہ ٹرسٹ کرسکتی ہیں۔۔۔۔ اگر آپکو اس رشتے سے کوئی پرابلم ہے تو بھی مجھ سے شیئر کرسکتی ہیں۔ یقین کریں مجھے بلکل برا نہیں لگے گا”
“ارے آپ بات کو کس طرف لیکر جارہے ہیں، ایسا کچھ نہیں ہے۔۔ ” وہ جلدی سے بولی۔
“تو پھر؟ ۔۔۔۔۔۔ دیکھیں یہ تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کسی بھی طرح بیمار نہیں ہیں۔۔۔۔ کیا کوئی سٹریس ہے آپکو؟ ” وہ پوچھنے لگا ۔
تارا نے ایک لمبی سی سانس بھری۔ جانے کیوں اسے محسوس ہوا کہ وہ عرصے سے اسی مسیحا کی تلاش میں تھی۔ اسکی ماں اسے اکثر کہا کرتی تھی “تم ساری دنیا سے نرالی ہو، مجھے تو تمہاری بےتکی باتوں کی سمجھ نہیں آتی” یا پھر “کہتی ہوں تمہارے بابا سے تمہارے دماغ کا علاج کروایں۔” مسئلہ شاید واقعی اس کے دماغ کا تھا۔۔۔۔۔ تارا کو ایک لمحہ لگا فیصلہ کرنے میں، پھر اس نے بولنا شروع کیا۔
“ڈاکٹر بلال ! میں نے جب سے ہوش سنھبالا ہے تب سے اپنے گھر میں، اپنے خاندان میں، اپنے اردگرد ایک ہی چیز تسلسل سے دیکھی ہے۔۔۔ محبت اور خلوص کی بات نہیں کررہی۔۔۔۔ کھانے کی بات کر رہی ہوں ” تارا کے لہجے میں افسوس تھا جبکہ اس اسکے چہرے پہ ایک ہلکی سی تمسخرانہ مسکراہٹ تھی۔ ڈاکٹر بلال دھیان سے اسکی بات سننے لگا۔
” ہر دوسرے دن ایک بڑی سی دعوت اور دسترخوان پہ لگا بڑا سا کھانا …. کبھی ایک کے گھر، کبھی دوسرے کے گھر، کبھی تیسرے کے گھر…. شادی کا کھانا ، شادی کے بعد کا کھانا ،افطار پارٹی کا کھانا، عید ملن کا کھانا ، گود بھرائی رسم کا کھانا ، بچے کی پیدائش کا کھانا ، پاس ہونے کا کھانا، جاب لگ گئی تو کھانا، پروموشن ہوگئی تو کھانا، عمرے اور حج کا کھانا ، سالگیرہ کا کھانا ، ویڈینگ اینیورسری، نیو ائیر کا کھانا ، کوئی ملک سے باہر جارہا ہے تو کھانا، کوئی آرہا ہے تو کھانا۔۔۔۔ ستم تو یہ کہ مرنے پہ بھی کھانا، سوئم کا کھانا ، چہلم کا کھانا ، برسی کا کھانا ۔۔۔۔۔۔ کھانا ہی کھانا ۔۔۔۔۔۔ ہر چیز کا کھانا ، ہر چیز پہ کھانا !!! ” آخر میں وہ تقریباً چلائی تھی۔ تارا کو پتہ بھی نہیں چلا کب اسکی آواز اونچی ہوگئی تھی۔
تارا بولتی رہی اور ڈاکٹر بلال نے اسے بولنے دیا۔ ڈاکٹر بلال نے محسوس کیا کہ وہ اکتائی ہوئی تھی، نڈھال تھی۔ اسکے اندر بہت سا غبار تھا۔
“جب چھوٹی تھی تو خوش ہوتی تھی کہ چلو اپنی پسند کا فراک پہن لوں گی، کزنز کے ساتھ کھیلنے کا موقع مل جائے گا لیکن۔۔۔۔ لیکن جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی الجھن کا شکار ہوتی گئی۔ پہلے تو صرف ماما کی وجہ سے برا لگتا تھا، کیوں وہ اپنا سارا وقت ان چیزوں پہ ضائع کر دیتی تھیں؟ مجھے اتنا وقت نہیں مل پاتا تھا کہ میں ماما سے اپنے دل کی چند باتیں کر سکوں، جب دیکھتی ماما کو گوشتابوں کی گولائی میں الجھا ہوا پاتی۔
پھر بہت کچھ چبھنے لگا، الجھن بڑھنے لگی، بچا ہوا کھانا کبھی ڈسٹ بن کی نظر ہوجاتا تو کبھی کسی ملازم کے بھاگ جاگ جاتے۔ دکھ ہونے لگا تھا اس معاشرتی نا انصافی پہ جہاں ایک طبقہ دوسرے کے “بچے کچے” کھانے کا حق دار تھا۔۔۔ صرف اس لیے کہ بھوک کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا”
ڈاکٹر بلال صرف اس کے الفاظ پہ ہی غور نہیں کر رہا تھا۔ وہ اس کے لہجے کے اتار چڑھاؤ سے چھلکتے جذبات اور اسکی آنکھوں کی نمی کے پیچھے چھپی وحشت بھی بہت آرام سے دیکھ سکتا تھا۔ تارا صرف سانس لینے کو رکی، پھر کہنے لگی۔
“میں ڈرتے ڈرتے سمجھانے کی کوشش کرتی “ماما یہ سب کھانے آپ لوگوں کے لیے اچھے نہیں ہیں، سارا خاندان شوگر، یوریک ایسڈ اور ہائی بی پی کے مسائل سے دوچار ہے۔ کچھ تو رحم کریں خود پہ” ، “ماما یہ سب شو آف ہے، ہر دعوت پہ دس پندرہ کھانے۔۔۔۔ پلیز یہ سب مت کیا کریں” ، “کتنے لوگ دو وقت کا سادہ کھانا نہیں کھا سکتے۔ اس سے تو اچھا ہے آپ کسی غریب کی مدد کردیں.” ماما میری باتوں کو ایک کان سے سن کے دوسرے سے نکال دیتیں تھیں، انھیں ویسے ہی لگتا تھا کہ میرا دماغ خراب ہے۔”
تارا نے کہتے ہوئے سر جھٹکا تھا۔ وہ کچھ لمحے ڈاکٹر بلال کے بولنے کا انتظار کرتی رہی۔ وہ کچھ نہ بولا تو تارا نے اپنی بات پھر سے شروع کی۔
“پھر ایک وقت آیا کہ میں نے تنگ آکے یہی باتیں باقی خاندان والوں کے سامنے بھی کرنی شروع کردیں۔ ایک دن جب چھوٹی خالہ کی ساس کے سوئم پر کچھ خواتین کو کھانے میں نقص نکالتے دیکھا تو رہ نہیں سکی۔۔۔ ” آپ افسوس کرنے آئی ہیں یا کھانا کھانے ؟ ” بات بڑھتے بڑھتے آگے نکل گئی۔۔۔۔۔ خواتین باتیں سنا کے کھانا کھائے بغیر ہی چلی گئیں۔ اسکے بعد جو مجھے جو کچھ سنا سکتا تھا سناتا رہا، میری وجہ سے ماما بابا لوگوں کی عدالت میں مجرم بنے کھڑے رہے۔ میرے حق میں انکے پاس کوئی دلائل نہیں تھے، درحقیقت وہ بھی مجھ سے میری باتوں سے میری سوچ سے تنگ تھے۔ اس واقعے کے بعد ماما نے کہی دن تک مجھ سے بات نہیں کی اور پھر میں کبھی بول نہیں سکی، چپ ہوکر سب کچھ دیکھتی رہی، اپنا دل مار کے اس سب کا حصہ بنی رہی۔”
تارا نے بات مکمل کرکے کب کی رکی سانس خارج کی اور خاموش ہوگئی۔
“پھر۔۔۔ پھر کیا ہوا؟ ” ڈاکٹر بلال اس سے پہلے اپنے مریضوں سے ہر طرح کی کہانیاں سن چکا تھا۔۔۔۔ لیکن جو کہانی اسوقت وہ سن رہا تھا وہ بلاشبہ اپنی نوعیت کا منفرد اور دلچسپ کیس تھا۔ وہ کچھ بھی کہنے سے پہلے اچھی طرح تارا کو سننا چاہتا تھا۔
“بس پھر آہستہ آہستہ مجھے دعوت پہ پکنے والے مخصوص کھانوں سے عجیب سی اکتاہٹ ہوگئی۔ جیسے ہی اتنے کھانے ایک ساتھ دستر خوان پہ دیکھتی طبعیت خراب ہونے لگتی۔ ماما کو میری بات پہ یقین نہیں تھا، وہ سمجھتی تھیں کہ میں جان بوجھ کر طبعیت کی خرابی کا بہانہ کرتی ہوں۔ وہ ذبردستی مجھے دعوت کی میز پہ بیٹھا دیتیں، ذبردستی کھانا ڈال دیتیں۔۔۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا ماما کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہوتے الٹیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔۔ ماما بابا وقتی طور پہ پریشان تو ہوتے ہیں لیکن ہر بار ڈاکٹر سے دوائیاں لانے کے بعد وہ مطمعن ہوجاتے ہیں، انھیں لگتا ہے کہ دوائیاں اثر کرتی ہیں تبھی تو میں روٹین میں بلکل نارمل ہوتی ہوں۔۔۔۔۔۔ سو یہ سلسلہ یونہی چل رہا ہے ” تارا کے لہجے میں تھکاوٹ اتر آئی تھی۔ ڈاکٹر بلال سمجھ نہیں سکا کہ یہ تھکاوٹ مسلسل بولنے کی تھی یا برسوں کچھ سہنے کی۔
“آج جو سب ہوا میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ، یوں سب کے سامنے۔۔۔۔۔ سب کی نظروں میں سوال دیکھنا بہت تکلیف دیتا ہے ” ایک آنسو تارا کی آنکھ سے ٹپکا، پھر وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔
“آپ بتائیں کیا کھانا ذندگی کا مقصد ہو سکتا ہے ؟ کھانا تو ایک جسمانی ضرورت ہے جو ذندہ رہنے اور پیٹ بھرنے کے لیے ضروری ہے۔۔۔۔ پھر یہ لوگ کیوں اسے ذندگی کا واحد مقصد سمجھ بیٹھے ہیں ؟؟ کون لوگ ہیں یہ؟ ” ڈاکٹر بلال کو آنسوؤں سے رندھی ہوئی آواز سنائی دی، الفاظ بے حد سادہ تھے، سوال بے حد پیچیدہ!
ڈاکٹر بلال خاموشی سے اسے دیکھے گیا۔ اُسے تارا پہ بےحد ترس آیا تھا۔ اس کے والدین اسے ہر اچھے ڈاکٹر سے چیک کروا چکے تھے جن کے پاس تارا کی بیماری کا کوئی علاج نہیں تھا۔ ہاں! یہ سچ تھا۔۔۔تارا کو کوئی جسمانی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ تارا کا مسئلہ نفسیاتی تھا۔۔۔۔ معاشرتی تھا۔۔۔۔ جذباتی تھا۔۔۔۔۔ لیکن کوئی اسکے مسئلے کو مسئلہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
ڈاکٹر بلال کے پاس تارا سے کہنے کے لیے بہت کچھ تھا، لیکن اس سے پہلے اسے ضروری لگا تھا کہ وہ باہر جاکر تارا کے ماں باپ کو وہ حقیقت بتائے جس سے وہ ایک عرصے سے انجان بنے ہوئے تھے____ تارا بیمار نہیں تھی۔۔۔۔ نہ ہی تارا کی الٹیاں معدے کی خرابی کے سبب تھیں۔۔۔۔ الٹیوں کا تعلق اس الجھن سے تھا جو اسکے ذہن میں تھی۔۔۔ اس گھٹن سے تھا جو الٹیوں کی صورت باہر آنے لگی تھی
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.