کہانی کار : نازیہ نزی/ نوشہرہ کینٹ خیبر پختونخوا*
آج ابراہیم بہت خوش تھا۔ وہ ویڈیو کال پر پاکستان میں مقیم اپنی دادی جان کو امریکی بندرگاہ کے نظارے کروا رہا تھا۔ اسے سمندری سفر کا بہت شوق تھا۔ اس کے والد ایک سائنس دان تھے اور آج کل وہ روبوٹک آب دوز کے ذریعے سمندر کے اندر گہرائی میں تحقیقی ویڈیوز بنانے کا کام کر رہے تھے۔
ابراہیم بچپن ہی سے منفرد خصوصیات کا حامل تھا۔ وہ اپنے والد کی سائنسی تحقیق میں مسلسل ساتھ رہتا تھا۔ شاید وہ قدرتی طور پر ایک سائنس دان ہی پیدا ہوا تھا۔ اس کی غیر معمولی صلاحیتیں دیکھ کر اس کے والد نے ابراہیم پر بہت محنت شروع کر دی اور اب اس چھوٹے سائنس دان نے اپنے والد کی معیت میں ایک روبوٹک فش ایجاد کی، جس پر بارہ ممالک کے سائنس دانوں نے تہنیتی ویڈیوز بنا کر اس خبر کی خوب کوریج کی۔ جلد ہی یہ خبر پھیلتی چلی گئی اور اس روبوٹ فش کو سمندر کی گہرائی میں تحقیق کرنے بھیجا گیا۔ یہ روبوٹ فش سمندر کی دراڑوں اور جِھریوں میں گھس کر آسانی سے تصاویر اور ویڈیوز بنا سکتی تھی۔ آب دوز بنانے والے ماہرین اس ایجاد سے متاثر تھے۔ روبوٹ فش کے ذریعے سے بحر اوقیانوس کی گہرائی میں معلوم شدہ مقامات کے مطابق قیمتی مرجان اور اعلی نسل کی مچھلیوں کی اقسام کا پتا چلایا جا چکا تھا۔
امریکی سرکار نے ان تک رسائی کے لیے ایک تحقیقی سفر کا اجازت نامہ جاری کیا، جو چار ماہر سائنس دانوں کی ٹیم اور 12 سال کے ابراہیم پر مشتمل تھا۔ ابراہیم کے لیے یہ سفر بہت اہمیت کا حامل تھا۔ ابراہیم پہلی بار کسی آب دوز میں سفر کرنے والا تھا اور اجازت نامے پر سب کے دستخط لیے جا چکے تھے۔
آب دوز میں بیٹھنے سے پہلے امریکی کوسٹ گارڈ آب دوز کا تنقیدی جائزہ لے رہے تھے کہ اس میں آکسیجن وغیرہ کی فراہمی درست ہے یا نہیں۔ باقی تمام پرزہ جات کی چیکنگ جاری تھی۔ اللہ،اللہ کر کے وہ وقت آیا کہ جب اس ٹیم کو کینیڈین بحری جہاز پولر پرنس کے ذریعے مقررہ مقام تک پہنچنا تھا۔ آب دوز کو غوطہ لگانے والے مقام پر ریکوری پلیٹ فارم سے ربڑ کی کشتی میں پہنچایا گیا۔ ابراہیم کو اپنے والد سمیت اس آب دوز میں بیٹھنا تھا۔ آب دوز میں صرف آلتی پالتی مار کر بیٹھا جا سکتا تھا یا پھر پیروں کو پھیلایا جا سکتا تھا۔ امریکن کوسٹ گارڈ نے آب دوز کو مکمل طور پر باہر سے بند کر دیا۔ یہ دیکھ کر ابراہیم پریشان ہوا کہ وہ سب اب کسی طور خود سے باہر نہیں نکل سکتے ، جب تک کہ کوسٹ گارڈ اس کو باہر سے نہ کھول دیں۔ اس نے دل ہی دل میں سفر کی دعا پڑھ لی۔ اور جب آب دوز نے سرکنا شروع کیا تو ابراہیم کا دل بیٹھنے لگا۔ ابراہیم ایک بہادر بچہ تھا اور اسے ان تمام باتوں کا پہلے سے علم تھا اس کے باوجود اس کو جھرجھری آ گئی۔
بحر اوقیانوس کے سمندر میں ابھی انھیں 4000 کلو میٹر تک گہرائی میں پہنچنا تھا۔ مچھلیوں کی نئی نئی اقسام دریافت کیے جانے والے مقام تک پہنچنے کے لیےآپ دوز جوں جوں گہرائی میں اترتی جا رہی تھی اُتنا ہی زیادہ اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا، سوائے اس جگہ کے جہاں آب دوز موجود تھی اور اس کے ارد گرد صرف گھور اندھیرا تھا۔ وحشت سے ابراہیم کا جسم سرد پڑنے لگا۔ اس کے والد اسے بتا رہے تھے کہ “اس وقت پانی کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ جیسے برج خلیفہ کا پورا وزن ہم پر ڈال دیا جائے۔”
جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے تیز روشنی کے آلات سے اندھیرے کو چیرا جا رہا تھا۔ مدہم مدہم خاکے نمایاں ہو رہے تھے۔ ایک مقام پر پہنچ کر سگنلز ملنے لگے۔ آپریٹنگ سسٹم کے تحت سمندر سے باہر موجود عملے سے مسلسل رابطہ تھا۔ انھوں نے اشارہ ملتے ہی اسی جگہ پر تلاش کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ تین فش روبوٹس بھی سمندر میں بھیجے جا چکے تھے۔ باقی کا کام ان روبوٹنگ سسٹم کی مدد سے کیا جانا تھا۔
جیسے ہی آب دوز نے اپنے مقررہ مقام تک پہنچنا شروع کیا، ابراہیم کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ آب دوز کے شیشے سے باہر کا نظارہ ناقابل یقین تھا۔ گہرے سمندر کی دنیا، جہاں روشنی کی کمی اور دباؤ کی زیادتی نے اسے ایک عجیب و غریب ماحول بنا دیا تھا، ایک خواب کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔
ابراہیم نے روبوٹک فش کو متحرک کرنے کا حکم دےدیا۔ جیسے ہی روبوٹک فش حرکت میں آئی، اس نے اپنے ارد گرد کی تفصیلات کو کیمرے میں قید کرنا شروع کیا۔ یہ فش چھوٹے سوراخوں اور دراڑوں میں با آسانی داخل ہو سکتی تھی، جو انسانوں کے لیے ناقابل رسائی تھیں۔
سائنسی ٹیم نے سمندر کی تہہ میں مختلف مقامات کی تصاویر اور ویڈیوز بنائیں، جن میں رنگ برنگی مرجان، نایاب مچھلیاں اور دوسری سمندری حیات شامل تھیں۔ ایک مقام پر، روبوٹک فش نے ایک نایاب نوع کی مچھلی کو قید کر لیا، جس کے بارے میں ابھی تک معلومات نہیں تھیں۔
اسی دوران، ان کی نظریں ایک بہت ہی قیمتی مرجان پر پڑیں۔ مرجان کا یہ ٹکڑا بہت بڑا اور خوبصورت تھا اور اس کی سطح پر مختلف رنگوں کی روشنی چمک رہی تھی۔ ابراہیم کے والد نے فوری طور پر مرجان کے نمونے کو نکالنے کے لیے روبوٹک فش میں موجود خصوصی آلات کو فعال کیا۔ یہ ایک انتہائی دقیق کام تھا ،کیوں کہ مرجان کو نقصان پہنچائے بغیر نکالنا بہت مشکل تھا۔
جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے روبوٹک فش نے اپنے مخصوص آلات کے ذریعے مرجان کو بڑی احتیاط سے کاٹ کر نکالنا شروع کیا۔ ہر حرکت انتہائی محتاط تھی تاکہ مرجان کی قدرتی خوبصورتی برقرار رہے۔ چند منٹوں کی محنت کے بعد، مرجان کا ٹکڑا کامیابی سے نکال لیا گیا۔ جیسے ہی مرجان کا ٹکڑا نکالا گیا، ٹیم نے خوشی سے نعرے بلند کیے اور ابراہیم کے والد نے اسے دیکھتے ہوئے کہا: ”یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے، ہم نے ایک نیا خزانہ دریافت کیا ہے۔“
ابراہیم نے کمپیوٹر اسکرین پر اس نایاب مرجان کو دیکھا اور خوشی سے چیخ اٹھا۔ اس کے والد نے اسے مبارک باد دی اور کہا کہ ”ابراہیم! تم نے آج نئی تاریخ رقم کر دی ہے! سچ تو یہ ہے کہ یہ تحقیقی سفر تمام دنیا پر ایک نیا راز کھولے گا سمندر کی گہرائیوں کے بارے میں جاننے میں مزید اضافہ کا باعث ہو گا۔“
یہ تحقیقی مشن کامیابی سے مکمل ہوا اور جیسے ہی وہ سطح پر ابھرے کوسٹ گارڈ آب دوز کو باہر سے کھولنے کے لیے بڑھے ۔
ربڑ کی کشتی کے ذریعے انھیں اس مقام پر پہنچایا ، جہاں سب ان کی کامیابی کا جشن منانے کے لیے موجود تھے ۔ امریکی سرکار اور دوسرے ممالک کے سائنس دانوں نے ان کی اس کامیابی کو سراہا اور مستقبل کے منصوبوں میں شامل ہونے کی پیشکش کی۔
دنیا بھر میں ابراہیم کی قابلیت کے چرچے ہوگئے ۔
:ابراہیم نے ایک نئے عزم کے ساتھ اپنے والد سے کہا: ”ابا جان! میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہوں گا اور ہم مزید ایسی دریافتیں کریں گے۔“ اس کے والد نے مسکرا کر کہا
“بیٹا! تم یقیناً ایک عظیم سائنس دان بنو گے”
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.