سردیوں کا آغاز آغاز تھا دھند نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ دھند کا یہ منظر انتہائی خوفناک ہونے کے باوجود دل کو بہت بھلا محسوس ہورہا تھا۔
دور دور مساجد سے حمدیہ اشعار کی صورت میں ﷲ قادرِ مطلق کی ثناء کی آوازیں پرسکون سا احساس دلارہی تھیں۔
یونہی کچھ دیر بعد دودھ والے کی موٹر سائیکل کی آواز آئی تو فوراً ذہن میں سورۃ نباء کی آیت وہ آیت آئی جس میں ارشاد ہے کہ دن معاش کے لیے بنایا گیا ہے۔
یعنی؛
’’وَجَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا‘‘
اور احساس ہوا کہ کچھ لوگ جیسا کہ یہ دودھ والا روزگار کو جاچکے تھے اور کچھ جانے کو تیار اپنے دن بھر کے کاموں کے لئے ﷲ رب العزت سے طالبِ نصرت تھے۔
میں دالان میں چکر لگار ہی رہی تھی کہ روشنی میں اضافہ ہونے لگا اور میں نے دیکھا کہ دھند میں ایک باریک سی کرن نمودار ہوئی یعنی صبح کا ستارا نمودار ہوکر دھیرے دھیرے عالمِ کائنات کو اپنی روشنی سے منوّر کرنے لگا تھا۔
اگرچہ یہ بہار کا موسم نہیں تھا لیکن اس کے باوجود دالان بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔
شبنم میں نہائے پرانے پتے عجب خوشنمائی پیش کررہے تھے۔
ہلکی ہلکی ختم ہوتی دھند اور پھر نرم دھوپ ایک دلکش سماں تھا۔ سورج کی صاف شفاف روشنی بہت بھلی محسوس ہورہی تھی اور اس دلفریب و خوبصورت صبح کے ساتھ دن کے آغاز نے نفسیاتی و روحانی سکون مہیا کرکے طبیعت میں تروتازگی پیدا کردی تھی۔
رات کے سیاہ لبادے اور دھند کے خوفناک اندھیرے کو ننھی ننھی کرنوں نے تارتار کردیا۔ آفتاب کی باریک سی کرنوں سے تاریکی و دھند میں دراڑیں پڑ جانے سے باطل کے عارضی اور حق کے دائمی ہونے کا احساس بذریعہِ مشاہدہ ہوا تو طبیعت سرشار ہوگئی۔
سورج کی کرنیں ﷲ جل جلالہ کے ارشاد
’’وَجَعَلْنَاسِرَاجًاوَّھاجَا‘‘
کی منہ بولتی تفسیر پیش کررہی تھیں۔
اسی اثناء میں پرندوں نے بھی چہچہانا شروع کردیا اور اپنے اپنے انداز میں ذاتِ باری تعالیٰ کی حمدوستائش بیان کرنے لگے اور
پرندوں کی چہچہاہٹ ماحول کی دلکشی میں اضافہ کرنے لگی۔
کوئل کُوکُو کرتی اپنے انداز سے میں ا ﷲ کی ثناء میں مشغول تھی اور مرغ بھی اپنی بانگ کی صورت میں خالقِ دوجہاں کی کبریائی بیان کررہا تھا۔
یہ دلکش منظر دیکھ کر میں دل ہی دل میں خود کو سرزنش کرنے لگی کہ میں کیونکر فجر کے بعد سوکر اب تک اس قدر دلکشی سے محروم رہی۔
صبح کے اس پرکیف منظر نے دلِ مضطرب کو اطمینان و سکون کی دولت سے لبریز کردیا اور میں اس منظر میں کھوکر رہ گئی۔
میں یونہی گم سم سی کھڑی تھی کہ اندر سے امی کی آواز آئی میں نے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو آٹھ بج چکے تھے۔
افففففف! میں بھی نا۔
میں زیرِ لب بڑبڑائی اور اندر کی طرف چل دی کیونکہ اب امی کے ساتھ مل کر ناشتہ بھی تو بنانا تھا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.