از حفصہ سلطان
مری کے ایک خوبصورت گاؤں میں چھوٹے سے گھر میں ایک بزرگ، بابا فضل بخش رہتے تھے ۔
بابا فضل بخش کا معمول تھا وہ صبح سویرے اٹھتے اور نماز ادا کرتے، قرآن کی تلاوت کرتے اور صبح سویرے کے پر نور منظر کو آنکھوں سے دیکھنے کے لیے چہل قدمی پر جاتے تھے ۔
بابا فضل بخش کا ایک پوتا تھا، عبداللہ، وہ عموماً دیر سے اُٹھتا تھا لیکن ایک دن عبداللہ نے سوچا کہ وہ بھی اپنے دادا کے ساتھ چہل قدمی کرنے جائے گا۔
صبح صادق کا وقت تھا، اذان کی آواز ہر سو گونج رہی تھی۔ عبداللہ بستر سے اٹھا اور دادا جان کے پاس آیا، دادا جان نماز کے لیے وضو بنا رہے تھے۔ عبداللہ نے بھی وضو کیا اور پھر نماز ادا کی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد دونوں چہل قدمی کے لیے کھیتوں کی طرف چل دیے۔
ہلکی ہلکی ہوا نے دونوں کا استقبال کیا، پرندے ہر سو چہچہا رہے تھے۔ یہ پر نور منظر دیکھ کر عبداللہ کے اندر سکون کی ایک لہر دوڑ گئی۔ یہ منظر راحت بخش تھا۔ ہلکی ہلکی روشنی اُفق پر نمودار ہونے لگی۔ عبداللہ نے آسمان کی طرف دیکھا تو اُس کی آنکھیں چُندھیا گئیں۔ بابا فضل بخش نے کہا،بیٹا “صبح کا وقت سونے کے لیے نہیں بلکہ جنت کی ہوا پینے کے لیے ہے۔”
دادا جان نے عبداللہ کو سمجھایا، “بیٹا، زندگی میں ہر چیز اپنے مقررہ وقت پر ہوتی ہے؛ سونا، جاگنا، سورج کا طلوع ہونا اور غروب ہونا وغیرہ، سب کا ایک وقت ہے۔ صبح کا یہ وقت محنت اور دعا کا ہے۔ اگر اس وقت کو ضائع کرو گے تو کامیابیوں سے محروم ہو جاؤ گے۔”
عبداللہ نے دادا جان کی بات پر ہولے سے سر کو ہاں میں جنبش دی اور دل میں عہد کیا کہ اب وہ روزانہ صبح سویرے دادا جان کے ساتھ چہل قدمی کرنے آئے گا اور قدرت کے ان پر نور مناظر کو آنکھوں سے دیکھے گا، کیونکہ یہ منظر تازگی اور روح کو سکون بخش رہا تھا۔
کہانی کا سبق
آیئے ہم بھی وقت کی قدر کریں اور عہد کریں کہ ہم وقت کو ضائع نہیں کریں گے اور چہل قدمی کو اپنا معمول بنائیں گے۔ یہ صحت کے لیے مفید ہے اور اس سے ہمیں قدرت کے مناظر دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.