از؛ حفصہ محمد فیصل
“میں اداس نظروں سے آسمان کو تکے جارہا تھا ۔ تارے گننے کا محاورہ تو بچپن سے سنا تھا، مگر آج پچپن میں پہنچ کر اس معاملے کی حقیقت کو جان پایا تھا ۔زندگی کتنی خوبصورتی اور نظم کے ساتھ گزر رہی تھی کہ اچانک نبیلہ میرا ساتھ چھوڑ گئی۔میرےچھوٹے چھوٹے کام سے لے کر بڑے بڑے کاموں تک نبیلہ نے اپنے ذمے سنبھالے ہوئے تھے۔ جیسے میں ایک چھوٹا بچہ ہوں اور اسےاس کی ماں ہر وقت اپنی آغوش میں چھپائے رکھتی ہو۔
کبھی کبھی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ؛”میری ماں نے بھی مجھے اس طرح نہیں سنبھالا ہوگا ,جیسے نبیلہ نے میری ضرورتوں کو محسوس کیا اور میرے کہنے سے پہلے اس چیز کو میرے سامنے پیش کردیا،اکثر ایسا ہوتا کہ خواہش ابھی میرے ذہن اور دل میں ہی میں مچل رہی ہوتی کہ وہ میرے سامنے لا کر حاضر کر دیتی۔“
اکثر میرا دل چاہتا کہ اسے کہوں کہ” تم کوئی جن ہویا چھلاوا کہ کہنے سے پہلے ہی کیفیت جان جاتی ہو۔” مگر وہ میں ہی کیا، جو نبیلہ کی تعریف کرتا میں نے تو اسے ہمیشہ اپنی باندی تصور کیا۔
ہاں!وہی باندی جو اپنے آقا کی تابعدار ہوتی ہے۔ میں تو وہ تھا جو اپنی باندی کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔ میں کیسے اسے تعریف کے دو بول بولتا یا اس کا دل بڑھاتا۔
مجھے تو اپنی انا کا زعم تھا اور یہی زعم مجھے لے ڈوبا۔
آج نبیلہ چپکے سے مجھے چھوڑ کر اپنے حقیقی آقا سے جا ملی۔
وہ آنکھیں موندے، پاکیزہ چہرہ لیے کفن میں لپٹی مسکرا رہی تھی، ایسا لگتا تھا کہ “میری خدمت کے عوض اللہ کریم نے اسے اعزازات و اکرامات سے نواز دیا ہے ،میری تعریف اور تحسین کی اب اسے قطعاً کوئی ضرورت نہ رہی تھی۔ جو اصل تعریف والا اور نوازنے والا تھا۔ نبیلہ کی صحیح معنوں میں قدر کر چکا تھا۔”
اب میں اپنی وفا شعار اور تابعدار بیوی کی یاد میں آسمان کے تارے گن رہا تھا۔مجھے آج محسوس ہو رہا ہے کہ؛”مجھے نبیلہ سے کتنی محبت ہے۔“
مگر اب وہ ہی نہ رہی جسے یہ سب بتانا تھا۔
میرے بچوں کی تربیت بھی وہ اسی نہج پر کر گئی تھی کہ تابعداری ان کی گھٹی میں ڈال دی تھی۔ آج میں سوچتا ہوں کہ اس نے کتنی مشقتوں اور پریشانیوں سے میرے بچوں کی تربیت کی ہوگی، بچے تو میرے بھی تھے مگر میں ہمیشہ پیسے دے کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گیا، آگے نبیلہ جانے اور اس کے بچے، مگر اس نے اس بات پر بھی کبھی شکوا نہ کیا، نہ ہی میری بے اعتنائی پر ناک منہ چڑھائے۔
وہ ایک صابر، شاکر اور قناعت پسند عورت تھی۔ اس نے اپنی عادات میرے بچوں میں بھی اتار دی تھیں۔زندگی بہت آرام سے گزر رہی تھی یہاں تک کہ بچوں کی شادیوں کی ذمہ داری، چھان پھٹک ہر چیز سے نبیلہ نے مجھے آزاد کردیا تھا۔اس نے خاموشی کے ساتھ اندر، باہر ہر قسم کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی تھی۔ نیک داماد اور تابعدار بہوؤں کے انتخاب نے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈا کردیا تھا ۔بے شک یہ انعام اس کی پارسائیوں کا صلہ تھا مگر میں اس موقع پربھی ایک جملہ، فقط ایک جملہ بھی اس کی تعریف کا نہ بول پایا۔
ہاں !اکثر میں دل ہی دل میں اس کی صلاحیتوں کا معترف ہوتا رہتا مگر اظہار ۔۔۔۔وہ تو میری سرزشت میں تھا ہی نہیں۔
چند دنوں سے وہ مجھے نڈھال نڈھال اور جھکی جھکی سی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے کئی بار سوچا کہ اس سے اس کیفیت کی وجہ پوچھوں، مگر وہی انا کا زعم آڑے آگیا اور اب کف افسوس ملنے کے سوا میرے پاس کچھ نہ رہا تھا۔
میں اپنی شریک سفر اور خدمت گزار بیوی سے لمحوں میں محروم ہوگیا تھا۔ اس نے اپنی خدمت کا موقع ہی نہ دیا بلکہ اپنے احساسات کو دل میں دبائے س جہان فانی سے رخصت ہوگئی۔
میرے بچے آج کل اپنے ماں کی طرح میرے لیے بہت فکرمند ہیں۔ آج علیحدگی میں میری تنہائی دور کرنے کے سدباب تلاش کر رہے ہیں۔ میری تنہائی اور افسردہ شکل دیکھ کر بہت دکھی اور پریشان رہتے ہیں۔
مگر آخر بچے ہی ہیں نا!! وہ کیا جانیں، ان کی ماں میرے ساتھ ،آس پاس ہے۔
وہ جسمانی طور پر تو مجھ سے دور ہو گئی ہے مگر روحانی طور پر میرے دل میں ہے، میرے قریب ہے، میں اب تو اس کی قدر پہچانا ہوں۔”اصل محبت تو اب ہوئی ہے۔“
میں اب اس سے گھنٹوں باتیں کرتا ہوں اور اس کی تعریف کرتا ہوں۔ اب میرے پاس اس کےلیے وقت ہی وقت ہے ،پہلے جب وہ میری متمنی تھی، تب میں اپنے دوست، احباب اور سوشل میڈیا پر وقت گزارا کرتا تھا۔ میرے انتہائی قریب ہوتے ہوئے بھی وہ مجھ سے کوسوں میل کےفاصلے پر خود کو محسوس کر تی تھی اور میں وہ فاصلے مزید بڑھائے جا رہا تھا۔ اور پھر اس نے ان فاصلوں سے سمجھوتا کر لیا ،انہیں اپنا دوست و رفیق بنالیا پھر ساری زندگی انہی فاصلوں کو سینچتے ہوئے گزار دی، آخری لمحے تک شکایت نہیں کی۔
میرے بچے دوسری امی لانے کا سوچ رہے ہیں۔ کیا دوسری ماں، پہلے کی جگہ لے سکتی ہے؟
ایک جگہ میں نے پڑھا تھا کہ؛”پہلی بیوی لاڈ اٹھاتی ہے جبکہ دوسری بیوی لاڈ اٹھواتی ہے۔“
میں تو لاڈ اٹھوا کر بگڑ گیا ہوں، مجھ میں کہاں ہے اتنا ظرف کہ میں کسی کے لاڈ اٹھا سکوں۔ نبیلہ تمہاری محبت کو میں سلام پیش کرتا ہوں۔
تارے گنتے گنتے میری زندگی کی سانسیں بھی ہولے ہولے چلنے لگیں، سانس دگرگوں ہو رہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سر پر کوئی ہتھوڑے برسا رہاہے، مگر پھر سامنے آسمان پر نبیلہ کی شبیہ ابھری۔
وہ مجھے دونوں ہاتھوں سے اپنے پاس بلا رہی تھی اور میں دوڑ کر اس کے پاس جانے کےلیے مچل رہا تھا۔ میرے بچے بے جان وجود کو جلدی جلدی اسٹریچر پر ڈال کر ہسپتال کی طرف دوڑے، مگر وہ کیسے سمجھتے کہ ان کےباپ کی تنہائی اور غم ختم ہوگئے۔ اب وہ ان کی ماں کے ساتھ جنت کے باغیچوں میں وقت گزارا کریں گے اور حوروں کی سردار اپنی نبیلہ کی محبت کے دم بھریں گے۔
آہ! اصل محبت تو اب ہوئی تھی۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.