شہزینہ یوسف
یونیورسٹی آف سرگودھا ،
دسمبر کی آخری شام تھی وہ چائے کا کپ ہاتھوں میں لئے آج چار سال بعد پھر اپنے گھر کے نسبتاً تاریک اور اپنے پسندیدہ حصے میں موجود تھی اس نے چار سال پہلے یہاں بیٹھنا ترک کردیا تھا آج پھر وہ اسی جگہ موجود تھی ارد گرد کی خاموشی اسے بہت بھلی معلوم ہورہی تھی درختوں کے پتے جھڑ چکے تھے اور دل پہ بھی کئی پت جھڑ کے موسم گزر چکے تھے۔
*یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ کھلی آنکھوں خواب دیکھا کرتی تھی* کھلی آنکھوں خواب دیکھنے کا بھی الگ ہی مزہ ہے آپ کچھ لمحوں کے لئے ہی سہی اپنی پسند کی دنیا تخلیق کرلیتے ہیں اس لمحے آپ بے انتہا خوش اور مطمئن ہوتے ہیں لیکن کچھ دیر بعد ہی آپ کو دوبارہ سے حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور یہ خاصا تکلیف دہ بھی ہوتا ہے اور اس دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے خیالوں ہی خیالوں میں پسند کی دنیا تخلیق نہ کی ہو اپنے پسند کے مناظر کو اپنے تخیل میں ترتیب نہ دیا ہو اور خوش نہ ہوا ہو
ماورا نے بھی اسی جگہ پر بیٹھ کر کھلی آنکھوں ایک خواب دیکھا تھا اس نے اس خواب کی تعبیر کے لئے دن رات ایک کردئیے۔
“اس نے خواب دیکھا تھا کہ وہ شہر کے سب سے بڑے ہسپتال میں سفید کوٹ پہنے مختلف بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی داد رسی کررہی ہے”
وہ دسمبر کی طویل راتوں میں ساری ساری رات جاگ کر پڑھا کرتی اس نے بھر پور محنت کی اب اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کی منزل بہت قریب ہے لیکن یہ محض ہماری خام خیالی ہے کہ ہم صرف محنت کر کہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔
اس کو دسمبر بہت پسند تھا اور سرگودھا کا دسمبر تو ایسا ہوتا ہے کہ اس مہینے میں حدت منہ چھپاتی ہے اور دھوپ کی تمازت گدگداتی ہے اس لئے اسے سرگودھا کا دسمبر تو اور بھی زیادہ پسند تھا اس کی زندگی میں بھی کئے دسمبر آئے اور چلے گئے صاف ظاہر ہے جب دسمبر آیا تو دسمبر کی آخری شامیں بھی آئیں *وہ بھی ماہ تمام کی ایک آخری نامہربان شام تھی۔*
جب اچانک پڑھتے پڑھتے اسے عجیب سی گھٹن محسوس ہوئی اسے سانس لینے میں شدید دقت محسوس ہورہی تھی اماں مجھے کچھ ہو رہا ہے اماں اٹھیں
اسے لٹایا گیا تھا۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہ شدید تکلیف میں تھی ۔۔۔۔۔ پھر کیا ہواتھا۔۔۔۔۔ تشخیص ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ کہ اسے دمہ/ آزما ہو گیا ہے
اور اس بیماری نے اس کے سارے خواب چکنا چور کردئیے اس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب خواب ہی رہ گیا۔
اس کو دسمبر بہت پسند تھا لیکن اب دسمبر اس کے لئے اذیت ناک ہوتا تھا اس کی بیماری کی شدت زور پکڑ لیتی تھی اسے دسمبر سے نفرت محسوس ہونے لگی
کوئی چیز خواہ آپ کو کتنی ہی محبوب ہو جب آپ کیلئے تکلیف کا باعث بنتی ہے تو آپ کو اسے چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔
اور اس کے لئے دسمبر مسلسل تکلیف کا مہینہ ہوتا اور کسی بھی بیماری میں مبتلا شخص بہتر طور پر جان سکتا ہے کہ دسمبر کی طویل راتوں کو کسی بیماری کے ساتھ گزارنا کس قدر مشکل ہوتا ہے اور اس کی بیماری تو رات کے پچھلے پہروں میں شدت پکڑتی تھی اور اس کے لئے یہ طویل رات گزارنا بہت صبر آزما ہوتا
جب آپ عام لوگوں کی طرح سانس ہی نہ لے سکیں آپ اس لمحے جو اذیت محسوس کرتے ہیں وہ بیان سے باہر ہے۔۔
اسے سانس لینے کی بھی قیمت ادا کرنا پڑتی یہ بہت تکلیف دہ احساس ہوتا ہے کہ آپ کو سانس لینے کیلئے بھی سوچنا پڑتا اب اس کو موت قریب محسو س ہونے لگی تھی
ایک کے بعد دوسری سانس تک کا دورانیہ محض کچھ سیکنڈ کا بھی بڑھ جاتا تووہ اپنے آپ کو وہاں محسوس کرتی جہاں کوئی بھی ذی شعور انسان محض خود کو وہاں دیکھنے کے تصور سے ہی کانپ اٹھتا ہے۔
*”موت کا خوف ہر خوف سے بڑا خوف ہوتا ہے اس نے خود کو اس خوف سے آزاد کر لیا تھا”* شاید اس بیماری کی وجہ سے۔۔ اس نے موت کو اتنی دفعہ اتنے قریب سے دیکھ لیا تھا۔”
اسے خوابوں سے ڈر لگنے لگ گیا تھا اس نے خواب دیکھنے چھوڑ دئیے
لیکن کہا جاتا ہے کہ جتنی مرضی بڑی تکلیف ہو وقت مرہم کا کام بخوبی سر انجام دیتا ہےان چار سالوں نے اسے بھی کافی تبدیل کردیا
۔ اس نے اس بیماری کے ساتھ جینے کا حیرت انگیز فیصلہ کیا
اس شام میں معمول کے مطابق گھر کام کررہی تھی ماورا کو میں آج اس کی پسندیدہ جگہ پہ اتنے سالوں بعد دیکھ کہ بہت خوش تھی میرے قریب بیٹھتے ہوئے کہنے لگی اماں زندگی بہت خوبصورت ہے ناں میں نے اس بیماری کو خواہ مخواہ بہانا بنا لیا تھا میری زندگی تو ابھی بہت خوبصورت ہے دسمبر بھی کتنا خوبصورت ہے خالی بانہوں کے درخت بھی خوبصورت لگ رہے ہیں بس کچھ وقت کی ہی تو بات ہے پھر ان پر ہر یالی آئے گی یہ تو مایوس نہیں ہوتے جانے میں کیوں مایوس ہو گئی تھی میں نے خواب دیکھنا کیوں چھوڑ دیے تھے وہ ڈرتے ڈرتے کہنے لگی۔
*”اماں میں نے آج پھر ایک خواب دیکھا ہے”*
میں نے اس سے پوچھا نہیں کہ کیا خواب دیکھا ہے
اماں میں اتنا تو جان چکی ہوں زندگی میں خواب ہونا کس قدر ضروری ہیں خواب کی تعبیر ہوناہو یہ ضروری نہیں خواب دیکھنا ضروری ہیں خوابوں کے بغیر تو زندگی گزارنے کا مزہ ہی نہیں۔
“ان خوابوں کی تعبیر پورا ہونے کا انتظار ہی تو زندگی کی دلچسپیوں کو برقرار رکھتا ہے”
۔ اس نے لمبے سنھرے بالوں کی لٹوں کو چہرے سے ہٹا یالمبا گہرا سانس لیا اورغور سے ماہ تمام کےآخری سورج کو دیکھنے لگی جو دور افق پہ ڈوب رہا تھا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.