آج کل فیس بک اور ٹونٹر پر کچھ ایسی پوسٹ پڑھنے کو ملتی ہیں۔جنہیں پڑھ کرحیرت ہوتی ہے نہ غصہ آتا ہے۔ بلکہ لکھنے والوں پر ترس آتا ہے ہمدردی ہوتی ہے کہ ہم امت محمدیہ جنہیں امت وسط کہا گیا ہے جن پر اسلام کو دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری ہے خود اسلام سے ہمارا دور دور تک واسطہ نہیں تو دوسروں کو کیا بتائیں گے۔
یوں تو ہمارے ہاں کے تعلیمی ادارے تعلیم کے علاوہ سب کچھ ہی پڑھا رہے ہیں ہر وہ حرام کام سکھا رہے ہیں جو اسلام میں ممنوع ہے لیکن لمز یونیورسٹی ان سب خرافات میں نمبر ون ہے۔کبھی انڈین موویز کے کریکٹرز بن کر لڑکے لڑکیاں ہندووں کا روپ دھارے یونیورسٹی میں ناچتے اور ہولی مناتے نظر آتے ہیں توکبھی اسٹوڈنٹس کی جعلی شادی کرتے۔
نکاح ایک مقدس فریضہ اور سنت رسول ہے۔ جس کا ذکر متعدد بار قرآن کریم میں آیا ہے یوں یہ شعائر اللہ میں سے ایک ہے۔لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم نے داڑھی، پردے، پابندی نماز، روزے اور دیگر اسلامی اعمال کی طرح اس کا بھی کھیل تماشہ اور مذاق بنا لیا ہے۔
عدنان صدیقی نامی اداکار کی ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں موصوف ٹی وی پر کوئی انگلش مووی دیکھ رہے ہیں اور دوسرے اداکار انہیں رمضان کے چاند کی اطلاع دیتے ہیں تو وہ فورا ٹی وی بند کر کے نوکر سے کہتے ہیں کہ ٹی وی پر کور چڑھا دو۔
کیا شوبز صرف رمضان میں حرام ہوتا ہے اور باقی سارا سال جائز؟ اور کیا صرف نماز پڑھتے ہوئے یا رمضان میں تصویریں، مجسمے اور ٹی وی کور کر دینا کافی ہے؟ اگر آپ واقعی ہی احکام الٰہی مانتے ہیں اللہ کا تقوی ہے تو سارا سال ان کاموں سے اجتناب برتیے جن سے اللہ تعالٰی نے منع فرمایا ہے۔
ٹی وی کور کر دینا لیکن ڈراموں فلموں میں کام کرنا کیا احترام رمضان اور احترام الٰہی کے منافی نہیں؟؟؟ اگر ٹی وی پر چلنے والے فوڈ آئٹمز اور کولڈ ڈرنکس کے اشتہارات دیکھیں تو وہ کچھ ایسی تصویر پیش کر رہے ہوتے ہیں جیسے روزہ رکھ کر بھوکا پیاسا رہنا اور روزمرہ کے کام کرنا ظلم ہے۔اور جونہی روزہ افطار ہو ان کولڈ ڈرنکس کو اپنے اندر انڈیلنا کار خیر۔جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کولڈ ڈرنکس صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
اور روزے کا مقصد روزانہ بلا ناغہ پکوڑے، سموسے، چاٹ، پیٹزا، اسپگیٹی، برگرز، آئس کریم، اور دیگر ڈیلیکیسیز ٹھونس کر بیمار ہونا اور نماز پڑھنے سے بھی بیزار ہونا ہرگز ہرگز نہیں۔اللہ تعالٰی نے روزے اس لیے فرض کیے تاکہ ہم اپنے نفس کی خواہشات کو قابو کرنا سیکھیں۔ کھانے، پینے، دل، دماغ، ہاتھ، پاوں، آنکھیں کان،زبان وغیرہ سے کوئی بھی برا کام کرنے سے رکیں۔یہ برائیاں چھوڑنے اور اچھائیاں اپنانے اور نیکیاں کرنے کا مہینہ ہے کھاپوں کا نہیں۔اس لیے اپنا وقت ان ڈشز کو بنانے اور کھانے میں ضائع کرنے کی بجائے عبادات میں صرف کریں تاکہ رمضان کا حق ادا کر سکیں۔
مختلف چینلز پر ڈائٹیشنز اور ڈاکٹرز سارا،رمضان آپ کو یہ بتاتے نظر آتے ہیں کہ سحر و افطار میں کیا کچھ کھانے سے آپ کی توانائی بحال رہے گی اور روزہ نہیں لگے گا۔ذرا یہ سوچیے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام کیسے صرف چند کھجوریں کھا کر اور پانی پی کر سارا دن جسمانی مشقت بھی کرتے تھے اور عبادات کی کثرت بھی؟
لوگوں کو تو آٹا اور گھی بھی میسر نہیں اور آپ انہیں یہ کہہ رہے ہیں کہ پھل، دودھ، ٹانکس اور ڈرائی فروٹس لیں۔مجھے تو یہ لگتا ہے کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ جونہی رمضان شروع ہو گورنمنٹ کو پورے مہینے کے لیے ہر کام بند کر کے چھٹی دے دینی چاہیے اور یہ حکم دے دینا چاہیے کہ جی بھر کے کھائیں پئیں اور سوتے رہیں، ٹی وی دیکھیں، سوشل میڈیا استعمال کریں۔۔خبردار ہل کے کوئی کام نہ کریں ورنہ انتقال کا خدشہ ہے۔ کیونکہ آپ جیسے نازک لوگ بھوک پیاس برداشت نہیں کر سکتے۔
میں نے چند سال پہلے ایک ڈرامہ دیکھا تھا جس میں والد بیحد سخت طبیعت کے مالک شخص ہوتے ہیں بیگم اور دو بیٹیوں کو بالکل ویسے ہی رکھتے ہیں جیسے کہ اسلام نے مرد کو اپنے گھر کی خواتین خو رکھنے کا حکم دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈرامے میں انہیں شدت پسند دکھایا گیا تھا، وہ اپنی بیٹی کا نکاح ایک لڑکے سے کرتے ہیں۔جس دن نکاح ہونا ہوتا ہے وہ لڑکی اپنی سہیلی کے ساتھ گانے کے آڈیشن کے لیے کسی جگہ چلی جاتی ہے۔والد سخت ہیں مگر بیٹی اتنی بیباک اور خودسر کہ گانے کے آڈیشن کے لیے عین اپنے نکاح والے دن چلی جاتی ہے۔ والدہ کی اجازت ہوتی ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کے شوہر ان پر اور بچیوں پر بے جا پابندیاں لگاتے ہیں۔
ہوتا کچھ یوں ہے کہ شہر میں ہنگاموں کی وجہ سے ٹرانسپورٹ غائب ہو جاتی ہے۔اور لڑکی گھر نہیں پہنچ پاتی۔والدہ اس کی چھوٹی بہن کو دوپٹہ اوڑھا کر بٹھا دیتی ہیں اور بہن کے منگیتر سے اس کا نکاح ہو جاتا ہے۔ جب رخصتی کی جاتی ہے تو لڑکی شوہر کو بتانا چاہتی ہے مگر والدہ اس کے سامنے منت زاری کر کے اسے روک لیتی ہیں کہ اگر اس کے والد کو معلوم ہوا تو بہت برا ہو گا۔ بہرحال لڑکی رخصت ہو کر چلی جاتی ہے مگر شوہر سے کھچی کھچی رہتی ہے۔لیکن جب شوہر اپنا حق زوجیت استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے سب بتانا پڑتا ہے۔اس سارے عرصے میں چھوٹی بہن جو کہ بڑی کی جگہ پر گھونگٹ اوڑھ کر بیٹھی تھی بہن کے شوہر سے التفات ظاہر کرنے لگتی ہے۔جس پر والدہ اور بڑی بہن اعتراض کرتی ہیں تو وہ دعوی کرتی ہے کہ نکاح تو اس کا ہوا ہے اس لیے شوہر بھی اسی کا ہے۔خاصی ہنگامہ آرائی کے بعد چھوٹی کو طلاق دلوائی جاتی ہے بڑی کا دوبارہ نکاح ہوتا ہے جبکہ والدہ اپنے گناہ پر نادم ہو کر خودکشی کر لیتی ہے۔
مجھے اس ڈرامے میں یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ نکاح کس کا ہوا ہو گا۔لہذا میں نے شیخ عاصم الحکیم کو ای میل کر کے پوچھا ان کا جواب تھا کہ خواہ نکاح پڑھتے وقت نام بڑی بہن کا لیا گیا تھا لیکن گواہان اور ولی کی موجودگی میں ایجاب و قبول چھوٹی نے ہی کیا اورنکاح نامے پر سائن بھی اسی نے کیے، خواہ بہن کے نام سے کیے، اس لیے نکاح چھوٹی کا ہی ہوا۔ بڑی بہن کی رخصتی سراسر ناجائز تھی۔اور والدہ کو اپنے شوہر کا تو اس قدر ڈر تھا کہ وہ گناہ کبیرہ کی مرتکب ہو گئی لیکن رب کریم سے ذرا نہ ڈری۔اس لیے سارا گناہ والدہ کے سر ہے۔
اس فتوی سے بہت سے مسائل واضح ہو جاتے ہیں۔ نکاح کے ویلڈ ہونے کے لیے گواہان اور ولی کی موجودگی شرط ہے۔نام اگر اپنا نہ بھی استعمال کیا جائے اور بھرے مجمعے میں ایجاب و قبول کیا جائے تو نکاح ہو جاتا ہے۔خواہ وہ مذاق میں ہی کیوں نہ ہو۔جیسے کہ ڈراموں اور فلموں میں ہو رہا ہے۔
جب لمز کے اس کارنامے کا چرچا سوشل میڈیا پر ہوا تو باعمل مسلمانوں کی طرف سے اعتراض کیا گیا اور یہی نکتہ اٹھایا گیا کہ یہ جعلی شادی اصل میں نکاح ہی تھا۔ان دونوں کی رخصتی کر دینی چاہیے۔جس پر لبرل برگیڈ خصوصا وہ لبرلز اور نام کے مسلمان فورا ایکٹیو ہو گئے جنہیں اسلام کی الف ب بھی نہیں آتی۔انہی میں سے ایک اداکار عثمان خالد بھی ہیں۔جنہوں نے اس سارے سیریس معاملے کو چٹکیوں میں اڑاتے ہوئے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر کچھ یوں لکھا۔
“اوہ میرے خدا میں نے بہت جلد بات کی.. پورا TL اس بحث سے بھرا ہوا ہے کہ آیا LUMS کے طلباء واقعی شادی شدہ ہیں؟
میں نے بہت سارے ڈراموں میں نکاح کے مناظر کیے ہیں معذرت خواہ ہوں خواتین مجھے لگتا ہے کہ میں اب آپ کا پتی پرمیشور ہوں۔”
ا س بارے میں علماء کی کیا رائے ہے یہ آپ سب اپنی پسند اور مسلک کے علماء حضرات سے پوچھ سکتے ہیں۔اور مجھے یقین کامل ہے کہ سب کی رائے شیخ عاصم سے متفق ہی ہو گی۔لیکن عالم اور مفتی سے ہی پوچھیے گا کسی قریبی مسجد کے اس خطیب سے نہیں جو پانچ یا آٹھ جماعتیں پڑھ کر قرآن کے حافظ یا قاری بن کر مسجد میں امامت کا فریضہ تو سرانجام دینے لگ جاتے ہیں مگر کسی اسلامی حکم اور مسئلے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہوتے نہ ہی ان مفتیان سے جنہوں نے کرسچئن پادریوں کی طرح من پسند فتووں کی دکان کھول رکھی ہے اور چند ٹکوں کے عوض کسی کا بھی من پسند فتوی دے دیتے ہیں ۔بلکہ کسی ایسے عالم اور مفتی سے پوچھیے جو کہ ڈگری کے ساتھ ساتھ فتوی دینے کا سرٹیفیکیٹ بھی رکھتا ہو اور شہرت یافتہ بھی ہو تاکہ وہ نص ، قرآن کی آیات اور احادیث کے حوالوں، کے ساتھ جواب دے۔
دوسری بات یہ کہ ہر مضمون اس کے اساتذہ سے ہی پڑھا جاتا ہے فزکس کے لیے کوئی اردو کا پروفیسر ہائر نہیں کیا جاتا تو کیا ہم اسلام ایسے اداکاروں سے سیکھیں گے جو خود حرام میں مبتلا ہیں۔یہ ایک الگ بحث ہے اور میرا موضوع یہ نہیں اس لیے مختصرا یہ لکھ رہی ہوں کہ شوبز میں جھوٹ، برہنگی، نامحرموں کا اختلاط، ناچ گانا وغیرہم جیسے اعمال اسے سوائے حرام کے مجموعے کے کچھ نہیں بناتے۔
جب ایک شخص شراب پیے گا ، رشوت لے گا، زنا کرے گا، جھوٹ بولے گا تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ ان افعال کو غلط یا حرام قرار دے گا؟ ہرگز نہیں! کیونکہ وہ خود یہ سب اسی لیے کر رہا ہے کہ اس کے نزدیک یہ سب جائز ہے۔تو کیا ایسے شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شعائر اللہ کے بارے میں فتاوی دے؟؟؟
پرانے وقتوں میں کسی شخص نے سنا کہ شام میں کسی نے کسی صحابی سے کوئی حدیث سنی تھی وہ اس شخص سے وہ حدیث سننے چل پڑا لمبا سفر کر کے پوچھتا پوچھتا اس شخص کے گھر پہنچا تو دیکھا وہ خالی ہاتھ کی اوک بنائے گھوڑے کو پچکار رہا تھا کہ وہ اس کے پاس دانہ کھانے آئے تو وہ اسے باندھ دے۔
مسافر وہیں سے الٹے پاوں لوٹ گیا رستے میں کسی نے ہوچھا مطلوبہ شخص سے ملاقات ہو گئی تو اس نے بتایا نہیں۔وجہ پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا:” جو شخص ایک جانور کے ساتھ دھوکہ کر سکتا ہے وہ اس قابل نہیں کہ دین سکھائے۔
ہمارے اساتذہ نے بھی ہمیں ہمیشہ یہی سکھایا کہ جب بھی کچھ پوچھنا ہو تو علماء سے پوچھو خصوصا اسلام کے بارے میں اس عالم سے پوچھو جو باعمل بھی ہو۔تو جناب جو شخص خود اسلام پر عمل نہیں کرتا شعائر اللہ کو برا سمجھتا ہو، ان کا مذاق اڑائے، حرام میں مبتلا ہو اس کی رائے کو صائب سمجھنے والے کی عقل ہی سلب ہو گی۔
اب آ جائیے اصل مسئلے کی طرف۔والدین بچوں کو تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرنے کی غرض سے بھیجتے ہیں تفریح اور کھیل تماشے اور حرام میں مبتلا ہونے کے لیے نہیں۔تفریح کے لیے پارکس، ہوٹلز اور دیگر مقامات موجود ہیں اور حرام کے لیے سینماز، شراب خانے، ڈانس کلب ، آرٹ اکیڈمیز۔لہذا تعلیمی ادارے اگر مہربانی فرماتے ہوئے اپنے کام پر ہی فوکس کریں توبہتر ہو گا۔
اور اگر انہیں بہت ہی شوق ہو رہا ہو تفریح کروانے کا تو ایسی تفریح کروائی جائے جس میں کسی حرام کا خدشہ نہ ہو۔ تیراکی، گھڑسواری، دوڑ، تیر اندازی وغیرہ کے مقابلے کسی قابل دید مقام کی سیر، ون ڈش پارٹی اور بہت سےسی ایسی ایکٹیویٹیز ہیں۔
اس سلسلے میں والدین بھی ذمہ دار ہیں کہ وہ یہ دھیان رکھیں کہ جہاں ان کے بچے جا رہے ہیں وہاں کا ماحول کیسا ہے اور بچے کن سرگرمیوں میں ملوث ہو رپے ہیں۔پیسوں کے ڈھیر خرچ کر کے تعلیمی اداروں پر تکیہ کر کے بیٹھ جانے سے والدین کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی۔اللہ تعالٰی ان سے ان کی اولاد کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے مواخذہ ضرور فرمائے گا۔اس لیے اپنی اولا پر کڑی نظر رکھیے اور انہیں فتنوں سے بچائیے۔ ان کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا اہتمام بھی کیجئے۔قرآن و حدیث ترجمے تفسیر اور شرح کے ساتھ پڑھائی اور اس پر عمل کرنے کا اہتمام بھی کیجئے تاکہ کل کو لمز کے اسٹوڈنٹس اور عثمان خالد کی طرح وہ بھی نکاح ، داڑھی، پردے، نماز، رزق حلال کا مزاق نہ اڑائیں۔
ہر رمضان میں جب ایسے نام نہاد مسلمان سحر و افطار کے وقت ناچ گانوں کی مخلوط محافل میں چند نام نہاد علماء اور فل میک اپ کیے نیم برہنہ خواتین کے پہلو میں بیٹھ کر دین کا تماشہ لگاتے ہیں تو اعتراض کرنے والوں کو یہ کہتے نظر آتے ہیں “اگر ہم اداکار ہیں تو کیا ہم مسلمان نہیں؟” تو بھئی یہ تو آپ بہتر جانتے ہیں کیونکہ ہم تو یہی جانتے ہیں کہ مسلمان اللہ کے ہر حکم کی اطاعت کرتا ہے۔کیا آپ ایسا کر رہے ہیں؟؟؟
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.